برطانیہ میں مہاجرین کا بحران/فرزانہ افضل

امیگریشن اور مہاجرین دو ایسے موضوعات ہیں جو نہایت حسّاس نوعیت کے حامل ہیں ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے مگر برطانیہ کی وزیر داخلہ سویلا براورمین نے پارلیمنٹ کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران اپنے مخصوص منہ  پھٹ انداز میں تارکینِ  وطن کے موجودہ بحران کو برطانیہ کے جنوبی ساحل پر مہاجرین کے “حملے” کے طور پر بیان کیا۔ جو کہ ایک ناپسندیدہ اور غیر دانشمندانہ عمل تھا ۔ گو کہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ برطانیہ کا امیگریشن سسٹم ٹوٹ چکا ہے۔

اس وقت میڈیا میں برطانیہ میں مہاجرین کا بحران اور ہوم سیکرٹری کی زبان موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ مگر اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہوم سیکرٹری کے ناشائستہ الفاظ کے انتخاب کو مدعا بنا کر امیگریشن کے اصل مسئلے پر کم توجہ دی جائے۔ اور فرانس کے سمندر کے ذریعے کشتیوں میں آنے والے غیر قانونی مہاجرین کے مرکزی مسئلے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اس سے قبل ماضی میں ڈوور اور دیگر بندرگاہوں پر پہنچنے والے پناہ گزین جو ٹرکوں میں چھپ کر سڑک کے راستے بھی برطانیہ آتے تھے اور جب اس وقت لیبر حکومت نے ناکام پناہ گزینوں کو ڈی پورٹ کرنے کی پالیسی اپنائی تو اس کو نسل پرستی کا نام دینے کی کوشش کی گئی۔ پناہ گزینوں کا “سیلاب” بھی ایسی اصطلاح ہے جو کبھی بھی غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کی جانی چاہیے۔

بہرحال میڈیا کی توجہ مناسب زبان کے استعمال پر کافی حد تک مرکوز ہے۔ اس بات میں قطعی کوئی دو رائے نہیں کہ عام شخص سے لے کر خصوصاً حکومت کو زبان کا مناسب اور شائستہ استعمال کرنا چاہیے۔ انگلینڈ میں مہاجرین کا بحران بد تر ہوتا چلا جا رہا ہے اس برس 2022 میں اب تک 40000 تارکین وطن برطانیہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ اور روزانہ کی بنیاد پر 1000 مہاجرین انگلش چینل کے ذریعے انگلینڈ میں آرہے ہیں۔ وہاں سے ان کو برطانیہ کے شہر کینٹ کے مینسٹن پروسیسنگ سینٹر میں لے جایا جاتا ہے جہاں پر قواعد و ضوابط کے مطابق انہیں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں رکھا جانا چاہیے ،ان کو ہوٹلوں اور مناسب رہائش گاہوں پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس سینٹر میں 1600 افراد کی گنجائش ہے مگر اس وقت چار ہزار مہاجرین اس میں بھرے ہوئے ہیں ۔ اس سینٹر میں 900 افراد کا عملہ کام کر رہا ہے وہاں پناہ گزینوں میں تشدد، بیماری اور خود کو نقصان پہنچانے کے روزانہ کے واقعات ہیں ، جن سے انہیں نمٹنا پڑتا ہے ۔ اس سینٹر میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد بھرے ہوئے ہیں جن کے رہنے سونے کا مناسب انتظام نہیں۔

اس بحران کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کی تشکیل شدہ روانڈا پالیسی شدید تنقید کا شکار ہے۔ جس کے تحت برطانیہ کے سابقہ ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے اپریل 2022 میں افریقہ کے ملک روانڈا سے مہاجرین اور اقتصادی ترقی کی پارٹنر شپ کا معاہدہ کیا۔ جس کے تحت غیر قانونی مہاجرین کو روانڈا بھیجا جائے گا اس معاہدے کا مقصد انڈین چینل کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی کرنا اور انسانی سمگلنگ کو روکنا ہے۔ اور روانڈا میں سرمایہ کاری اور ترقی کا فروغ ہے۔ اس کے بدلے میں برطانیہ روانڈا کو 120 ملین پاؤنڈ اور اس پروگرام کے اخراجات کی ادائیگی کرے گا۔ روانڈ کو محفوظ مقام ہرگز نہیں تصور کیا جاتا کیونکہ اسکا نام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کافی نمایاں ہے۔ لہذا یہ پروگرام ظالمانہ اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔

پریتی پٹیل نے غیر قانونی مہاجرین کی کشتیوں کو واپس سمندر میں فرانس کی طرف موڑ دینے کی خوفناک پالیسی بھی بنائی ۔ بہت سے تارکین وطن براستہ سمندر آتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان کی کشتیوں کو واپس سمندر میں دھکیل دینا ایک انتہائی ظالمانہ عمل ہوگا۔ مہاجرین کی فرانس کے سمندر کے راستے آمد کو کنٹرول کرنے کے لئے فرانس کی حکومت کی طرف سے تعاون اور اقدامات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کو بڑھائیں تاکہ لوگ غیر قانونی طریقے سے کشتیوں میں سوار نہ ہو سکیں۔ حالانکہ فرانس بذات خود ایک محفوظ پناہ گاہ ہے مگر بدقسمتی سے فرانس اس معاملے میں کوئی خاص تعاون نہیں کر رہا۔ کچھ چیریٹی اداروں نے تجویز پیش کی کہ یوکے کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ پناہ گزین برطانیہ آنے سے پہلے اپنی اسائلم کی درخواستیں جمع کروا سکیں اور وہ قانونی طریقے سے محفوظ کشتیوں اور بیڑوں میں سوار ہو کر باحفاظت برطانیہ پہنچ جائیں۔ ایسا کرنے سے حکومت کا “انسانی سمگلرز کے بزنس کو پاش پاش” کرنے کا وعدہ پورا ہو سکتا ہے۔

بریگزٹ سے قبل برطانیہ ناکام پناہ گزینوں کو واپس فرانس بھیج سکتا تھا مگر بریگزٹ کے بعد یہ آپشن ختم ہوگئی ہے۔ برطانیہ کو کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ کرے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ بریگزٹ کے بعد یورپ کے کئی ممالک اب اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حالانکہ یوکرین اور روس کی جنگ میں یوکرین کو یورپ اور برطانیہ مکمل سپورٹ کر رہے ہیں اور اس وقت یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے لہذا یوکرین سے آنے والے مہاجرین کے معاملے میں یورپی ممالک کو برطانیہ کی مدد کرنی چاہیے ۔نیشنلٹی اور بارڈر بل جس کے تحت وزراء کو سمندر پار پناہ گزینوں پر کاروائی کرنے کے اختیارات دیے جائیں گے۔ گو کہ ان تمام اقدامات اور پالیسیوں سے یوکے مہاجرین کے لیے قدر ے کم پُرکشش ہوگا مگر بہت سے تارکین وطن جن کے  رشتہ دار اور دوست احباب یوکے میں رہائش پذیر ہیں وہ انہیں بلیک مارکیٹ میں روزگار تلاش کرنے اور برطانیہ میں سیٹل ہونے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالیہ پولز کے مطابق اگلے دو سال میں جنرل الیکشن میں لیبر پارٹی کی حکومت میں آنے اور سر کیئر سٹارمر کے پرائم منسٹر بننے کے کافی امکانات ہیں۔ مگر انہوں نے ابھی تک مہاجرین کے بحران کو حل کرنے کے لئے کوئی واضح امیگریشن پلان سامنے نہیں رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ لیبر پارٹی موجودہ حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ اپنی ممکنہ پالیسیوں اور تجاویز کو واضح کرے تاکہ عوام کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی رکھا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply