دانائی کے ٹیکے۔۔۔۔رعایت اللہ فاروقی

انسان پر بیتتا ہر لمحہ اسے کچھ نہ کچھ سکھا رہا ہوتا ہے۔ جو سمجھدار ہوتے ہیں وہ ان لمحوں سے سیکھتے چلے جاتے ہیں جبکہ دیگر اپنی غلطیوں کے نتائج کو بھی قسمت کے کھاتے میں ڈال کر اس خیال کے ساتھ ان غلطیوں کو دہراتے چلے جاتے ہیں کہ ’’قسمت تاحال خراب ہے‘‘ یوں تو ہر لمحہ ایک سیکھ ہے لیکن مشکلات کے لمحات جو کچھ سکھا جاتے ہیں وہ انمول ہوتا ہے۔ مشکل دور کی مشکلات اپنی جگہ لیکن اس دور کے اس احسان کا کوئی بدل نہیں کہ یہ اپنے اور پرائے کی تمیز کے ساتھ ساتھ یہ بھی سکھا جاتا ہے کہ وہ کون ہیں جن کے رویوں میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا اور وہ کون ہیں جو ہمدردی کے بھیس میں آپ کی عزت نفس اور آپ کے احساسات کا قتل عام کرتے رہے۔ مشکل دور کا سب سے کربناک لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اچھے وقت میں آپ سے سیکھا ہوتا ہے وہ اچانک آپ کو یہ باور کرانے لگیں کہ آپ تو ایک نمبر کے بیوقوف ہیں اور آپ کو کسی دانا کی مشاورت درکار ہے۔ ظاہر ہے دانا سے ان کی مراد ان کی اپنی ہی ذات ہوتی ہے۔ وہ درحقیقت آپ سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنی باقی ماندہ زندگی انہی کی رہنمائی میں گزارنی چاہئے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ بھئی آپ اگر دانا ہوتے تو بخوبی جانتے کہ ہر انسان کی زندگی میں اچھا دور بھی آتا ہے اور مشکلات کا دور بھی۔ مشکلات کے اس دور کا تحکم دیکھئے کہ یہ انبیاء اکرام علیھم السلام پر زیادہ شدت کے ساتھ آتا رہا ہے کیونکہ ان کا عزم اور حوصلہ عام انسان سے بدرجہا قوی ہوا کرتا ہے۔ مشکلات کے دور کا عقل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اس لئے نہیں آتا کہ اچانک کسی شخص کی عقل کم ہوجاتی ہے بلکہ یہ انسان کے صبر و شکر کی آزمائش کے لئے آتا ہے۔ جو صابر و شاکر رہتے ہیں وہ اس بحرانی دور سے سرخروئی کے ساتھ نکل آتے ہیں اور برکتوں کے ایک بڑے دور میں داخل ہوجاتے ہیں کہ قدرت آزمائش میں پورا اترنے والے کو انعام سے ضرور نوازتی ہے جبکہ بے صبروں اور ناشکروں کے حصے میں ذلت و خواری کے سوا کچھ نہیں آتا۔ مشکلات کا یہ دور بیماری، مقدمات، دشمنی، مالی بحران یا کسی بھی اور شکل میں آسکتا ہے لیکن اگر یہ مالی بحران کی صورت میں ہو تو لوگوں کے رویے واضح طور پر بدل جاتے ہیں۔ ستم دیکھئے کہ جب آپ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو کچھ لوگ ایک تواتر کے ساتھ آپ کے پاس مشاورت کے لئے آتے ہیں اور آپ کو بار بار یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی نظر میں آپ سے زیادہ عقلمند و دانا کوئی ہے ہی نہیں سو اسی لئے وہ بار بار رہنمائی کے لئے آپ کے پاس آنے پر مجبور ہیں۔ لیکن جوں ہی آپ مالی طور پر مشکلات کے دور میں داخل ہوئے، یہی لوگ اب اسی تواتر کے ساتھ آپ کو یہ یقین دلانے لگیں گے کہ آپ دانا نہیں بلکہ پرلے درجے کے احمق ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دانائی کا تعلق دولت سے ہے تو انسانی تاریخ کے نوے فیصد دانا لوگ مڈل کلاس سے کیوں رہے ؟ نوم چومسکی بل گیٹس کے مقابلے میں ’’غریب‘‘ کے درجے پر کیوں فائز ہے ؟ ارندھتی رائے کے بجائے مکیش امبانی کیوں بھارت کا متمول ترین آدمی ہے ؟ ملک ریاض کا شمار داناؤں میں کیوں نہیں ہوتا ؟ بھلے شاہ اور شاہ لطیف جیسے فقیروں کو ابدی عزت کیوں حاصل ہے ؟۔ اگر دانائی کا دولت سے کچھ لینا دینا ہے تو یہ بھی بتا دیجئے کہ لال نوٹوں میں زیادہ دانائی ہے یا ہرے نوٹوں میں ؟ پانچ ہزار کا ایک نوٹ جیب میں رکھ لیا جائے تو دانائی بڑھ جاتی ہے یا ہزار ہزار کے پانچ نوٹ رکھنے سے عقل زیادہ چارج ہوتی ہے ؟ ڈالر اور پاؤنڈ سٹرلنگ کے حوالے سے کیا رائے ہے ؟ ڈالر میں عقل و خرد کے وٹامنز زیادہ ہوتے ہیں یا پاؤنڈ سٹرلنگ میں ؟ جاپانی ین خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر دار کا متبادل ہوگا یا چائنیز یو آن ؟ ارے صاحب ! کچھ خدا کا خوف کیجئے اور اپنے اندر کم از کم اتنا احساس تو پیدا کیجئے کہ مشکل دور میں کسی گرے ہوئے آدمی سے اس طرح کی گفتگو ہی درحقیقت دانائی کے خلاف ہے۔ ایک آدمی مشکل میں کیا پھنس گیا آپ اس کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے لگے ؟ کیا اسے دانائی کہتے ہیں ؟ اگر یہ دانائی ہے تو پھر جہل کیا ہے ؟ اگر یہ بیوقوف ہوتا اور اسے آپ جیسے ’’داناؤں‘‘ کی عقل کی ضرورت ہوتی تو کیا اس میں چالیس سال لگتے ؟ آپ میں سے دانا وہی ہے جس کی دانائی سالہا سال سے مسلم چلی آرہی ہے۔ آپ دانا ہوتے تو روز اول سے وہ آپ کی مشاورت کا محتاج ہوتا۔ اگر ساری زندگی آپ مشاورت مانگتے آئے ہیں تو آج محض اس بنیاد پر آپ کو دانا اور اسے بیوقوف نہیں مانا جا سکتا کہ اب اس کی جیب میں کرنسی کی مقدار آپ کی کرنسی سے خاصی کم ہوگئی ہے۔ مشکل کا یہ دور گزر جائے گا کیونکہ اللہ نے اس کا قرآن مجید میں مکرر وعدہ فرما رکھا ہے لیکن کبھی سوچا ہے تب آپ کا کیا حال ہوگا ؟ کیا تب آپ ایک بار پھر اس کی دانائی کی قسمیں اٹھانے لگیں گے ؟۔ اب اگر غور کیجئے تو یہ صورتحال انسانی رویوں کے ایسے افسوسناک پہلو سے روشناس کراتی ہے جو مضبوط سے مضبوط رشتوں میں بھی دراڑ پیدا کر سکتی ہے۔۔ ہم میں سے ہر شخص پر مشکلات کا دور آنے کا پورا پورا امکان ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اگر کسی کو مشکل وقت سے گزرتا دیکھیں تو اس کے مددگار بن جائیں۔اور اگر مدد کی توفیق مل جائے تو چار آنے کی مدد کے ساتھ آٹھ آنے کے دانائی کے ٹیکے بھی لگا کر اس کی دل آزاری نہ کریں۔ اگر دانائی کے ٹیکے ہی لگانے ہیں تو بہتر ہے کہ اس کی مدد ہی نہ کریں !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply