تیس سال پہلے کوئی تین لاکھ پچاس ہزار بچے ، 123 ملکوں سے، پولیو وائرس کا شکار ہوئے۔ دنیا بھر میں پولیو ویکسین کے مسلسل استعمال سے اب یہ فگر 2018 کی یو این رپورٹ کے مطابق تیس بچوں تک آ چکی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ تیس بچے پاکستان اور افغانستان کے ہیں۔ نائیجیریا میں بھی 2018 میں کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا مگر اچانک 2019 میں آج تک پانچ کیسیز سامنے آ چکے ہیں۔ نائیجیریا بھی ان مسلمان ملک میں سے ہے جہاں پولیو ویکسین کو استعمال کرناحرام قرار دیا گیاہے۔
انسان کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ چیچک اور کچھ دیگر بیماریوں کے وائرس کے خاتمہ کے بعد یہ ایک اور خطرناک وائرس ہے، جو خاتمہ کے قریب ہے مگر اس کے خاتمہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تین مسلمان ملک ہیں۔ پاکستان میں آج کی تاریخ تک، یعنی صرف پانچ مہینوں میں اٹھ بچے پولیو کا شکار ہو کر معذور ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کراچی، ہنگو،خیبر، باجور، لاہور، وزیرستان سے ایک ایک جبکہ بنوں سے دو بچوں میں یہ وائرس پایا گیا ہے۔ یہ بچے اپنی اس عمر بھر کی معذوری کا شکوہ کس سے کریں؟ حکومت، مُلا یا پھر اپنے والدین سے؟
23 اپریل 2019, کو بھی حکومت نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلائی ، مگر بغیر کسی تحقیق اور پلاننگ کے ، پشاور کی سیاسی اور سول ایڈمنسٹریشن نے اچانک یہ فیصلہ کیا کہ اس بار دس سال تک کی عمرکے بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ اس بار کی مہم میں اسکول بھی شامل کیے گئے ۔ عموماً پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو ویکسین ان کے گھروں میں پلائی جاتی تھی، اس عمرکے بچے زیادہ تر دوائی یا ویکسین پینے کے معاملے میں حساس نہیں ہوتے اور جس وقت ٹیمیں آکر پلاتی ہیں، بچوں کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔ پولیو کے قطرے کافی کڑوے ہوتے ہیں۔ بچے کو کوئی بھی دوائی اگر خالی پیٹ دی ج جائے ، تو قے آنے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نو دس سال کے بچے خالی پیٹ اسکول جاتے ہیں۔ پشاور کے علاقے بڈھ بیر ماشو خیل کے ایک سکول میں جب صبح صبح پولیو ٹیم نے بڑے بچوں کوخالی پیٹ پولیو ویکسین پلائی تو کچھ بچے جو کہ تعداد میں چار یا پانچ تھے، نے قے کر دی۔ جس سے اسکول کا پرنسپل اور ٹیچر گھبرا گئے ، اور ان بچوں کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ بد قسمتی سے مساجد میں یہ اعلان شروع ہو گیا کہ جن جن بچوں نے پولیو ویکسین پی ہے ان کو فوراً ہسپتال لے جایا جائے ۔ والدین نے گھبرا کر صحت مند بچے بھی لے جانا شروع کر دیے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ صرف نو دس سال کے بچوں کو قے آئی تھی۔ ان بچوں نے اپنے ہوش میں پہلی بار ایک انتہائی کڑوی دوائی پی تھی۔ پورے پشاور میں ایک ہنگامی صورت حال کی سی کیفیت طاری ہو گئی ۔ اس ساری صورت حال میں ایک ماشو خیل کا بندہ جس کا نام نذر گل تھا، چند بچوں کو لے کر ہسپتال پہنچ گیا اور ایک جعلی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی کہ بچے بے هوش ہیں اور اس نے میڈیا پر بھی شور مچا دیا کہ اس کے گاؤں کے چند بچے پولیو کے قطرے پینے سے مر چکے ہیں۔ گو کہ اسے گرفتار کر لیا گیا مگر جو تیلی لگانی تھی وہ لگ گئی ۔
اس سارے ڈرامے کے بعد پورے پاکستان سے کافی بڑی تعداد میں والدین نے دوائی پلانے سے انکار کر دیا۔ لاہور سے تقریباً 13000، اٹک 600، اور پنڈی سے تقریباً 3600 والدین نے پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔ اس طرح اس مہم کو بہت بڑا نقصان پہنچا۔ اس دن ہمارے اپنے دس سال کے بچے نے اسکول میں قطرے پیے اور اس کے مطابق ایک اس کے کلاس فیلو جو کہ خالی پیٹ تھا، کا دل خراب ہوا جس کو فوراً اس کے والدین کو بلا کر اس کے حوالے کیا گیا۔ مگر اس کو سوائے دل خراب ہونے کے اور کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ دوسرے دن و ہ اسکول میں ٹھیک ٹھاک حاضر تھا۔
اس معاملے میں ہمارے دماغ میں کچھ سوالات اٹھے، جن کے جوابات یو این کے ایک پولیو کے ہیلتھ ایکسپرٹ سے حاصل کیے۔
سوال: کیا پولیو کی ویکسین کے سائیڈ ایفکٹس ہیں؟
جواب: اس ویکسین کے پینے سے کوئی سائیڈ ایفکٹس نہیں، حتیٰ کہ اگر یہ ایکسپائیر ویکسین بھی پی لی جائے تب بھی یہ ویکسین اگر کوئی فائدہ نہیں دے گی تو اس سے پینے سے کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا۔ مگر ایکسپائیر ویکسین کے دینے کا کوئی چانس نہیں ہوتا کہ اس ویکسین کی شیشی کے سر پر ایک رنگ ہوتا ہے جو کہ ایکسپائر ہونے کی صورت میں بدل جاتا ہے ۔ اگر ویکسین ایکسپائر ہوجائے تو پولیو ورکر اس ویکسین کو نہیں پلاتے ۔
س: پاکستان میں ویکسین ڈراپس کی شکل میں کیوں دی جاتی ہے؟ جبکہ کچھ ممالک میں اب انجیکشن کی صورت میں دی جاتی ہے؟
ج:صرف امریکہ میں کچھ سال پہلے انجکشن شروع ہوئے کیونکہ ادھر پولیو کا وائریس ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے ڈراپس کی ضرورت نہیں۔
جن علاقوں میں پولیو وائریس پایا جاتا ہے ادھر گھر گھر جا کر ڈراپس پلانا آسان ہے ، ٹیکہ لگانا ایک مشکل عمل ہے۔
س:قطرے بار بار کیوں پلائے جاتے ہیں؟
ج: کیونکہ یہ ڈراپس بچے کے جسم میں صرف بیس سے پچیس دن تک رہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ پولیو ڈراپس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آنتوں سے خارج ہو کر پانی کے ذریعے پورے علاقے میں پھیل جاتی ہے اور ان لوگوں کو بھی بالواسطہ طور پر فائدہ پہنچاتی ہے جنہوں نے خود یہ قطرے نہیں پیے ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے انجکشن والی ویکسین کی بجائے اسے خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
س: کیا مہم چلانے سے پہلے اس علاقے کے مذہبی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے؟
ج: جی ہاں، خاص کر علاقے کے مولانہ حضرات کو تین دن کی مہم کے لیے 14000 دیا جاتا ہے کہ وہ اس مہم کے خلاف پروپیگنڈا نہ کریں۔
پاکستان کے مسلمان سب سے زیادہ اس بات کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اس ویکسین سے کافر مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں۔ اور اس میں مانع حمل ادویات شامل ہیں جو مردوں /عورتوں کو بانجھ کر دیتی ہیں۔ پہلی بات یہ سوچنے کی ہے کہ اگر ایسی کوئی دوا بن چکی ہوتی تو کم از کم چین اور انڈیا والے ضرور اسے استعمال کر رہے ہوتے اور دنیا فیملی پلاننگ کے مہنگے اور کسی حد تک غیر مؤثر ذرائع پر پیسہ اور وقت برباد نہ کرتے۔
دوسری بات یہ کہ یہ ویکسین دنیا میں 50 سال سے استعمال ہو رہی ہے۔ مگر ہر مسلمان ملک کی آبادی دن بدن زیادہ ہو رہی ہے۔ اگر یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تو مسلم ممالک کی آبادی تو اب تک آدھی ہو جانی چاہیے۔ پاکستان میں کم از کم بھی دو نسلیں یہ قطرے پی چکی ہیں ، کیا موجودہ تیسری نسل کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ نہیں ہے، بلکہ ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہو چکی ہے۔
تیسری بات کہ پاکستان میں ایک مسلمان ملک متحدہ عرب ایمریٹس ابھی تک اس ویکسین کو پاکستانیوں کو پلانے پر۔ ۴۴۰ ملین درہم خرچ کر چکا ہے اب اگر یہ ایک یہودی سازش ہوتی تو ایک مسلمان ملک کیوں ہم پر اتنا خرچہ کرتا؟۔۔
چوتھی بات کہ کیا پینتالیس مسلم ممالک میں سے صرف تین کے خلاف یہ سازش ہے؟ کیا باقی کے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اپنی عوام کی فکر نہیں کہ وہ ان كو یہ قطرے پلا رہے ہیں؟
تین اپریل کا ذکر دوبارہ کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ تحریک انصاف کی پختون خوا کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بار دس سال کے بچوں کو اسکولوں میں بھی جا کر قطرے پلاے جائیں گے۔ یہ انتہائی غلط فیصلہ تھا، کیونکہ پانچ سال سے اوپر بچوں کے لیے ایک کڑوی دوائی یا ویکسین پینا مشکل ہے اور چونکہ دوائی ڈائریکٹ حلق میں انڈیلی جاتی ہے تو بچے کا دل خراب ہونے کا پورا چانس ہوتا ہے٫ جس کی وجہ سے الٹی آسکتی ہے۔ اور یہ ہی اس دن ہوا، لاتعداد بچوں کے دل خراب ہوئے اور ان کو الٹی آ گئی ، ایک افراتفری پھیل گئی اور پھر جو ہوا اس نے پوری مہم کا ستیا ناس کر دیا۔
اس نااہلی کی وجہ سے پاکستان کے سات لاکھ والدین نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔ کافی عرصے بعد سندھ اور پنجاب میں تین تین ، پختونخوا میں چھ اور قبائلی علاقوں میں پانچ پولیو کے کیس رجسٹر ہوئے ۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہوئی کہ ایک قاتلانہ حملہ کے دوران ایک پولیو ورکر اور دو پولیس والے ہلاک ہوئے ۔
مضمون حکومت سے اس التجا پر ختم کرتے ہیں کہ اس انسان کو سخت سے سخت سزا دی جائے جس نے اس مہم کو نقصان پہنچایا اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ کس کی ہدایت کے تحت اس بار بچوں کی عمر دس سال کی گئی اور اسکولوں میں پلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس انسان یا ٹیم کو بھی اس نااہلی او ر غلط فیصلہ کی سزا ملنی چاہیے۔

اس مضمون کی تیاری میں روزنامہ آج، ڈیلی گارڈین، یو این کی سائیٹ، ریلیف ویب کی سائیٹ، پاکستان ٹوڈے، یو این کے ایک ماہر ہیلتھ آفیسر اور سائنس میگزین کی سائیٹ سے مدد لی گئی ہے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں