ہماری نوجوانی خصوصاَ ًکالج اور یونیورسٹی کا زمانہ بڑا ہی تلاطم خیز تھا۔ ان دنوں کوئٹہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ان طلباء تنظیموں کا راج تھا جو سوویت یونین کی کھلم کھلا حمایت کرتی تھیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کالج میں داخلے کے وقت ہمیں ان طالب علموں سے خصوصی طور پر ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا جو کمیونزم کا برملا پرچار کرتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ طلباء خدا کو نہیں مانتے اور ایسی کتابیں پڑھتے ہیں جن کے مطالعے سے اچھا بھلا مومن بھی کافر ہوجاتا ہے۔ ہمیں سکول کے زمانے سے ہی بچوں کی کتابیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ہمدرد، نونہال اور بچوں کا ڈائجسٹ وہ رسالے تھے جو بڑے بھائی باقاعدگی سے خرید کر دیتے تھے، جبکہ عمرو عیار کی کہانیاں اور داستان امیر حمزہ ہم چھپ چھپ کر پڑھا کرتے تھے۔ ہمیں جادوئی کہانیاں بڑی اچھی لگتی تھیں۔
اس لیے جب کسی نے ہمیں یہ بتایا کہ اگر کوئی بندہ ایک مرتبہ کمیونسٹوں کی کتاب پڑھ لے تو اس کا کافر ہوجانا یقینی ہے، تو ہمیں ان کتابوں میں دلچسپی محسوس ہونے لگی۔ یوں ایک دن ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنے ایک کلاس فیلو سے ایک ایسی کتاب کی خواہش ظاہر کی جس کے پڑھنے سے ہم کمیونزم کے جادوئی کمالات سے متعلق جان پاتے۔ ہمارا وہ دوست پہلے تو کافی ٹال مٹول کرتا رہا لیکن ایک دن اس نے ہمیں ایک کتاب تھما ہی دی جس کا نام “ارکادی گیدار سکول”تھا۔ ہم نے بسم اللہ پڑھ کر کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ اس میں کمیونزم کا ذکر تک نہیں تھا بلکہ ہمیں تو وہ بچوں کی کوئی کتاب لگی جس میں بہت سارے نامانوس الفاظ تھے۔ خیر اس کے بعد ہم ایک کے بعد ایک کتاب کا مطالعہ کرتے گئے۔ ساتھ ہی نامانوس اصطلاحات کے معانی تلاش کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ میکسم گورکی کی شہرہ آفاق کتاب “ماں” کا مطالعہ ہم نے انہی دنوں کیا۔
پھر ایک وقت ایسا آیا جب ہم نے غیر ملکی کتابوں کے تراجم پڑھنے کے علاوہ سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، عبداللہ ملک اور علی عباس جلالپوری کی کتابوں کا بھی مطالعہ شروع کیا۔ اگرچہ اکثر کتابوں کے نام اب ہمارے حافظے سے محو ہو چکے ہیں لیکن ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں ان مصنفین کی شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہوگی جس کا ہم نے مطالعہ نہیں کیا۔ ہماری یہ عادت تھی کہ کتابوں کے مطالعے کے بعد سارے دوست مل کر ان پر نہ صرف تفصیلی بحث کیا کرتے بلکہ مختلف موضوعات پر لیکچرز کا بھی اہتمام کرتے۔ اس دوران جدلیاتی و تاریخی مادیت، ارتقاء، مابعدالطبیعات، تضاد، کمیت، کیفیت اور تھیسز، اینٹی تھیسز اور سنتھیسز جیسے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر گفتگو کے بعد ہمارے اذہان میں مزید کئی سوالات جنم لیتے، جن کے جواب کبھی مل جاتے تو کبھی ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔
مثلا ًیہ سوال ہمیشہ جواب طلب رہا کہ کیا جدید دور میں ایک ایسا کمیونسٹ معاشرہ واقعی وجود میں آ سکتا ہے جہاں ریاست کی عدم موجودگی میں لوگ محض باہمی تعاون کی بنیاد پر مل جل کر رہیں، اور اگر ایسا معاشرہ وجود میں آ بھی گیا تو کیا یہ ہمیشہ قائم رہے گا، اگر نہیں تو جدلیات کی رو سے اس کا اگلا پڑاؤ کیا ہوگا؟ اس کے باوجود بائیں بازو کے افکار سے ہماری دلچسپی ہمیشہ برقرار رہی۔ اس زمانے میں ترقی پسندحلقوں میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے رہنماء جام ساقی کا بڑا نام تھا۔ ہم بھی ان کے معترفین میں شامل تھے اس لیے جب بھی ان کا کوئٹہ آنا ہوتا ہم ان سے ملنے اور گفتگو کرنے کی ضرور کوشش کرتے۔ ہماری نظروں میں وہ ایک ایسے انقلابی ہیرو تھے جو غریبوں کے ہمدرد اور “امریکی سرمایہ دارانہ نظام”کے بہت بڑے مخالف تھے۔ بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں میں غوث بخش بزنجو ہمارے پسندیدہ سیاسی رہنما تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ اپنے آخری ایام میں کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے تو ہم بھی کچھ دوستوں کے ہمراہ ان کی عیادت کے لیے خاص طور پر کراچی گئے۔
ان واقعات کو دہرانے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ان دنوں سوشلزم، کمیونزم یا بائیں بازو کی ترقی پسند سوچ کا کچھ اور ہی مفہوم لیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ سوشلسٹ یا ترقی پسند کہلانے والے پوری طرح واضح اور شفاف سوچ رکھتے تھے اور کسی مخمصے کا شکار نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن پھر حالات نے کروٹ لی اور اس وقت کے انقلابی اپنی صفیں بدلتے نظر آئے۔ کل کے سرخے اور انقلابی، قوم پرست اور جمہوریت پسند سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے لگے۔ پھر تو روز ترقی پسندی کا ایک نیا بیانیہ سامنے آنے لگا اور “ترقی اور رجعت”کے درمیان موجود لکیر مدہم پڑنے لگی۔ ہمارے پسندیدہ ترقی پسند مصنف، عبداللہ ملک حج پر چلے گئے جہاں سے واپسی پر انہوں نے اپنا معرکتہ الآراء سفر نامہ “ایک کمیونسٹ کا سفر نامہ حج”لکھا ۔ اس کتاب میں موصوف نے حج کے دوران اپنے او پر گزرنے والی روح پرور کیفیات کا اس خوبصورتی اور تفصیل سے نقشہ کھینچا کہ پڑھ کر ہماری تو آنکھیں ہی بھیگ گئیں۔ اسی طرح کامریڈ جام ساقی نے بھی پٹڑی بدل کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور سندھ حکومت کا حصہ بن گئے۔ جی ہاں! اسی پیپلز پارٹی کا حصہ جس کا نعرہ “سوشلزم ہماری معیشت اور اسلام ہمارا ضابطہ حیات”تھا، اور جس نے آگے چل کر طالبان کی تشکیل کا کارنامہ سرانجام دیا۔ اگرچہ بعد میں جام ساقی کے بارے میں ایسی بھی خبریں سننے میں آئیں کہ انہوں نے کسی بزرگ کے مزار پر مستقل ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور وہاں کے مجاور بن گئے ہیں، لیکن کسی قابل اعتبار ذریعے سے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں ہوسکی۔
ان واقعات کو گزرے دو دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن بائیں بازو کے ہمارے بعض دوستوں کا مخمصہ اب تک نہیں گیا۔ اس لیے وہ روز کوئی نہ کوئی نیا بیانیہ متعارف کراتے رہتے ہیں۔ کہنے کو تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کے اس حد تک خلاف ہیں کہ اگر کوئی گلوکار بے سرا گارہا ہو تو اس کا الزام بھی سرمایہ دارانہ نظام پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن خود ان کی پہلی ترجیح کسی ایسے مغربی ملک کے ویزے کا حصول ہے ،جہاں مکمل سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔ وہ ایک غیر طبقاتی نظام کی بات تو کرتے ہیں لیکن قیامت پر ان کا ایمان بھی اتنا ہی پختہ ہے جتنا کسی پکے مومن کا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یکم مئی کو بازؤں پر سرخ پٹیاں باندھ کر “دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ”کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ محرم کے دنوں میں سیاہ لباس پہن کر نوحے اور مرثیے تخلیق کرتے اور عید میلاد النبیؐ پر چراغاں کرتے نظر آتے ہیں۔
اس لیے آج جب ہم کسی “ترقی پسند” انقلابی کو تاریخ اور مادے کی جدلیات پر گفتگو کرنے کے بجائے روزے کی جدلیات پر گفتگو کرتے یا بیماری کی حالت میں دعا کی التجا کرتے دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار عبداللہ ملک کے سفر نامہ حج کی یاد آتی ہے۔ ساتھ ہی نظروں کے سامنے ان مولویوں کا چہرہ گھومنے لگتا ہے جو دوسروں کو تو جنت کی حوروں کا حدود اربع بتاتے نہیں تھکتے لیکن خود بیمار پڑ جائیں تو جنت اور حوروں کا وصال بھول کر فوراَ کسی مہنگے ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانے لگ جاتے ہیں۔ اب تو بس ہمیں اس دن کا انتظار ہے جب کوئی انقلابی ہمیں زکوٰۃ اور جہاد کی جدلیات پر لیکچر دے اور ہم جزاک اللہ اور سبحان اللہ کہتے ہوئے جھولیاں بھر بھر کر ثواب دارین سمیٹتے نظر آئیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں