غریبوں کو افطاری دینے کی بجائے افطار ڈنرزاور پارٹیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے یاد ہے شاید اس وقت میری عمر 7 یا 8 برس تھی ، رمضان آتا تو افطار کیلئے والد محترم مختلف انواع و اقسام کی چیزیں لاتے ہم اس وقت گاؤں میں رہتے تھے ، والدہ محترمہ سب سے پہلے تین سے چار پلیٹیں بناتیں اور ہمسایوں کے گھر بھیجتیں اور اس کے ساتھ ہماری گلی سے ہٹ کر ایک گلی میں 2 غریب گھروں میں افطاری نوکرانی کے ہاتھ بھجواتیں۔ یہ افطاری وہ آخری روزے تک بھجواتیں اور عید کے دن بھی سب سے پہلے ان کے گھر ہی کھانا ، چاول ، سویاں دی جاتیں ، ہم جب تک گاؤں میں رہے یہ عمل جاری رہا ، اس کے بعد ہم شہر شفٹ ہو گئے۔شہر میں بھی والدہ اسی طرح ہمسائیوں اور جاننے والے غریبوں کے گھر افطاری بھیجتی تھیں ، میں لاہور اور پھر اسلام آباد میں سیٹل ہوا ، لیکن یہاں پرہمسائیوں اور غریبوں کے گھر افطاری بھیجنے کا کوئی رواج ہی نہیں ۔
والدہ آج بھی سب سے پہلے افطاری غریبوں کے گھر بھیجتی ہیں ، اور پھر ہمسائیوں کے گھر ، والد محترم آج بھی اپنے لیے الگ اور ہمسایوں اور غریبوں کیلئے الگ افطاری لے کر آتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو اپنی روایات سے پیار تھا اور ہے ، جو ابھی یہ احسن عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ہم ہیں کہ آج کے دور میں جس سے مطلب ہوتا ہے بس اسی سے تعلق رکھتے ہیں ، امیروں کی بڑی بڑی افطار پارٹیاں ہوتی ہیں ، افطار ڈنرز ہوتے ہیں ، لیکن غریب ترس رہے ہوتے ہیں۔کیا ہم دوبارہ اس چیز کو زندہ نہیں کر سکتے ، کیا ہم مادہ پرستی سے نکل نہیں سکتے ، اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح کا عمل تو سب کے والدین کرتے تھے اور کر رہے ہیں تو پھر ہم نے اس کو کیوں چھوڑ دیا ۔۔۔۔؟ہمیں افطار پارٹیوں اور افطار ڈنرز کی بجائے غریبوں کا حق ادا کرنا ہو گا اور اپنی افطاریوں اور خوشیوں میں انہیں بھی شامل کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

سید عون شیرازی
سید عون شیرازی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور صحافی اور مصنف ہیں ، 20 لفظوں کی کہانی لکھتے ہیں جو اب ایک مقبول صنف بن چکی ہے،اردو ادب میں مختصر ترین کہانی لکحنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا ذکر متعدد اخبارات اور جرائد کر چکے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply