فاٹا پہ سب خاموش کیوں؟

فاٹا یعنی وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے ، ایک طرف پورا ملک تعمیرو ترقی کی دوڑمیں شامل ہوچکا ہے ، کہیں سڑکیں بن رہی ہیں ، کہیں پُل ، کہیں تعلیمی اصلاحات اور کہیں پولیس نظام میں بہتری ۔ جبکہ فاٹا میں ابتر صورتِ حال ہے ، دھماکوں ، خودکش حملوں ، آپریشنز اور ڈرون حملوں کا ستایا فاٹا، تقریباً46 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ فاٹا کسی صوبے کا حصہ نہیں ، بلکہ وفاق کے زیرِانتظام ہے۔لیکن فاٹا کے عوام نے گذشتہ انتخابات میں حکومتوں سے نااُمیدی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے آزاد اُمید واروں اور جمعیت علماء اسلام کو ووٹ دیا ۔ عمران خان نے ماضی میں فاٹا کی طرف لانگ مارچ بھی کیا اور حقوق کی بات بھی کی ، لیکن ایک صوبے میں اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے فاٹا کا نام بھی لینا پسند نہیں کیا ، جس سے مایوسی پھیلی ۔
دہشتگردوں کے خلاف آپریشنز کے نیتجے میں 10 لاکھ قبائلیوں نے ملک کے مختلف علاقوں اور افغانستان ہجرت کی ، حکومت نے بجٹ میں متاثرین کے لیے بمشکل 100 ارب روپیہ رکھا ، جسے اگر فی کس تقسیم کیا جائے تو چند سو ہی بنیں ۔ حکومت گذشتہ کئی مہینوں سے فاٹا کے مستقبل پر غور کررہی ہے ، جس میں ایک ہی آپشن شامل ہے ، فاٹا کا خیبر پختون خوا سے الحاق ، اس معاملے پر عمران خان خاموش ہیں ، شاید اُن کا صوبہ بڑا ہوجائے گا اِس لیے یا پھر اِسے انتخابات میں ووٹ نہ دینے کی سزا سمجھا جائے ۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ فاٹا کا نام بھی نہیں لیتے ،۔ لیکن حکومت کے سب سے بڑے حامی مولانا فضل الرحمان اِس معاملے میں میاں نواش شریف سے ناراض ہیں ، اور اُنھوں نے نواز شریف کے لیے دھوکے باز کا لفظ بھی استعمال کیا ہے ۔
مولانا فضل الرحمان اس معاملے پر سب سے جدا موقف رکھتے ہیں ، آپ کا کہنا ہے کہ فاٹا کے عوام بھیڑ بکریاں نہیں جنہیں اپنا فیصلہ خود نہ کرنے دیا جائے ، اگر فاٹا کے عوام الگ صوبہ چاہتے ہیں ، تو حکومت کیوں اُنھیں زبردستی ایک صوبے کے ساتھ نتھی کرنا چاہتی ہے ۔ مولانا نے ایک بڑا زبردست اقدام کیا ، آپ نے فاٹا کے اراکین اسمبلی کے بجائے قبائلی عمائدین کو اصل فریق کہا ، کیونکہ اراکین اسمبلی تو جمعیت کے یا آزاد ہیں ، جبکہ عمائدین پورے فاٹا کے ہیں ۔
غور کیا جائے تو یہ موقف بالکل ٹھیک ہے ، فاٹا کوئی پُل یا نہر نہیں جس کا فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں ہو ۔ فاٹا کے مسئلے پر قبائلی عمائدین ، وہاں کے اراکینِ اسمبلی اور عوام اصل فریق ہیں۔ اس معاملے میں مولانا تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں ، جیسے ماضی میں آپ نے قبائلی جرگوں کے ذریعے قبائلیوں کوامن فامولہ پر آمادہ کرلیا تھا ، لیکن اگلے ہی روز سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا نور محمد کے گھر پر بمباری کرکے امن فارمولے کوجہنم واصل کردیا گیا تھا۔
اگراس وقت بھی مولانا کی خدمات لی جائیں اور فاٹا کے مسئلے پر قائلی عمائدین کو ساتھ لے کر فیصلہ کیا جائے تو یہ صرف فاٹا کے ہی نہیں پورے ملک کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اگر قبائلی ریفرنڈم چاہتے ہیں تو اس پر بھی چوں چراں سے کام نہیں لینا چاہیے ۔
پہلے مذہب کے نام پر ہتھیار اُٹھے تھے ، اگر کل کسی نے قبیلے ، علاقے یا صوبے کے نام پر ہتھیار اُٹھائے تو اُس کے ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی لیڈر بھی ہوں گے جن کے لیے قبائلی عوام گھاس پھونس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فاٹا پہ سب خاموش کیوں؟

Leave a Reply