کتابوں کا لین دین

انسان کی زندگی میں لین دین ایک واحد ایسا کام ہے جسے انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی کے ساتھ لازمی کرتا ہے. لین دین کا مقصد صرف کسی سے کچھ لینا اور دینا ہی نہیں بلکہ رابطے کا ایک ذریعہ ہے جس سے انسان کا انسان سے تعلق جڑتا ہے۔ ایک دوسرے سے ملاقات کا ایک بہانہ بنتا ہے، اگر دنیا کی جغرافیہ میں غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا لین دین پر ہی مبنی ہے۔
جیسے ایک دکاندار کا ہمیشہ اپنے گاہک کے ساتھ لین دین رہتا ہے ۔سبزی فروش کا سبزی منڈی سے اور پھر اس کے خریدار سے، ڈاکٹر کا اپنے مریض سے اسکول میں طالب علم کا اپنے ہم جماعت اور اپنے اساتذہ سے اسی طرح ہر شعبۂ میں انسان کا اپنے شعبے کے انسان سے ایک خاص لین دین کا رشتہ ہوتا ہے۔
سید انور محمود سے میری جان پہچان فیس بک پر لکھنے لکھانے کی صنف سے ہوئی ،اور پھر ہماری پہلی ملاقات مکالمہ کی ایک ادبی تقریب میں ہوئی جہاں انور صاحب کی صدارت تھی۔ انور صاحب کو پڑھتے ہوئے مجھے ایک برس بیت چکا ہے اور اس ایک برس کے کم عرصے میں ہم نے ایک دوسرے کو پڑھا اور ایک دوسرے کو لکھا لیکن کبھی کسی قسم کا لین دین نا ہوا ۔یایوں کہا جائے کہ ہم نے ایک دوسرے کو ٹھیک سے نہیں جانا ۔بس اکثر بیش اوقات ہم ایک دوسرے سے خیر خیریت یا چند مختصر مکالمہ کر لیا کرتے ہیں لیکن گذشتہ چند ہفتوں پہلے مجھے انور صاحب کا ایک پیغام موصول ہوا جس میں انور صاحب نے مجھ بندہ ناچیز کی خیر خیریت دریافت کی، جس پر مجھے دکھ اور خوشی دونوں ہی کیفیت محسوس ہوئے ۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ خیریت پوچھنے پر مجھے دکھ کیوں محسوس ہوا ؟ تو بات دراصل یہ تھی کہ گذشتہ ماہ سے میں اپنی ذات میں اتنا مشغول رہا کہ اس دوران انور صاحب سے میرا کوئی مکالمہ نا ہوسکا اب انور صاحب نے میری مصروفیت کو میری مجبوری سمجھا ہو یا خود غرضی اسی سوال کے الجھن کا اب تک شکار ہوں۔ بہرحال میں نے ان سے خیریت کیوں نہ پوچھی جس پر مجھے اپنے آپ سے افسوس کرنا پڑا، اور خوشی اس بات کی تھی کہ انور صاحب جیسے عظیم شخصیت نے مجھ بیکار انسان کو یاد کیا جس پر میں نے ان سے ملاقات کی خواہش کی اور پھر انور صاحب نے مجھ غریب کو اپنے گھر پر دعوت دی ۔پھر ایک اتوار میں نے ان کے گھر کا رخ کیا اور ساتھ اپنے ایک کتاب بھی رکھ لی کیوں کہ مہمان کبھی کسی کے ہاں خالی ہاتھ نہیں جاتے تو سوچا مجھ غریب کے پاس دینے کو صرف کتابیں ہی ہیں اور پھر ہم نے ان سے اپنا لین دین کا سلسلہ بنایا….
انور صاحب یہ غریب آپ کا بہت بہت شکرگزار ہے کہ آپ نے مجھے اتنی عزتوں سے نوازا اور امید کرتا ہوں کہ آپ سے پھر ملاقات ہوگی اور ہمارا لین دین آگے بھی برقرار رہےگا۔۔۔ اور آخر میں ،میں مکالمہ اور انعام رانا بھائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے ہمارے درمیان مکالمہ کو زندہ کیا۔

Facebook Comments

شاہد شاہ
سو لفظی کہانیاں اور مکالمہ لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply