یا اللہ ہم سب کی توبہ

یا اللہ ہم سب کی توبہ
حاجی زاہد حسین خان

Advertisements
julia rana solicitors

میانہ قد نحیف سا بدن خشخشی داڑھی ستر کے پیٹے میں لالہ شفیع چٹا ان پڑھ ہمارے گائوں میں ہی رہتے ہیں۔ بچپن سے لڑکپن ،پھر جوانی بکریاں چراتے پالتے پہلے اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے رہے پھر اپنے بچوں کو پالتے گھر کا خرچہ اٹھاتے رہے اب بیٹے بر سرروز گار ہو کر آسودہ حال ہیں ۔مگر شوگر بلیڈ پریشر کے ہاتھوں کمزور سا بدن لیے کبھی کبھی ہم سے ملنے کو چلے آتے ہیں ۔ایام ماضی کے دکھڑے سنتے سناتے کبھی کبھی بڑے کام کی بات کر جاتے ہیں۔ ابھی کل آئے ،حال احوال پوچھنے کے بعد گویا ہوئے۔ حاجی جی بارشیں کیوں نہیں ہوتیں۔ عرصہ چھ ماہ سے خشک سالی ہے گندم بیجی نہیں گئی ۔پانی نہیں ملتا دعائیں،ذکر اذکار بھی ہو رہے ہیں۔ استغفار ، نماز استسقابھی پڑھی گئیں مگر کیا مجال فلک ایک بوند ٹپکائے ۔بادل آتے ہیں پتہ نہیں کہاں چلے جاتے ہیں۔ سنا ہے امریکہ میں یورپ میں بارشیں اور برف باری ہو رہی ہے ۔ مگر ہمارے کشمیر و پاکستان میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ،ہم بیج زمین کے حوالے کرتے تھے تو ابر برسنا شروع ہو جاتا ۔مکئی کی فصل ہو یا گندم ۔ بیجنے پر بارش گوڈی پر بارش کٹائی پر بارش ہر طرف میٹھے چشمے لہلہاتے کھیت بہتے نالے اللہ اللہ کیا رونقیں تھیں ۔ ہم بوڑھے گور و قبر ہوئے نہیں ۔ چارپائی پر پڑے نہیں کہ یہ حال ہو گیا۔
اسکی آنکھیں پر نم ہو گئیں،اور ساتھ مجھے بھی رلا گئیں۔ سوچا اس ان پڑھ بزرگ کو کیا جواب دوں؟ کیا کہوں کہ لالہ شفیع کہاں وہ سادہ سچا زمانہ ،کہاں وہ دیانت امانت کے پیکر لوگ کہاں وہ سادگی پیار اور محبت کہاں وہ کھیتوں سے حلال روزی کی کمائی ۔ آخر میں بول اٹھا ،لالہ آج ہمارے ملک میں چوری بدیانتی عروج پر ہے۔ بے حیائی بد کرداری عروج پر ہے۔ ملاوٹ دھوکہ دہی جھوٹ فراڈ عروج پر ہے۔ ظلم و جبر عرو ج پر ،قتل و غارت ہر جگہ ۔بھائی بھائی کا پیٹ کاٹ رہا ہے۔ غریبوں کی عزتیں اور عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ تو یتیموں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے۔ حکمرانوں میں حیا ہے نہ سیاستدانوں میں شرم۔ استاد تعلیم بیچ رہے ہیں تو تاجر دوکاندار ملاوٹی خوراکیں کھلا رہے ہیں۔ زہر ملا رہے ہیں۔ ملک پر ریاست پر چند پارٹیوں کی اجارہ داری ،کرپشن لوٹ مار میں وہ اور ان کے دست راست گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے ہیں۔ کس کو رہبر رہنما بنائیں ۔ کس کو صدر اور وزیر اعظم بنائیں۔ سب کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
مدرسوں اور خانقاہوں میں بھی سیاست نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ علماء میں مسلکی جنگیں جاری ہیں۔ تو خانقاہیں ناچ گانوں بے حیائی کے کاموں میں گھر چکی ہیں۔ علماء عالم باعمل رہے نہ ہی پیر پیر ِ طریقت رہے۔ بھلا ایسے میں دعائیں ۔ذکر اذکار اور استغفار کیسے قبول ومقبول ہوں۔ ہمارا سارا معاشرہ تنزلی کا شکار ہے۔ یہ انفرادی خطائیں نہیں اجتماعی خطائیں اللہ رب العزت کی ناراضگی کا باعث بن چکی ہیں۔ جب قدرت کسی معاشرے ملک اور ریاست سے ناراض ہو جائے تو اس پر ایسے ہی یہ چار قسم کے عذاب مسلط کر دیا کرتی ہے۔ نمبر ۱۔ پانی کی خشک سالی اور غلے کی قحط سالی نمبر ۲۔ آفاقی آفات کا نزول ۔ نمبر ۳۔ ظالم اور بدیانت حکمران ۔ نمبر ۴۔ بد امنی اور حرام خوری ۔ لالہ شفیع یہ میں نہیں کہہ رہا یہ تو ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ کا فرمان اور پیش گوئی ہے ،لالہ شفیع پھر بول اٹھا ۔ حاجی جی آپ ایک لمبا عرصہ سعودی مملکت میں رہے ۔ کیا یہ بیماریاں اور انجام وہاں بھی تھا۔ نہیں نہیں لالہ شفیع ہم نے شاہ خالد اور شاہ فہد کادور دیکھا۔ ہم نے شاہ عبداللہ کا سارا دور دیکھا۔ کیا مجال کوئی بڑا جرم کر کے بچ جائے۔ کیا مجال کوئی چوری بد کاری کرپشن کر کے بچ جائے۔ کیا مجال قتل و فساد کر کے بچ جائے کیا مجال وہاں مقامی غیر مقامی کی تفریق ہو لاکھوں غیر ملکی سالوں اچھا کماتے کھاتے رہے ۔ مگر حسد نہیں نہ بغض ہر ایک کی جان و مال محفوظ عزت و عصمت محفوظ گھر اور اہل خانہ محفوظ ۔بارشیں بند ہو ں یا خشک سالی آجائے ۔ آفاقی آفات ہوں یا ارضی آفا ت شاہ خالد بھی مصلے پر آگئے شاہ فہد بھی مصلے پر شاہ عبداللہ بھی مسجد میں ۔ سرکاری حکم نامہ جاری ہو گیا۔ امیر بھی اور غریب بھی شاہ بھی اور گدا بھی عورتیں بھی اور بچے بھی اجتماعی طور پر باجماعت نماز توبہ استغفار بھی اور نماز استسقا بھی ۔اللہ کے حضور بدست ودعا ہو گئے۔ بس پھر کیا تھا کیا ہوتا۔ نمازوں سے فارغ ہوتے نہیں تو ابر کرم برسنا شروع ہوجاتا۔
ریاض الخرج کے صحرا اور وادیاں پانی پانی ہوجاتیں۔ وادیاں سرسبز مکے منی کے حیال اور مدینہ کے احد پہاڑ سبزا اگانے لگتے ۔ خدا کی قسم تیس سالوںمیں نہ پانی کی کمی نہ خوراک کی کمی ہر سال لاکھوں حجاج و زائرین آتے رہے جاتے رہے مگر قحط سالی نہ خشک سالی ۔ تازے پھل تازی سبزیاں ایک دام اور ایک ریٹ ذخیرہ اندوزی نہ ملاوٹ و منافع خوری ۔ دہشت گردی نہ فسق و فساد لالہ شفیع پھر بول اٹھا۔ واہ واہ حاجی جی کیا یہ ہمارے ہاں نہیں ہو سکتا۔ جی بالکل ہو سکتا ہے۔ مگر نواز شریف مصلے پر آجائیں زرداری اور عمران خان مسجد وں کے مصلے پر آجائیں۔ گورنر وزراء اور وزیر اعلیٰ مصلوں پر آجائیں۔ سرکاری حکم کے مطابق اجتماعی نماز توبہ استغفار ہو ۔ نماز استسقا ء ہو شہروں محلوں صوبوں اور کشمیری ریاست کی مسجدوں میں توبہ کی نمازیں ادا ہوں۔ ایک دن ایک ہی وقت سب ملکر توبہ استغفار کریں۔ انفرادی اجتماعی اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ چور ی بدیانتی کرپشن سے توبہ ۔ ظلم و جبر کی توبہ جھوٹ اور ناانصافی سے توبہ دہشت گردی اورقتل و غارت سے توبہ یا اللہ ہم سب کی توبہ ۔پنجابی بلوچی سندھی کی توبہ ۔ سرحد ی کشمیری کی توبہ ،یا اللہ ہم سب کی توبہ ۔ دیو بندی حنفی بریلوی اور اہل حدیث کی توبہ ،خدا کی قسم پھر دیکھیں اپنی اپنی مسجدوں سے نکلتے ہی ابر رحمت برسنا شروع ہو گا۔ انشاء اللہ میری بات ختم ہوئی کہ لالہ شفیع کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ گئے۔ دونوں نے آمین کہا۔ ثم آمین اور پھر لالہ شفیع سوٹی کے سہارے اٹھا اور خراماں خراماں اپنے گھر چلا گیا۔ اور میرے ہاتھ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
یا اللہ تو ہم سب کو معاف کر دے۔ ہمارے حاکموں حکمرانوں کو معاف کر دے ۔ہمارے چھوٹے بڑوں کو بھی ۔ ہمارے تاجروں سرمایہ داروں کو معاف کر دے ۔ہمارے منصفوں قاضیوں کو معاف کر دے ۔ تو ابر کرم برسا، ہماری ریاست اور ملک کو سرسبز و شاداب بنا دے۔ پاکستان کو امن و آشتی کا گہوارہ اور اسلام کا ستارا بنا دے آمین۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply