چاندنی بیگم۔۔۔۔ ناول پر تبصرہ

قرة العین حیدر جو تقریباً ساٹھ سال تک ایک تہہ دار اور بے مثال فن کار کی حیثیت سے اردو کے ادبی افق پر جلوہ گر رہیں اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ستاروں کے آگے ‘‘ ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا اور پہلا ناول ’’میرے بھی صنم خانے ‘‘ ۱۹۴۹ء میں منظر عام پر آیا اور اس کے بعد ایک اور ناول ’’سفینۂ غم دل‘‘ اور ایک اور افسانوی مجموعہ ’’شیشے کے گھر‘‘ بھی شائع ہوا۔ لیکن فکشن کی عظیم فن کار اور بے تاج ملکہ کا اعزاز انھیں اپنے شہرۂ آفاق ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے بعد ہی نصیب ہوا جو ۱۹۵۹ء میں اشاعت پذیر ہوا اور اس میں شک نہیں کہ ’’آگ کا دریا‘‘ نہ صرف قرة العین حیدر کا ایک شاہکار ناول ہے۔ بلکہ ایک ایسا ادبی شاہکار ہے جس کی مثال اردو ادب میں مشکل سے ملے گی۔ اس ناول کا کینوس اس قدر وسیع اور اس کا فورم اور ٹیکنیک اس قدر منفرد اور تخیل آفریں ہے اور اس میں ہندوستان کی ڈھائی ہزار سال کی تاریخ اور اس کے سماجی، ثقافتی ، مذہبی اور سیاسی پہلوؤں کا مطالعہ اس قدر دلچسپ اور بصیرت افروز ہے کہ اس نے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں کو فوری طور پر متوجہ کیا اور عام قاری کو بھی گہرائی میں متاثر کیا اور یہ بھی محسوس کیا گیا کہ غالباً پہلی بار اردو کے کسی فکشن رائٹر نے تصور وقت کو اس قدر کامیابی سے فنّی پیکر میں ڈھالا تھا، اور شاید قرة العین کی کم عمری نے بھی (اس وقت ان کی عمر ۳۳ سال کے آس پاس تھی) اس ناول کی ہر دلعزیزی میں اضافہ کیا اور ان کی شہرت کو چار چاند لگائے۔لیکن اس غیر معمولی شہرت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ قرة العین حیدر کے آئندہ ادبی کارناموں کو اور خاص طور سے ان کے چار اہم ناولوں یعنی ’’آخر شب کے ہمسفر‘‘ ’’گردش رنگ چمن‘‘ کار جہاں دراز ہے (سوانحی ناول اور ’’چاندنی بیگم‘‘ کو اس قدر تنقیدی توجہ نہیں مل سکی جس کی وہ بجا طور پرمستحق تھیں۔ اس لیے اب ہم ’’چاندنی بیگم‘‘ پر جو اس سلسلے کی آخری کڑی ہے اور ۱۹۹۰ء میں منظر عام پر آیا، اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔
اس ناول کا موضوع بھی زندگی، زمانہ، زمین، وقت اور موت ہیں اور وقت کے سیل رواں میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اتھل پتھل اور انسان کے خوابوں اور منصوبوں کی بے ثباتی ہی ہیں۔ لیکن یہ ’’آگ کا دریا‘‘ کی طرح سرا سر فلسفیانہ اور علامتی قسم کا ناول نہیں ہے اور نہ اس کا کینوس اس کی طرح غیر معمولی طور پر وسیع ہے۔ یہ تقسیم ہند سے کچھ پہلے شروع ہو کر صرف چالیس یا بیالیس سالوں کا احاطہ کرتا ہے اور گو کہ اس کا ایکشن کم و بیش ہندوستان کے تین بڑے شہروں لکھنؤ، بمبئی اور کلکتہ اور چند قصبوں اور زیارت گاہوں تک محدود ہے لیکن ہم چند کر داروں کے توسط سے کراچی، لندن امریکہ اور یورپ کے چند شہروں کی جھلک بھی دیکھ لیتے ہیں — اور جہاں تک اس کے وژن اور مرکزی خیال کا تعلق ہے وہ ٹھوس پیکروں اور حقائق، متنوع اور ہمہ رنگ کر داروں ، مختلف النوع اور بعض حیرت انگیز واقعات کے سانچے میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے ، یعنی یہ ایک بہت گنجان قسم کا ناول ہے جس کی بیشتر تفصیلات قابل توجہ اور اکثر بصیرت افروز ہیں۔ اس لیے ان سب پر بھی گہری نظر ڈالنا ضروری ہے۔اور اس مطالعے سے پہلے اگر ناول کے فارم، ٹیکنیک، سٹرکچر اور فنی تدبیر پر بھی ایک نظر ڈالی جائے تو یہ مطالعہ زیادہ بصیرت افروز ہو سکتا ہے اور اس سلسلے میں میرے خیال میں چار پانچ خصوصیات خاص طور سے قابل توجہ ہیں۔
اوّل یہ کہ یہ ناول مختلف واقعات، کر داروں ، مناظر، لوکیشنز (Locations) فطرت کے مظاہر اور زندگی کی اتھل پتھل کا ایک کولاژ سا ہے یعنی یہ سب تصویریں ایک دوسرے پرچسپاں کر دی گئی ہیں اور کبھی تو یہ ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہوئی اور کبھی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی نظر آتی ہیں اور کولاژ (Collage) کی یہ ٹیکنیک اس ناول کو گنجان پن کی خصوصیات سے مالا مال کرتی ہے۔دوسرے یہ کہ اس ناول میں ڈرامائی عناصر اور ڈرامائی ٹیکنیک اس کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ نہ صرف یہ کہ قرة العین نے پس منظر کی تفصیلات، کر داروں کی نشست و برخاست، لہجے کی خصوصیات، لباس، نقل و حرکت اور مکالموں کو بڑی باریکی سے پیش کیا ہے۔ جس سے ایک ڈرامائی ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس ناول کے سٹرکچر میں بھی ڈرامائی رنگ غالب ہے۔ پورا ناول مناظر کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ مناظر بڑی تیزی سے بدلتے ہیں۔ واقعات بڑی سرعت سے اور اکثر غیر متوقع طور پر وقوع پذیر ہوتے ہیں اور اکثر یہ حیرت انگیز مناظر اور برق رفتار ایکشن انتہائی اختصار سے کوئی بڑی داستان سنا جاتے ہیں۔تیسرے یہ کہ اگر چہ گنجان پن اور ٹھوس واقعات اور پیکروں پر انحصار اس ناول کی ایک نمایاں خصوصیت ہے لیکن کہیں کہیں قرةالعین حیدر اپنی نثری تحریر کو ایک ایسی سطح پر لے جاتی ہیں جہاں وہ سراسر شعریت کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے اور ان کے الفاظ میں معنویت کی کئی جہتیں لرزتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور عام طور پر بھی ا ن کی تخلیقات میں گا ہے گا ہے شعریت کی آمیزش ان کی معنویت اور دلکشی میں اضافہ کرتی ہے۔
چوتھے یہ کہ اگرچہ چاندنی بیگم حقیقت نگاری کی ایک تابندہ مثال ہے۔ لیکن اگر بنظر غور دیکھا جائے تو اس میں علامتی عناصر کا بھی ایک تانا بانا ایک موج تہ آب کی طرح مرتعش ہے۔ جو اس کے مرکزی خیال اور وژن کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہے ، یہ علامتیں عام طور سے فطرت سے مستعار لی گئی ہیں۔ آگ، پانی، ندی، چاند چاندنی، غروب آفتاب، دریا کی مترنم لہریں ، سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ، پرندوں کے لیے سیمل کے پھولوں کا خاموش اور پراسرار سفر اور ان کا فضا کی دھند میں غائب ہو جانا، پھولوں کا کھلنا اور مرجھانا اور شبنم وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں اور اکثر مکان، حویلیاں ، کھنڈر، مکانوں کی اندرونی آرائش، شاگرد پیشوں کی خستہ حالی، مسجد، مندر اور درگاہیں بھی یہ فرض انجام دیتی ہیں۔پانچویں یہ کہ اس ناول میں قرہ العین حیدر نے قرآن کریم کی دو آیات یعنی ’’وتعز من تشاء وتذل من تشا‘‘ یعنی خدا جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے ) اور’’اذا شئنا بدلنا ھم تبدیلا‘‘ ( جس کے معنی زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہیں )۔ سے خاص طور سے مد د لی ہے اور یہ اس کے سٹرکچر میں پیوست ہیں اور انھیں کی روشنی میں انہوں نے اپنے مرکزی وژن کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگر اس ناول کے اہم واقعات کا مختصر ذکر کیا جائے تو ان میں سب سے زیادہ مرکزی اہمیت کی حامل تو وہ آگ ہے جو ریڈ روزہاؤس، اس کے چار مکینوں اور باغ وغیرہ کو آن کی آن میں جلا کر رکھ کر دیتی ہے۔ اور اس کے علاوہ بٹو بیگم کی ناگہانی موت ریڈ روز ہاؤس میں صنوبر فلم کمپنی گروپ کی آمد،قنبر علی اور بیلا کی شادی اور پھر ریڈ روز ہاؤس اور تین کٹوری ہاؤس میں چاندنی بیگم کی آمد اور قیام ریڈ روز اسٹیٹ کے سلسلے میں سالہا سال چلنے والا مقدمہ ، اور پھر مقدمہ ہارنے کے بعد ماسٹر موگرے اور ان کے خاندان کی بہرائچ کی درگاہ میں آمد، غازی میاں اور زہرہ بی بی کی علامتی شادی کا جشن، ریڈ روز اسٹیٹ کے سلسلے میں مندر مسجد کا جھگڑا اور صفیہ سلطان کی موت جس پر اس ناول کا اختتام ہوتا ہے اس ناول کے کچھ اہم واقعات ہیں۔ ناول کی ’’ہیروئن‘ چاندنی بیگم کا کر دار تو کافی سیدھا سادہ ہے۔ وہ ایک رئیس خاندان کی غریب اولاد ہے۔ جسے اس کی بدنصیب اور خود دار ماں نے بڑی مصیبت سے پالا ہے اور بڑی مشکل سے اعلیٰ تعلیم دلائی ہے۔ وہ ایم۔اے ، بی ٹی ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ماں کے ساتھ ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھا رہی ہے اور کالج کی پرنسپل جو اس کی مالک بھی ہے دل بھر کر دونوں ماں بیٹیوں کا استحصال کر رہی ہے۔ چاندنی بیگم کو بٹو بیگم نے قنبر علی کے لیے پسند کر لیا تھا کیوں کہ وہ قنبر علی کی تینوں شرطوں پر پوری اترتی ہے یعنی غریب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ بہت خوبصورت بھی ہے۔ لیکن ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوتا اور ان کے ساتھ ہی قبر کی تاریکیوں میں کھو جاتا ہے۔
چاندنی بیگم کو ہم اس ناول میں بہت کم عرصے کے لیے دیکھتے ہیں۔ یعنی جب وہ اپنی ماں کے انتقال کے بعد انتہائی کسمپرسی کے عالم میں لکھنؤ آتی ہے کیوں کہ ظفر پور میں اس کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے ، لیکن ریڈ روز ہاؤس پہنچنے پر جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ قنبر علی پہلے ہی بیلا سے شادی کر چکا ہے تو وہ وہاں ٹھہرنا نہیں چاہتی اور قنبر کے واپس آنے سے پہلے ہی بیلا کی مد د سے تین کٹوری ہاؤس آتی ہے جہاں اسے صفیہ کے اسکول میں نوکری ملنے کی امید ہے ، لیکن وہ لوگ اسے صرف سلائی کا کام دیتے ہیں۔ شاگرد پیشے میں رکھتے ہیں اور نوکروں سے بدترسلوک کرتے ہیں۔ بہرطور ان چند مہینوں کے دوران ہم چاندنی بیگم کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اور یہ تاثر قائم کرتے ہیں کہ چاندنی ایک سیدھی سادی، جفا کش نیک اور شریف لڑکی ہے۔ وہ بہت مذہبی بھی ہے ، یعنی روزہ نماز کی پابند ہے اور ہر حال میں خدا کی مد د اور ہدایت پر بھروسہ رکھتی ہے اور وہ نہایت صابر و شاکر خود دار اور ذہین بھی ہے اور بدترین حالات میں بھی اپنا توازن اور وقار قائم رکھتی ہے۔ وہ تین کٹوری ہاؤس کی خادماؤں سے گھل مل جاتی ہے حالاں کہ وہ ان سے بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ ہے لیکن اس نے بھی غریبی کا کرب سہا ہے۔ چاندنی بیگم ایک خاندانی لڑکی ہونے کے علاوہ خوبصورت بھی ہے ، اس لیے رانی صاحبہ چاہتی ہیں کہ وکی سے جو ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے ، اس کا نکاح پڑھوا دیں اور چاندنی بھی ذہنی طور پر خود کو اس کے لیے تیار کر لیتی ہے۔ کیوں کہ وہ بالکل بے سہارا ہے اور اسے وکی سے ہمدردی بھی ہے ، لیکن نہ صرف بوبی کی رچائی ہوئی سازش کے تحت یہ تجویز منسوخ کر دی جاتی ہے بلکہ بوبی خود اس پر ڈورے ڈالتا ہے اور اسے اپنی مسٹرس بنانے کی تجویز پیش کرتا ہے اور جب چاندنی بیگم اس کا منہ توڑ جواب دیتی ہے اور اسے کافی ذلیل بھی کرتی ہے تو ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ سیدھی سادی مظلوم لڑکی کافی با ہمت بھی ہے۔ تین کٹوری ہاؤس کے قیام کے آخری دنوں میں چاندنی سخت پریشانیوں سے گزرتی ہے۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ چاندنی جلد از جلد کہیں اور چلی جائے کیوں کہ سلائی کا کام ختم ہو چکا ہے اور بچے اس سے اردو پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ ۔
لیکن چاندنی جائے تو کہاں جائے ! اور پھر اس کا چشمہ ٹوٹ جاتا ہے اور زیور چوری ہو جاتا ہے اور وہ بیمار پڑ جاتی ہے اور آخر کار انتہائی مجبوری کے عالم میں وہ قنبر علی کو فون کرتی ہے اور اپنا حال بتاتی ہے۔ قنبر علی فوراً کار لے کر آتا ہے اور اسے بڑی عزت اور ہمدردی کے ساتھ اپنے گھر لے جاتا ہے ، راستے میں لکھنؤ کی کچھ یادگار عمارتوں کی سیر بھی کراتا ہے۔ دونوں میں جلد ہی دوستی اور بے تکلفی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ گو وہ پہلی بار ہی ایک دوسرے سے ملے ہیں ، لیکن اپنی ماؤں سے ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ سن چکے ہیں۔ قنبر علی چاندنی کو اپنے خوبصورت گیسٹ روم میں ٹھہراتا ہے اور اسے اچھی نوکری دلانے کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب جلد ہی چاندنی کی پریشانیوں کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔ اور ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ چاندنی ہی قنبر کے لیے آئیڈیل شریکِ حیات ہو سکتی تھی اور خود قنبر بھی یہی سوچتا ہے اور اس کے یہ الفاظ ’’ہم بھی ایک قیمتی چیز تہ میں رکھ کر بھول گئے تھے ‘‘ اس کے دلی جذبات کی تفسیر ہیں۔ لیکن حالات کو کچھ اور ہی منظور ہے اور اسی کے ساتھ چاندنی، قنبر اور بیلا آن کی آن میں نذر آتش ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ بھوانی شنکر سوختہ بھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاندنی ایک اچھی انسان سہی، اور وہ شروع ہی سے ہماری ہمدردی کا مرکز بھی رہی ہے۔ لیکن کیا اس ناول میں اس کی اتنی اہمیت ہے کہ ناول کو اس کا نام دیا جائے۔ تو ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ناول کی کہانی میں تو چاندنی کا مرکزی رول نہیں ، لیکن کم سے کم ایک اعتبار سے اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے ، اور وہ یہ کہ ہم اکثر اہم اور بعض غیر اہم کر داروں کو اس کے وسیلے یا تعلق سے پہچانتے ہیں۔ مثلاً قنبر علی شروع ہی سے ناول کے منظر نامے پر چھایا ہوا ہے۔ لیکن اکثر وہ کچھ سیاسی نعروں اور مارکسسٹ آئیڈیالوجی کا ایک بلند آہنگ ریکارڈ معلوم ہوتا ہے ، لیکن چاندنی بیگم سے مختصر ملاقات کے دوران ہم اسے ایک ذہین، ہمدرد، مہذب اور شائستہ انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ وکی میاں کو سب نیم پاگل سمجھتے ہیں ، لیکن چاندنی بیگم سے تعلق کے وسیلے سے ہم انھیں ایک حساس، رحم دل اور فلسفیانہ مزاج انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ بوبی کی رذالیت اور ہوس پرستی اور پروین کی خود غرضی، غرور اور چھچھورے پن کا اندازہ بھی چاندنی بیگم کی طرف ان کے رویے سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف چاندنی بیگم کی طرف صفیہ سلطان کے رویے میں جسے سب جھکی اور آدم بیزار سمجھتے ہیں ، ہمدردی اور ذہانت کا پرتو نظر آتا ہے۔ بیلا کی شخصیت کے کچھ اہم پہلو بھی چاندنی بیگم سے اس کے سلوک میں نمایاں ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ تین کٹوری ہاؤس کے شاگرد پیشہ کے مکینوں کو بھی ہم چاندنی بیگم کے حوالے سے انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ بتاشن بوا اور نورن بوا غریب سہی لیکن نہ ان میں ذہانت کی کمی ہے اور نہ انسانی ہمدردی کی اور مسز ڈھونڈی کی انسان دوستی کا اندازہ بھی چاندنی کی طرف ان کے رویے سے ہوتا ہے ورنہ وہ زیادہ تر ایک گورکھ دھندا قسم کی غیر ضروری کر دار معلوم ہوتی ہیں۔
تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ چاندنی بیگم اس ناول کی صرف ایک کر دار ہی نہیں بلکہ ایک مرکزی علامت ہے ، جس طرح چیخوف کے شہرہ آفاق ڈرامے ’’چیری کا باغ‘‘ میں چیری کا باغ ایک مرکزی علامت ہے ، جو اس شاہکار کے اہم موضوع اور ہمہ گیر وژن کو دامن میں چھپائے ہوئے ہے اور اسی کے وسیلے سے کر داروں کی شخصیت اور سماجی رویوں کے نقوش بھی ابھرتے ہیں شاید نہیں ، کیوں کہ چاندنی بیگم کی شخصیت اور اس کا رول اس ناول کے متنوع موضوعات اور گنجان وژن کا احاطہ نہیں کر سکتی تو پھر ناول کے اس عنوان کی معنویت اور جواز کیا ہے قرة العین حیدر اکثر کسی موضوع یا شعر کے ٹکڑے کو اپنے ناول اور کہانیوں کا عنوان بناتی تھیں لیکن شاید انھیں ایسا کوئی شعری عنوان نہ مل سکا جو اس ناول کے سبھی موضوعات کا احاطہ کر سکے۔ خود میں نے بھی کافی غور کیا لیکن کوئی مناسب شعری عنوان ذہن میں نہیں آیا۔ اس کا عنوان ’’زمین زمین ‘‘ یا ’’آگ آگ‘‘ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ضرورت سے زیادہ وضاحتی بھی ہیں اور محدود بھی اور ’’آگ‘‘ کا عنوان تو اس واقعے کی اثر انگیزی اور سسپینس (Suspense) کو بھی متاثر کر سکتا تھا۔ اس کا عنوان کوئی لوکیشن بھی نہیں ہو سکتا تھا، کیوں کہ سبھی کی اہمیت جزوی ہے تو پھر اگر ناول کا عنوان کسی کر دار کے نام پر ہی ہونا تھا تو میرے خیال میں ’’چاندنی بیگم‘‘ ہی سب سے مناسب ہے۔ چاندنی بیگم کسی خاص آئیڈیولوجی، نظریے ، رجحان، طبقے یا پروفیشن کی نمائندہ نہیں بلکہ انسانیت کا ایک سیدھا سادہ اور قابلِ قبول ماڈل ہے جو چمک دمک اور شان و شوکت سے بے نیاز ہے اور آخر اس ناول کا موضوع بھی تو انسانی زندگی کے نشیب و فراز، رنج و غم، خوشیاں اور امکانات ہی ہیں اور اسی اعتبار سے یہ عنوان مناسب ہے۔
اس ناول کے تھیم اور مرکزی وژن کا صرف ایک پہلو ہے ، ’’چاندنی بیگم‘‘ کا موضوع زندگی، زمانہ، زمین، وقت اور موت ہیں۔ اور وقت کے سیلِ رواں میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اتھل پتھل اور انسانی منصوبوں اور خوابوں کی بے ثباتی ہیں اور اس وسیع موضوع کے سبھی پہلوؤں پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ اس پہلو دار اور معنویت سے بھرپور ناول کی بعض خامیاں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتیں ، جس میں ایک بڑی خامی اکثر موقعوں پر غیر ضروری تفصیلات، غیر ضروری واقعات اور کر داروں کا ذکر ہے ، جس سے نہ صرف ناول کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے بلکہ اس کی معنویت کے نقوش بھی دھندلے پڑنے لگتے ہیں۔ یہاں اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالنا تو ممکن نہیں ، لیکن ہر قاری اسے اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق محسوس کر سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال ناول کے آخری حصے میں تین کٹوری ہاؤس اور قصر شیریں کے مکینوں کے بے معنی شب و روز کی غیر ضروری تفصیلات ہیں اور پاکستانی گروپ کی خصوصیات کا تذکرہ بھی بہت تکراری ہے۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply