یہ 1947 کی بات ہے۔مغربی پنجاب کی ہوا مسلمانوں کے دبدبے سے بھاری ہو گئی تھی۔اتنی بھاری کہ بچارے اللہ رکھے کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا۔اللہ رکھا مسلمان نہیں تھا اس نے طرف اپنی جان بچانے کے لئے ہی اسلام قبول کیا تھا۔جب اس کے بہت سے پڑوسی فسادات میں مارے گئے تو اس نے مسلمان ہونے کی درخواست کی تو انہوں نے اس کا نام اللہ رکھا رکھ دیا کیونکہ اگر اللہ اسے نہ رکھتا تو اس کو بھی موت کہ گھاٹ اتار دیا جاتا۔
جان بچا کر اب اللہ رکھے کواپنی جان سنبھلنی مشکل ہو رہی تھی۔گھڑے میں قید کسی جنگلی ہرن کی طرح اس کا دل ڈرتا رہتا تھا۔اپنا علاقہ چھوڑ کر وہ جائے تو جائے بھی کہاں،سارے لوگ،گھر،دیواریں اور سڑکیں اس کو اپنی دشمن لگ رہی تھی۔تپتی دھوب پر چل رہے کسی اجنبی انسان کی طرح اس کا پاؤں زمین پر پڑھتا تو بلکل چوکنا ہو کر حرکت کرنے لگتا۔شہر انسانوں سے بھرا پڑا تھا پر وہ کسی کے ساتھ بھی اپنا دل نہیں لگا رہا تھا۔کچھ انسان برے تھے تو کچھ اچھے۔لیکن کوئی انسان اس کا اپنا نہیں تھا۔اسے اپنی نئی روٹی،نئے کپڑوں، اس کی موجودہ شکل و صورت کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔بس ایک وہ تھا اور ایک اس کی بیوی۔دونوں بیٹھ کر وہاں سے نکلنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے۔انھیں اپنے بچوں سے بھی ڈر لگتا تھاکہ کہیں گھر میں سنی ہوئی کوئی بات باہر ان کے منہ سے نہ نکل جائے۔
ان دنوں میں پاکستان میں اس طرح کہ پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے میں لگا ہوا تھا۔ایک دن اس نے مجھے گھومتے ہوئے دیکھا تو ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔میں اس کونے میں جا کر کھڑا ہو گیا پر وہ نہ آیا۔وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا۔شاید وہاں اس کو کھڑے دیکھ کر کوئی گولی نہ مار دیں۔دو دن بعد وہ پھر ملا۔پوچھنے لگا تین گھنٹے کے بعد کہیں مل سکتے ہو؟میں نے کہا کے کوٹھی پر آجانا۔اس کا مطلب واضع تھا۔وہ انڈیا جانا چاہتا تھا۔ تین گھنٹے بعد وہ کوٹھی پہنچا۔ اور ہم کچھ سپاہیوں کے ساتھ ٹرک میں بیٹھ کر اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔
جب ہم اس کے محلے میں پہنچے تو اس کو میرے ساتھ بیٹھے دیکھ کر لوگوں کو بہت غصہ آیا۔ میرے پاس بیٹھنے کی وجہ وہ فوراً سمجھ گئے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جا رہاہے۔لوگ اس کو غدار سمجھنے لگے۔آخر اللہ رکھا ان چند لوگوں میں سے تھا جو اپنی زبان پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے زندہ رہ سکا۔اس کا اس طرح بدلنا ان کی بہت بڑی توہین تھی۔ ان کے چہروں پر غصہ دیکھ کر تو اللہ رکھے کا بھی رنگ اڑ گیا تھا۔ ان کہ مزاج سے ڈرنا اس کی فطرت بن چکی تھی۔
اس کے گھر کی طرف جانے والی گلی تنگ تھی اور اس سے کوئی بڑی گاڑی نہیں گزر سکتی تھی۔ہم نے ٹرک کو سڑک پر کھڑا کیا اور اس کے گھر گئے۔اندر اس کی بیوی خوف سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ میں اس کہ خوف کا ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکتا۔جتنی سستی انسان کی زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی، اتنی میری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوئی تھی۔کچھ مہنے پہلے گلیوں بازروں میں اس نے جو مردا لاشیں دیکھی تھی وہی سب اس کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔مجھے اپنے قریب آتے دیکھ کر اس نے تھوڑا حوصلہ محسوس کیا۔ان کا سامان بندھا پڑا تھا اور چلنے کے لئے تیار تھے۔بس ایک چھوٹی بیٹی کا انتظار تھا جو سکول گئی ہوئی تھی۔وہ بھی اسی وقت آگئی۔
اب ٹرک میں سامان رکھنے کا کام کرنا تھا۔ کسی مزدور یا کسی پڑوسی سے مدد لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔میرے سامان اٹھانے میں میری افسری پر بات آتی تھی۔اوراگر فوجی سامان اٹھانے لگ جاتے تو ہم سب کی جان کو خطرہ تھا۔اس کام کے لئے اللہ رکھا اکیلا ہی تھا۔کچھ کپڑے اس نے گھٹریوں میں باندھےاور اس کے ساتھ ہی کچھ برتن بھی بوریوں میں بھر لٸے۔جوں جوں اللہ رکھا سامان اکٹھا کر کہ ٹرک کی طرف لے جا رہا تھا،آس پاس کھڑے لوگوں کا غصہ بھڑک رہا تھا کبھی وہ آپس میں لڑتے ہوئے کہتے،”تمہیں کہا تھا نا کہ اس کو بھی ٹھکانے لگا دو،اب بتاو؟“
”ارےاب مٹا دیتے ہیں،ابھی بھی کیا بگڑا ہے؟“ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
اس طرح کی باتیں سن کر مجھے بھی ڈر لگ رہا تھا۔وہ جگہ اتنی تنگ اور کھلی ہوئی تھی کہ گولی کا خطرہ ہر طرف سے تھا۔ گولی کہیں سے بھی آسکتی تھی۔لیکن ہم وہاں سے دُم دبا کر نہیں بھاگ سکتے تھےکیونکہ ہماری دوڑ سے ان کے حوصلے بڑھ سکتے تھے اور ہماری گرفت ٹوٹنے کا خطرہ تھا۔آخر کار سامان ختم ہو گیا۔ میں آخری پھیرے میں اس کی بیوی کو بھی ساتھ لے کر آیا۔ میرے خیال میں ہمارے پاس ٹرک میں سوار ہونے اور ان کے قابو سے باہر ہونے سے پہلے ہی نکلنے کے لیے اتنا وقت تھا۔
ٹرک میں بیٹھنے سے پہلے اللہ رکھے کی بیوی نے سامان کی طرف دیکھا۔ کچھ چیزیں غائب تھیں۔
”وہ مٹی کا گھڑا اور پیتل کی دیجیکی نہیں لائے تم؟“
”وہ کس چیزکے ساتھ باندھی ہوئی تھی؟باندھی تو نہیں تھی وہ ایسے ہی رکھی تھی۔“
”وہ نہیں آسکتی اب۔جہاں گھر اور ایسا ہی بہت سا سامان رہ گیا ہے وہاں اسے بھی رہ جانے دو اور چلو ٹرک میں بیٹھ جاٶ۔“
اللہ رکھے نے ٹھیک کہا،اب انہیں لانا بہت خطرے والاکام تھا۔ہمیں جاتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کو بہت زیادہ غصہ آرہا تھا۔وہ ایک دوسرے سے بھڑک کر تلخ باتیں منہ سے نکال رہے تھے۔اور اگر ہم وہ تلخ باتیں نہ سنتے تو لوگ گھونسوں اور گولیوں کا سہارا بھی لے سکتے تھے۔ہوسکتا تھا کے کچھ لوگ ہمیں نکلتا دیکھ کر باقی رہ جانے والی چیزیں اٹھانے لگ گٸے ہوں۔
خوف زدہ آدمی کیا نہیں کر سکتا ہے لیکن اللہ رکھے کی بیوی پر یہ دلیلیں کچھ اثر نہیں کر رہی تھی۔ اس کی توجہ کسی اور چیز پر مرکوز تھی۔
”وہ مٹی کا گھڑا اور پیتل کی دیجکی تو ضرور لانی ہے۔“اس نے پہلے اپنی بیٹی اور پھر ٹرک میں پڑے ساماں کو دیکھ کر کہا۔وہ اکیلی ہی واپس گھر کی طرف چل دی۔میں بھی اس کہ پہچے گیا کیونکہ میرے ساتھ ہونے سے آس پاس کا لاوا ابلنے کا خطرہ کم تھا۔اندر جا کر اس نے مٹی کے گھڑے کو بغل میں لیا اور دیجکی کو ہاتھ میں لٹکا لیا۔
”اس کو لے کر کہاں کہاں ڈولتی پھرو گی۔اتنے بھاری تو ہیں۔“میں نے آہستہ سے ڈانٹا۔
”اٹھانے میں بھاری ہیں تو کیا ہوا۔میں اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا دوں گٸی؟۔“
واپس آتے وقت اس کے پاؤں مضبوطی سے زمین کو چھو رہے تھے اور اس کی چال مضبوط تھی۔ اس کے عزم کا اثر بڑھ گیا تھا۔ٹرک کے پاس آکر اس نے بیٹی کو گود میں لیا اور ٹرک میں بیٹھ گٸی۔ٹرک میں بیٹھ کر اس نے اپنی ایک ٹانگ مٹی کے گھڑے پر اور دوسری پیتل کی دیجکی پر رکھ دی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں