• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفرنامہ روس /دیس میں نکلا ہوگا چاند (حصّہ چہارم)۔۔سیّد مہدی بخاری

سفرنامہ روس /دیس میں نکلا ہوگا چاند (حصّہ چہارم)۔۔سیّد مہدی بخاری

گھڑی شام کے چار بجا رہی تھی۔ اس چھوٹے سے ہال میں بیٹھے آٹھ گھنٹے بیت چکے تھے۔ صبح نو بجے جب مجھے اس ہال میں لایا گیا اس وقت دیگر ممالک کے آٹھ دس افراد یہاں موجود تھے۔ ان بیتے گھنٹوں میں امیگریشن آفیسرز بدل بدل کر آتے رہے۔ ان کے پاسپورٹ تھامے ان کا نام پکارتے اور اک اک کر کے ان کو اپنے ساتھ ہال سے باہر لے جاتے۔ ان آٹھ گھنٹوں میں وہ تمام افراد جا چکے تھے اور تین چار نئے آ چکے تھے۔ میرے اندر بے چینی بھرتی جا رہی تھی۔ موبائل سے دل بہلاتے، آنے جانے والوں سے علیک سلیک کرتے صبح سے شام ہو چلی تھی۔ ہوائی اڈے کا فری انٹرنیٹ تھا۔ سگنل پورے تھے مگر میں اسے استعمال کرنے سے قاصر تھا۔ میرے موبائل میں پاکستان کی سم تھی جو یہاں ناقابل استعمال تھی۔ اس پر سگنلز نہیں آ رہے تھے۔ ہوائی اڈے کا وائی فائی کنیکٹ کرنا چاہا تو انکشاف ہوا کہ یہ تب چلے گا جب مقامی روسی سم کا نمبر درج کیا جائے اور اس نمبر پر جو کوڈ بذریعہ ایس ایم ایس موصول ہو وہ کوڈ ڈالا جائے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ بس یہی کبھی برابر والے سے رسمی گفتگو کا آغاز، کبھی اس ہال میں موجود کرسیوں، دیواروں اور چھت پر لگے فانوس کو دیکھتے رہنے اور اپنا نام پکارے جانے تک خیالوں و سوچوں میں گم رہنے کے۔۔۔
اب تلک بھی مجھے گمان نہ تھا کہ یہ سب تو آغاز ہے۔ ابھی تو آگے کافی مرحلے آئیں گے۔ امیگریشن میں آٹھ گھنٹے بنا کسی سبب کے بٹھائے رکھنے کے باوجود ذہن میں یہی آتا رہا کہ روس کی امیگریشن ایسی ہی ہے اور میں ٹھہرا اس ملک کا باشندہ جس کے تعلقات ماضی میں کشیدہ رہے لہذا اب کچھ صبر سے کام لینا ہو گا۔ دن کا تیسرا پہر بھی بیت رہا تھا۔ میرے اندر مسلسل اضطراب تھا۔ بلآخر جب در و دیواروں، ہال میں موجود کرسیوں و لوگوں کو دیکھ دیکھ کر ازبر کر چکا تو اب دھیان بہلانے کو بھی کچھ باقی نہ رہا تھا۔ میں اٹھا اور انتہائی بیزاری سے اس ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
جیسے ہی باہر نکلا، سامنے دو سیکیورٹی اہلکار کھڑے تھے۔ ایک نے مجھے دیکھا۔ ” اندر جاو اور اپنی سیٹ پر بیٹھو”۔ وہ اونچا چلایا۔
“مسٹر! میں آٹھ گھنٹوں سے یہاں بیٹھا ہوں۔ برائے مہربانی کسی امیگریشن آفیسر کو بلائیں۔ مجھے میرا پاسپورٹ دیں۔ میں یہاں سے جاوں۔ کوئی میرے ڈاکومنٹس میں مسئلہ ہے تو مجھ سے بات کریں”۔ میں نے انتہائی بیزاری سے اسے جواب دیا۔ اب اندر غصہ ابھرنے لگا تھا۔ میں کوئی مجرم تو نہیں تھا کہ یوں مجھے روک کر ایک ہال میں بند کر دیا جاتا۔ سیکیورٹی اہلکار کو نجانے انگریزی سمجھ آتی تھی یا نہیں آتی تھی۔ اسے ایک ہی جملہ آتا تھا “اندر جاو۔۔ اپنی سیٹ پر بیٹھو”۔ وہ دوبارہ چلایا۔ میں نے اک بار پھر اپنا مدعا دہرایا تو وہ آگے بڑھا۔ میرے سامنے آ کر پھر وہی بولا “اندر جاو ۔۔۔۔۔ “۔
ایسی صورتحال میں کیا ہو سکتا تھا ؟ ۔ مجبور ہو کر میں واپس اپنی نشست پر آ بیٹھا۔ پندرہ منٹ گزرے ہوں گے۔ نیلی وردی میں ملبوس امیگریشن آفیسر آیا۔ اس نے میرا نام پکارا۔ میں نے ہاتھ اٹھایا۔ وہ بولا ” میرے پیچھے آو”۔ میں نے خوشی خوشی اپنا کیمرا بیگ اٹھایا اور اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس وقت مجھے لگا تھا کہ اب میرے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی سٹمپ لگا کر میرے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس کے پیچھے چلتے چلتے دو تین راہداریوں سے گزر کر اک کمرہ آیا۔ آفیسر نے کمرہ کھولا۔ ” اندر جا کر بیٹھ جاو”۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔
کمرہ کیا تھا۔ ایک ٹیبل جس کے دونوں اطراف اک اک کرسی دھری تھی۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ دیوار پر سی سی ٹی وی کیمرا لگا تھا۔ چھت سے فلموں کی مانند ایک لمبی تار کے ساتھ بڑا سا بلب لٹک رہا تھا۔ یہ ایک تفتیشی کمرہ لگ رہا تھا۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تھا مجھے اپنے عقب میں کمرے کا دروازہ لاک ہونے کی آواز آئی تھی۔ برائے تجسس میں نے دروازے کے ہینڈل کو گھما کر کھولنا چاہا تو وہ لاک تھا۔
صبح سے کچھ کھایا نہ تھا۔ پریشانی کے عالم میں شوگر بھی پریشان ہو جایا کرتی ہے۔ میں شوگر کا ہلکا پھلکا سا مرض پالے ہوئے ہوں جو کبھی کبھی مجھے اپنا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھوکے پیٹ شاید شوگر لو ہو رہی تھی۔ دل گھبرانے لگا تھا۔ یوں لگنے لگا تھا جیسے سینے پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ حلق پیاس سے خشک ہو رہا تھا۔ دل کی دھڑکنیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ ابھی تلک میری چھٹی حس بیدار ہو کر کہہ رہی تھی کہ یہ سب نارمل نہیں ہے۔ کہیں کچھ شدید قسم کی گڑ بڑ ہے۔ ذہن طرح طرح کے خدشات سے بھرا جا رہا تھا۔ ” میرے سامان میں سے تو کہیں کچھ ایسا برآمد تو نہیں ہو گیا جو غیر قانونی شے ہو ؟ میرے سامان میں کیا کیا کچھ تھا ؟ ۔۔ کہیں کسی نے کوئی شے میرے سامان میں تو شامل نہیں کر دی ؟۔ کیا میں نے کسی سے کوئی شے لی تھی ؟ میرا سفری بیگ تو ائیر لائن نے لاہور سے ہی لے لیا تھا کہیں کسی ائیرلائن کے سٹاف نے میرے بیگ میں کچھ رکھ تو نہیں دیا ؟ “۔۔
کتنے ہی خدشات سر اٹھانے لگے تھے۔ ان سب کے بیچ گرتی ہوئی شوگر اور بھاری پڑتا دل تھا۔ ذہن میں فلم چل رہی تھی۔ وہ تمام مناظر گھومنے لگے تھے جو آج تلک ڈاکومنٹری یا فلموں میں دیکھ رکھے تھے۔ موبائل پاس ہوتے بھی میں لاچار تھا۔ نہ انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر کسی کو اپنے بارے بتا سکتا تھا نہ ہی کہیں کال کی جا سکتی تھی۔ گھڑی اب شام کے چھ بجا رہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلا۔
ایک آفیسر ہاتھ میں کاغذ کا ٹکرا اور پن تھامے اندر داخل ہوا۔ کرسی کھینچ کر وہ میرے سامنے بیٹھا۔ اس کے بیٹھتے ہی میرا ضبط جواب دے گیا۔
“سر! مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے ؟ آپ مجھے وجہ بتا دیں۔ اگر آپ کو کوئی ڈاکومنٹس چاہیئے تو میں آپ کو دے سکتا ہوں۔ میرے ہینڈ کیری میں ٹریول انشورنس، ہوٹل بکنگز، کورونا رپورٹ، کورونا سرٹیفکیٹ، ائیر ٹکٹس سب موجود ہیں۔ میں صبح آٹھ بجے سے اب تک یہاں ہوں۔ آخر مجھے کس وجہ سے روکا گیا ہے ؟ “۔ میں نے اس کے سامنے بولنا شروع کیا۔ میری آدھی بات کاٹتے ہوئے اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے چپ ہونے کا کہا۔ میں چپ ہو گیا۔
“مسٹر بخاری ! تم کیا کرتے ہو ؟ مجھے اپنی جاب کا بتاو”۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے سپاٹ چہرے سے پوچھا۔
“میں ایک فوٹوگرافر ہوں، کالم کار ہوں، پاکستان کے نیشنل میڈیا کے لئے لکھتا ہوں۔ کئی ملک گھوم چکا ہوں۔ میرے پاس میرے پرانے دو پاسپورٹ بھی موجود ہیں وہ آپ کو دکھا سکتا ہوں۔ میں یونائیٹڈ نیشنز پاکستان میں بطور کنسلٹنٹ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کام کرتا ہوں۔ وہ میری جاب ہے”۔
اس نے کاغذ کے کورے ٹکرے پر کچھ لکھا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوا۔ ” تمہارے پاس یونائیٹڈ نیشنز کا کارڈ ہے ؟” ۔۔
“ہاں بالکل ہے”۔ میں نے کمر سے بندھے چھوٹے سے سفری بیگ کو کھولا جس میں ضروری کارڈز جیسے کریڈٹ و ڈیبٹ کارڈز، ایمپلائی کارڈ، شناختی کارڈ سمیت کچھ امریکی ڈالرز میں موجود رقم تھی۔ کارڈ نکالا۔ اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے کارڈ اٹھایا اور اپنے پاس رکھ لیا۔
“مسٹر بخاری ! تمہارے پاس یونائیٹڈ نیشنز کا جاب لیٹر ہے ؟”۔ اس نے استفسار کیا۔
“جاب لیٹر ؟ نہیں میں نے بتایا کہ میں کنسلٹنٹ ہوں۔ کنسلٹنٹ پے رول پر نہیں ہوتے۔ میری کوئی ماہانہ فکس تنخواہ نہیں ہے۔ میں یونائیٹڈ نیشنز کو اپنی سروسز مہیا کرتا ہوں جب وہ مانگیں۔ ہر اسائنمنٹ کے بعد اپنا بل بھیجتا ہوں۔ پر ڈے کے حساب سے چارج کرتا ہوں۔ ہاں، میرے پاس کنٹریکٹ لیٹر ہو گا۔ میں تین سال کے کانٹریکٹ پر ہوں۔ یہ کنٹریکٹ ری نیو ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ میں ورلڈ بینک پاکستان مشن کو بھی سروسز دیتا ہوں۔ ان کا بھی کنسلٹنٹ ہوں۔” میں نے اسے تفصیل سے بتانا شروع کیا۔ مجھے لگا کہ وہ میرے متعلق جان کر مجھے جانے دیں گے۔
اس نے کاغذ پر پھر پن چلایا۔ “اپنا کانٹریکٹ لیٹر دکھاو۔ “۔
میں نے موبائل کھولا۔ اپنے کنٹریکٹ لیٹرز کو اوپن کیا۔ اس کے سامنے موبائل سکرین رکھتے کہا ” یہ لیں۔ میرے پاس پی ڈی ایف میں موجود ہیں۔ دونوں لیٹرز ہیں۔ ایک یونائیٹڈ نیشنز کا ایک ورلڈ بینک کا۔ میرے پاس ان کا پرنٹ ابھی نہیں ہے”۔
اس نے موبائل اٹھایا۔ زوم کر کے کچھ دیکھا۔ اور موبائل اپنے پاس رکھ لیا۔
“مسٹر بخاری ! تم روس کیوں آئے ہو۔ کہاں کہاں جانا چاہتے ہو ؟ ” ۔ اک اور سوال اس نے سپاٹ چہرے سے پوچھا۔
“سر، میں بہت سے ممالک میں جا چکا۔ روس میرا پندرہواں ملک ہو گا۔ میں فوٹوگرافر اور سیاح ہوں۔ یہاں اس لئے آیا ہوں کہ مجھے آپ کی ایمبیسی نے ویزا دیا ہے۔ میرا ارادہ سائبیریا جانے کا ہے وہاں کچھ جھیل بائیکال کی تصاویر لوں گا۔ پھر میرا ارادہ گروزنی جانے کا ہے جو چیچنیا کا دارالحکومت ہے۔ وہاں جھیل کیزینویم کی تصاویر لوں گا۔ کوہ قاف کے پہاڑوں کی تصاویر لوں گا۔ وہاں سے تین گھنٹے کے فاصلے پر داغستان ہے جہاں میرے پسندیدہ ادیب حمزہ رسول کا گھر ہے۔ اس گھر کو وزٹ کروں گا اور پھر ماسکو واپس آ جاوں گا۔پھر سینٹ پیٹرزبرگ جاوں گا۔ میرے پاس ہوٹل بکنگز بھی موجود ہیں۔ آپ کو دکھا سکتا ہوں”۔
اس نے پھر کاغذ پر کچھ لکھا۔ ” تم چیچنیا کیسے جاو گے ؟ ”
میں نے ہینڈ کیری کیمرا بیگ کھولا۔ اس میں سے ڈاکومنٹس نکالے اور ریٹرن ائیر ٹکٹ اس کے سامنے رکھ دی ” یہ میری ماسکو سے گروزنی کی ٹکٹ ہے۔ میرا قیام وہاں دو راتوں کا ہو گا پھر ماسکو واپس آ جاوں گا”۔
اس نے ٹکٹ اٹھائی اور اپنے پاس رکھ لی۔ پھر اس نے میرا موبائل اٹھایا اور مجھے کہا کہ اسے ان لاک کر دوں۔ میں نے ان لاک کر دیا۔ اس نے سکرین پر +7 کا کوڈ سرچ باکس میں لکھا اور روسی نمبرز جو میرے موبائل میں ایڈ تھے وہ سب نوٹ کرنے لگا۔ پھر اس نے فیسبک کھولا۔ اس کا لنک نوٹ کیا۔ انسٹا، ٹوئٹر اور واٹس ایپ وغیرہ نوٹ کئے۔ جب سب لکھ چکا تو بولا ” یہ کون لوگ ہیں ؟ تم روس میں کس کو جانتے ہو ؟ ”
“سر، یہ روسی نمبر ہوسٹلز والوں کے ہیں۔ جہاں میں رکوں گا۔ میں کسی کو یہاں نہیں جانتا۔ یہاں میرا کوئی دوست یا شناسا نہیں ہے۔ نمبرز اس لئے محفوظ کئے کہ اگر مجھے ہوسٹلز کا راستہ نہ مل سکے تو فون پر معلوم کر لوں”۔
جواب سن کر وہ اٹھا۔ اس نے میرا موبائل اٹھایا۔ ٹکٹ اٹھائی۔ ایمپلائی کارڈ اٹھایا اور چلنے لگا۔ جیسے ہی وہ چلنے لگا میں نے گھبرا کے کہا ” سر مجھے یہاں سے کب جانا ہو گا ؟ آپ کو سب کچھ دے دیا ہے”۔ اس نے جواب دیا ” ابھی بیٹھو۔ کچھ دیر میں بتاتے ہیں”۔ وہ چلا گیا اور دروازہ پھر سے لاک ہو گیا۔
گھڑی شام کے سات بجا رہی تھی۔ میں سی سی ٹی وی کیمرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ ذہن میں پھر وہی سب خدشات ابھر ابھر کر ڈرانے لگے۔ سر درد لگ چکی تھی۔ اب میرا موبائل بھی میرے پاس نہیں تھا۔ سر درد سے پھٹنے کو آنے لگا۔ اعصاب شکن مرحلے سے گزرتے ہوئے انسان اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے۔ بے معنی تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں نے کرسی پر بیٹھے سامنے دھرے ٹیبل پر اپنے دونوں بازوں پر سر رکھا اور آنکھیں موند لیں۔ شاید اس وقت بھوک یا شوگر کا اثر تھا۔ میری توانائی صرف ہو چکی تھی۔ میری آنکھ لگ گئی۔
آنکھ کھلی تو کلائی پر بندھی گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹہ میں میز پر سر ٹکائے اونگھتا رہا تھا۔ اب مجھے رونا آ رہا تھا۔ میری آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ میں ایکدم بے بس تھا۔ مایوسی کی ایک شدید کیفیت تھی جو طاری ہو رہی تھی۔ مجھے اپنا گھر یاد آنے لگا۔ میں یہاں سے گھر جانا چاہتا تھا۔ روس سے جو میرا تعارف ہو رہا تھا مجھے اس سے نفرت ہو رہی تھی۔ مجھے اپنے کمرے کا بستر یاد آ رہا تھا۔ مرحومہ ماں کے بوسوں کی حلاوت یاد آ رہی تھی۔ جب سفر پر نکلتا ماں مجھے رخصت کرتی۔ جس دن میں ماسکو کے لئے گھر سے نکلا بیگم و بچے مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے تھے اور جب تلک میں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا وہ ہاتھ ہلاتے مجھے خدا حافظ کہتے رہے۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں یہاں کیوں ہوں اور نہ ہی یہاں سے نکلنے کی کوئی خبر تھی۔ دور پہاڑوں میں، کوہستان میں، پہاڑی چراہگاہوں سے جب بھیڑوں کا گلہ واپس لوٹ رہا ہو تو جو چیز سب سے پہلے نظر آتی ہے وہ بھیڑوں کی سینگیں ہوتی ہیں۔ پھر کہیں جا کر گلہ دکھائی دیتا ہے۔ کسی برات یا جنازے کا انتظار ہو تو سب سے پہلے خبر رساں نظر آتا ہے۔ کسی گاوں میں خبر رساں کا انتظار ہو سب سے پہلے گرد و غبار کا بادل نظر آتا ہے اور پھر خبر رساں کی سواری۔ جب شکاری واپس آنے والا ہو تو سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ ہوتا ہے اس کا کتا۔ یہاں تو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اندھیرا تھا اور میں اک دروازے پر “تھپ تھپ تھپ” کئے جا رہا تھا۔ “کھولو۔۔ مجھے اندر آنے دو” ۔۔
ساڑھے نو بجے دروازے کے باہر چاپ محسوس ہوئی تو میں نے آستین سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ دروازہ کھلا۔ ایک شخص اندر داخل ہوا۔ سامنے دھڑی کرسی پر بیٹھا۔ اس کے کاندھے پر تین بیج لگے تھے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ان کا آفیسر ہے۔ اس سے قبل جو آتے رہے ان کو ایک بیج لگا ہوا تھا۔ یہ جو آفیسر تھا اس کے چہرے پر کرختگی چھائی ہوئی تھی۔ بیٹھتے ہی انتہائی غصیلے انداز سے بولا۔
“تم چیچنیا کیوں جانا چاہتے ہو ؟ ”
میں نے وہی سب دہرایا جو صبح سے اب تک کہتا آیا تھا۔ کئی بار کہہ چکا تھا۔ ہر بار اک نیا شخص آ جاتا تھا اسے پھر سب کچھ بتانا پڑتا۔ اب میں نفسیاتی طور پر اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اندر غصہ ابل رہا تھا۔ جب سب بتا چکا بلکہ دہرا چکا تو میں نے آخر میں کہا
“دیکھو، مجھے روس نہیں جانا۔ برائے مہربانی مجھے یہاں سے پہلی دستیاب فلائٹ پر پاکستان بھیج دو۔ میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ میرے پاس ترکی اور ازبکستان کے ویزے ہیں اگر پاکستان کی فلائٹ نہیں ملتی تو مجھے استبول یا تاشقند بھیج دو۔ مجھے یہاں سے واپس جانا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں یہاں کیوں روکا گیا ہوں۔ صبح آٹھ سے رات کے دس ہو رہے ہیں اور آپ مجھے کچھ نہیں بتا رہے۔ میرا موبائل بھی آپ لے جا چکے ہیں۔ برائے مہربانی اگر یہ بھی ممکن نہیں تو میرا رابطہ میری ایمبیسی سے کروا دیں۔ میں ان کو بتا تو سکوں کہ میں یہاں قید کیا گیا ہوں۔ مجھے قونصلر تک رسائی چاہیئے۔ دونوں میں سے جو آپ کے لئے ممکن ہو وہ کر دیجیئے”۔
میری بات سن کر وہ اٹھا۔ ” موبائل تمہیں بھجوا رہا ہوں”۔
جیسے ہی وہ جانے کے لئے مڑا میں نے پھر کہا کہ مجھے یہاں سے واپس بھیج دیں تو آپ کا شکریہ۔ مجھے روس میں نہیں جانا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ باہر نکلا۔ پھر یکدم اسے کچھ یاد آیا۔ واپس پلٹا۔ میز پر دونوں ہاتھ ٹکائے کھڑا ہوا اور بولا ” اپنا ہینڈ کیری کھولو۔”۔ میں نے کیمرا بیگ اٹھایا۔ اسے کھولنے لگا تو بولا ” اسے میز پر رکھ کر کھولو”۔ کیمرا بیگ میز پر رکھا۔ کھولا۔ اس نے تادیر ایک ایک شے کو دیکھا۔دو کیمرے اور چار لینزز تھے۔ ان کی بیٹریز تھیں اور فوٹوگرافی سے متعلقہ سامان تھا۔جب تادیر معائنہ کر چکا تو پلٹا اور بنا کچھ کہے باہر نکل گیا۔
آدھ گھنٹے بعد اک نوجوان آیا۔ اس نے مجھے میرا موبائل واپس تھماتے ہوئے کہا کہ میں اس کے پیچھے چلوں۔ مجھے لگا جیسے اب مجھے رہائی نصیب ہو رہی ہے۔ میں نے بیگ اٹھایا اور اس کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ مجھے ایک لفٹ میں لے گیا۔ لفٹ ہوائی اڈے کی بیسمنٹ میں رکی۔ ایک لمبی راہداری سے گزر کر سامنے دیکھا تو چار مسلح گارڈز تھے۔ ان کے سامنے ایک دروازہ تھا۔ دروازہ کھلا۔ مجھے کہا گیا اندر چلو۔ میں اندر داخل ہوا۔ اندر کیا داخل ہوا اسی لمحے میرے حواس جاتے رہے۔ یہ ایک وسیع ہال تھا۔ اندر سیاہ فام لوگوں کی بہتات تھی۔ ہر سو سیاہ فام نوجوان لڑکے و لڑکیاں تھے۔ ایک شور مچا ہوا تھا۔ مردوں کی تعداد زیادہ تھی۔ چند سیاہ فام خواتین بھی تھیں۔ عقب میں دروازہ بند ہو چکا تھا۔ مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ یہ رہائی نہیں بلکہ قید ہے۔ آنکھوں کے سامنے جالے اترنے لگے۔ نظر دھندلائی جا رہی تھی۔ میں وہیں بت بنا کھڑا تھا۔ سیاہ فام لوگ اپنی دھن میں مست تھے۔ کچھ میری جانب گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔
نجانے کب تک میں ہوش و حواس سے بیگانہ وہاں بت بنے کھڑا رہا۔ میرے کانوں میں اک آواز آئی۔ لہجہ و زبان شناسا تھی ” او آ جاو آ جاو پائین ! لنگی آو۔۔۔ ایتھے آ جاو”۔ جس جانب سے آواز آئی تھی میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ ایک نکڑ میں آٹھ دس پاکستانی اکٹھے ہو کر بیٹھے مسکراتے میری جانب دیکھ رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر اور پنجابی سن کر ایسا لگا جیسے مجھے کوئی خوشی کی خبر ملی ہو۔ دل کو اطمینان سا محسوس ہوا۔ میں ان کی جانب چل دیا۔
کچھ لمحوں کو میرے اندر خوشی کی لہر دوڑی تھی۔ اپنے دیس کے باشندے ملے تھے۔ مگر پھر اک ظلم ہوا۔ میں تو ان کے سرہانے پہنچ کر سلام لینے میں مصروف تھا۔ انہی میں سے ایک نوجوان تھا جو ذرا فاصلے پر بیٹھا گنگنا رہا تھا۔ اس نوجوان سے میری قربت آنے والے دنوں میں بڑھنے والی تھی مگر تب وہ انتہائی سریلی آواز میں بلند لے پر گنگنا رہا تھا اور باقی سب اسے سننے میں دھت تھے۔
ہم تو ہیں پردیس میں ، دیس میں نکلا ہو گا چاند
اپنی رات کی چھت پہ کتنا تنہا ہو گا چاند ۔۔۔۔۔
میں وہیں ٹائلوں کے فرش پر ان کے ہمراہ چوکڑی مارے بیٹھ گیا۔ آنکھ پھر سے ڈبڈبانے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply