• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یورپ کی مسلم عورتیں داعش میں شمولیت کے لئے بے چین کیوں؟۔۔۔سلمٰی اعوان

یورپ کی مسلم عورتیں داعش میں شمولیت کے لئے بے چین کیوں؟۔۔۔سلمٰی اعوان

خبر نے توجہ کھینچی تھی۔عراقی عدالت نے فرانسیسی خاتون میلینا بوغیدر کو داعش کی رکنیت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ جیالی شامی خاتون ثمریز بک فوراً یاد آئی  کہ جس نے اس مو ضوع پر روشی ڈالی تھی۔ پر پہلے ذرا ثمریز بک سے تعارف کروادوں۔

2008ء کے اُن دنوں جب میں دمشق میں تھی۔ ایک گرم سی صبح عرب رائٹرز یونین کے مزہ Mezzehمیں واقع دفترشامی لکھاریوں سے ملنے لگی۔سچی بات ہے بڑی متاثر کن عمارت تھی۔ بڑے بڑے شاندارآراستہ پیراستہ کمرے۔پبلیشنگ سے متعلق مختلف شعبے، ہال، کیفے ٹیریا وغیرہ۔چلتے ہوئے خیال نہیں کیا کہ دن جمعے کا ہے۔ ہمارے لوگوں اور مسجدوں کی طرح دمشق میں بھی جمعے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ لوگ بارہ بجے ہی دفتر خالی کر جاتے ہیں۔’’جی جمعہ پڑھنا ہے۔“
ہاں البتہ رابطہ آفیسر قاسم دیبی سے ملنا ہوا۔

اُن سے تھوڑی دیر باتیں ہوئیں۔ میں نے سوال تو بہتیرے نوکیلے کیے مگر مجال تھی کہ کسی ایک کا جواب مجھے منفی شکل میں ملا۔ صحافیوں اور ادیبوں کے لئے حکومت کی عنایات ونوازشات کی لمبی چوڑی فہرست گنوا دی۔ گھر کے لئے قرضے اور طبّی سہولتوں کا ذکر بڑی شد ومدّ سے کیا۔ سیریا کی ادبی روایات اس کے خوبصورت امیرانہ ثقافتی ورثے کی طرح بہت حسین ہیں۔ اس نے بہت سی مشکلات اور سختیوں کو سہا ہے۔ وضاحت ہوئی تھی۔۔۔۔۔اُن کے اضطراری سے انداز، کلائی کی گھڑی کو دو تین بار اچٹتی سی نگاہ سے دیکھنے کی فضول سی کوشش نے مجھے تنبیہ کی۔ ”پاگل ہو اُٹھو۔ وہ تم سے جان خلاصی چاہتا ہے اور تم چمٹی جاتی ہو۔“

بہرحال جو مسئلہ تھا وہ بھی جلد ہی سمجھ آگیا تھا کہ ہم اکٹھے ہی باہر نکلے تھے۔ مرکزی دروازے سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لیتے ہی وہ آہستگی سے بولے تھے۔
”کمروں میں کیمرے نصب ہیں۔ گفتگو ریکارڈ ہوتی ہے۔“
ثمریز بک سے ملیے۔۔ بہت ہی منفرد صلاحیتوں کی حامل خاتون ہے۔رائٹر اور جرنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فلم سکرپٹ،ٹی وی ڈرامہ رائٹر، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور وویمن رائٹس کی علم بردار ہے۔ دبنگ عورت آپ کے سوالوں کے جواب زیادہ عمدگی سے دے گی۔یہیں مزہ میں ہی فی الحال اپنی ایک عزیز ہ کے پاس چند دنوں کے لئے رہ رہی ہے۔“

میری بیٹی کی عمر کی ہوگی وہ جس نے دروازہ کھولا تھا۔ خوبصورت، دل کش خدوخال اور سنہری بالوں والی۔ ایک اجنبی چہرے کو دیکھ کر چند لمحوں کی حیرت اُس کے چہرے پر بھی بکھرگئی تھی۔ میں نے دیر نہیں لگائی۔ فوراً ہی تعارف کروا دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ جب اُ س نے پاکستان کا نام سنتے ہی مجھے گرم جوشی سے پذیرائی دی اور اندرآنے کا راستہ دکھایا۔ یہ بے حد خوبصورت اور آراستہ پیراستہ فلیٹ تھا۔ لیونگ روم میں آکر بیٹھنے تک کے وقفے میں میری نظر بازی نے مکینوں کی خوش حالی وخوش ذوقی کی کہانی سنا دی تھی۔ ثمر کی آنکھیں ہیرے جیسی چمک لئے جگمگاتی سی تھیں۔
مگر بڑا سیاپا پڑا۔۔ثمر انگریزی میں نری پیدل تھی۔ اس کے ہاں بس کہیں کہیں ایک آدھ جملے کی ہی گنجائش تھی۔
خدا مسبب الاسبا ب ہے۔ مشکل کا حل ثمریز بک کی رشتہ دار نے حل کردیا جو اس کی ماں کی عزیز۔اسامہ بن لادن کی پہلی بیوی کی بھی رشتے دار تھی۔ ڈھیر وں ڈھیرباتیں تو بعد میں ہوئیں۔ثمر اور میرے درمیان ترجمانی کے فرائض بھی اس نے ادا کیے۔

ثمر کا فیملی پس منظر علوی فرقے سے ہے۔ وہ جبلہ Jableh شام کے ایک ساحلی علاقے جو لاطاکیہ کے قریب ہی واقع ہے۔1970ء میں انتہائی دولت مند اور صاحب ثروت Alawiگھرانے میں پیدا ہوئی۔ پانچ بھائیوں اور تین بہنو ں میں سب سے منفرد انقلابی سوچ وذہن رکھنے والی باغی سی بچی تھی۔

اپنے بھائیوں کے مقابلے میں اُس کا طرز زندگی کیوں مختلف ہے؟روک  ٹوک کا سلسلہ لڑکیوں کے ساتھ زیادہ کس لئے ہے؟ ترجیح لڑکوں کو کیوں دی جاتی ہے؟

اور وہ سولہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گئی تھی۔
میں آزادی چاہتی تھی۔ اس ماحول میں میرا دم گھٹتا تھا۔ ہمارے روایتی معاشرے میں یہ بڑی قبیح حرکت تھی۔ ایک لڑکی کے لئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ میرے ساتھ کوئی مرد ہے۔ جو کہ بالکل غلط تھا۔ مجھے تنہا اپنا مستقبل خود بنانے میں دلچسپی تھی۔ میں رائٹر بننے کی خواہش مند تھی۔لکھنا چاہتی تھی۔ معاشرے کے دو غلے پن اور منافقتوں پر کھل کر بات کرنے کی متمنی تھی۔
”مجھے اعتراف ہے کہ اپنی فیملی کے لئے میں اذیت اور شرمندگی کا باعث رہی۔ اکثر مجھے ندامت بھی محسوس ہوتی تھی۔“
انیس سال کی عمر میں وہ ایک بار پھر بھاگی۔ کچھ عرصہ اکیلا رہنے کی بعد اُس نے شادی کر لی اور پیرس چلی گئی جہاں بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ شادی صرف چار سال رہی۔دو سالہ بیٹی کے ساتھ وہ پھر دمشق میں آگئی۔ بہت سے کام شروع کئے۔ ڈرامے، فلم سکرپٹ، ڈاکومنٹری بنانے کاسلسلہ۔ وویمن آف سیریا جیسے پرچے کی ادارت۔ انتون مقدسیAnton Maqdesi شام کے عظیم مفکر، سیاست دان اور انسانی حقوق کا علمبردار جیسی شخصیت پر ڈاکو منٹری بنائی۔ ہیومن رائٹس اور وویمن رائٹس کے لئے کام شروع کر دیا۔

یہ اُس کے لئے کس قدر مشکل وقت تھا۔ ناولوں کی اشاعت سے قبل بہت سے دیگر شعبوں میں کام کرنے سے گو اُس نے اپنے معیار زندگی کو غربت سے تھوڑا سا اوپر ضرور رکھا تاہم اپنے خاندان اپنے بیشترعزیزو ں سے کسی قسم کا کوئی میل جول نہیں رکھا۔ شہر سے باہر مضافاتی علاقے میں ایک کمرے کے گھر میں رہتی رہی۔
اُس کے ناول طفلت السماء Tiflatas Sama (آسمانی لڑکی) اور سلسلsalsal نے بڑی دھوم مچائی۔ اِن ناولوں نے شامی معاشرے میں موجود منافقتوں، دوغلا پن اور دیگر بہت سی قباحتوں کو عریاں کیا۔

دمشق میں گزرے میرے خوبصورت دنوں میں ایک مزید حسین دن کا اضافہ ہوا۔ دل میں سدا بسیرا کرنے والی یادوں میں ایک مزید یاد شامل ہوئی۔ اُن کے گھر اُس دن ملقوبہ پکاتھا۔ چاندنی کی سینی میں اُس کی خوش رنگی بہت بھائی۔ ذائقہ بھی کمال کا تھا۔ زیتون کے کالے اور سبز پھل میں جھانکتے کھیرے کے قتلوں اور قہوے نے لطف بڑھایا۔
اُس کے بارے میں مزید کچھ جاننے کی تحریک ڈاکٹر ہدا کی اُس میل سے ہوئی تھی۔ جب جنگ کے دنوں میں وہ مجھ سے رابطے میں تھی۔ دو لائنوں کی خبر نے بھولی بسری یاد کو تازہ کر دیاتھا۔

کچھ احمد فاضل، کچھ ڈاکٹر ہدا اور کچھ اس کی کزن سے میں نے اُس کے بارے مزید جانا۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ تلخ ہوتی گئی۔ انقلاب اور جمہوریت کی باتیں کرنے لگی۔ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگی تھی۔ 2011ء میں جب مزاحمت شروع ہوئی۔اُس نے بلندآہنگ زبان میں صرف ایک نعرہ لگایا تھا۔
یہ انقلاب ہوگا۔ غریب کا امیر کے خلاف، کمزور کا طاقتور کے خلاف اور جمہوری روایات کا آمریت کے خلاف۔

2012ء میں اُس کی بڑی منفردقسم کی کتاب A Woman in the Cross Fire مارکیٹ میں آئی۔ یہ ناول نہیں ڈائری ہے۔ کسی ڈراؤنے خواب کی مانند یہ کتاب اس جدوجہد کی کہانی کو پرت در پرت کھولتی ہے۔ جب وہ اسد حکومت کے خلاف مظاہرین کے ساتھ سینہ تان کر کھڑی تھی۔پن pen انٹرنیشنل  سوسائٹی ایوارڈ کمیٹی نے اسے ایوارڈ سے نوازا۔احتجاجی مظاہروں میں وہ مارکھاتی، بے عزتی کرواتی۔ متاثرین کے زخموں پر پھاہے رکھتی۔ ہسپتالوں میں بھاگتی، اخبارت کو مضمون بھیجتی۔ بیٹی کے ساتھ جگہیں اور گھر تبدیل کرتی تھی۔

اس کے شب روز مظاہرین کے انٹرویو لینے،ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے، گلی محلوں میں متاثرین کو چیزیں فراہم کرنے اور یہ سوچنے کہ وہ اپنے ملک اور اس کے لوگوں کے لئے مزید کیا کر سکتی ہے؟جیسی سوچوں اور کاموں میں گزررہے تھے۔
یہی وہ دن تھے جب اُسے دھمکیاں بھی ملتیں۔

چاقو ہمیشہ ایک سہارے کے طور پر اس کے ساتھ ہوتا۔ ایسے ہی دنوں میں سکیورٹی فورسز کے چند لوگ اس کے گھر آئے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اُسے ایک ایسی جگہ لے گئے جسے وہ بالکل نہیں جانتی تھی۔ اُس کی کلائی کو جلا یا گیا۔ زدوکوب کیا گیا۔ ذرا سا ہوش سنبھالنے پر اس نے اپنا چاقو نکالا اور تشدد کرنے والے پر پل پڑی۔ مرد نے دھکا دے کر اُسے زمین پر گرایا۔ کچھ دیر بعد اُسے اٹھایا گیا اور دو آدمی اُسے ایک اور سیل میں لے گئے جہاں اس نے تین نوجوان مردوں کو دیکھا۔ اُن کے ہاتھوں پر دھاتی شکنجے چڑھے ہوئے تھے۔ اُن کی انگلیوں کے ننگے سرے زمین کو چھوتے تھے۔ انہوں نے اُسے ایک جگہ کھڑا کیا۔ ایک نے اُس کا سر اوپر کیا۔ ایک ماسک سا جس میں سے صرف اس کی ناک باہر تھی پہنایا۔اس کے بعد وہا ں کیا تھا؟ چیخیں۔ کراہیں، دردناک منظر، خوفناک سانس کو روکنے والے لمحے۔ ہمت تو اس نے ان سب کے باوجود نہیں ہاری تھی۔

ثمر لکھتی ہے فرانس بھاگنے اور وہاں پناہ لینے کا فیصلہ میرے لئے بہت کٹھن تھا۔ شام کو چھوڑتے ہوئے مجھے افسوس نہیں گہرا دکھ تھا۔ کرب تھا جو میرے اندر سے آہوں اور آنسوؤں کی صورت نکلتا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں اپنے ملک سے بے وفائی کی مرتکب ہو رہی ہوں۔
مجھے لگتا تھا جیسے میرادم گھٹ جائے گا جیسے میں شام سے دور جا کر زندہ نہ رہوں گی۔

”ایسے اور اِن حالات میں تو میں نے کبھی آنے کی خواہش نہیں کی تھی۔“
بہت دنوں دکھ کے الاؤ میں جلنے کے بعد میں نے خود کو سنبھالا۔ حوصلہ دیا۔ خود کو اُمید کی ایک نئی راہ دلائی۔
ہمیں ابھی انتظار کرنا ہے۔ اپوزیشن بھی اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ اس میں غلط لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے مفادات کا ٹکراؤ ہونے لگا ہے۔اِس وقت صورت بہت گھمبیر ہے۔ عورتوں کی حقیقی آزادی اسی وقت ممکن ہوگی ایک تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر بالغ معاشرے کی تکمیل تبھی ممکن ہو سکے گی۔2015ء میں وہ پھر اپنے مادر وطن گئی۔ خیر خواہوں نے کہا مت جاؤ۔
”نہیں میں بہت مضطرب ہوں۔بہت بے چین ہوں۔ وہ ترکی کے بارڈر سے باڑ کے ایک چھوٹے سے موگھے سے رینگ کر اس سر زمین پر داخل ہوئی جو اُس کی اپنی تھی۔ جس کے لوگ اس کے اپنے تھے۔

یہاں فری سیرئین آرمی اور ISIS کی کہانیاں تھیں۔ سپاہیوں، بچوں، عورتو ں اور مردوں کے دکھوں کی کہانیاں اور درد بھری داستانیں تھیں۔ لاشیں اٹھاتے گھروں کو برباد ہوتے، بچوں کو مرتے دیکھنا کتنا کٹھن تھا۔My Journey to the Shattered Heart of Syria اس کی روزمرہ یادداشتوں پر مبنی دستاویزی کتاب ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شہ پار ہ ہے۔ تقریباً ایک سال کے عرصے میں اس نے تین بار ترکی کے راستے سرحد پار کی۔دو بار اندر داخلے کی کوشش بہت اذیت ناک تھی۔ خاردار تاروں نے کمر کو لہولہان کر دیا تھا۔ اِن ملاقاتوں نے اُسے جہادیوں کے اصلی چہرے دکھائے۔ غیر ملکی شازشوں کی گہرائی سے آگاہ ہوئی۔
بہت سے سنجیدہ اور سمجھدار شامیوں کی طرح وہ بھی اِس صورت سے دل گرفتہ اور پریشان تھی کہ اسد حکومت کے جانے اور جہادیوں کے آجانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ یہ صرف ایک آمریت سے دوسری بدترین تنگ نظر اور متعصب آمریت کے دوزخ میں گرنے والی بات ہوگی۔

احرار الشام اور القاعد ہ کے مقامی لیڈران سے اُس کا ملنا، ان کے خیالات ونظریا ت سے آگاہی بہت سے حوالوں سے اس جیسی روشن خیال خاتون کے لئے بہت مایوس کن تھی۔وہ عورتوں اور اُن کی آزادی کے حوالے سے بے حد متعصب تھے۔ شام کے خوبصورت چہرے کے پیچھے اس کے سٹرانڈ مارتے اندر نے ویسے ہی غلاظتوں سے بھرے رہنا تھا۔ بس تھوڑاسی  نوعیت تبدیل ہو جاتی۔ اُسے تو یہ بھی احساس ہوا کہ یہ جنگ تو غیر ملکیوں کی ہے۔ تشدد پسند لوگوں کی جن کی مدد بھی نہیں کی جاسکتی۔ عام سادہ لوح شامی تو بس اسی نظرئیے پر ایمان رکھے ہوئے ہیں کہ یہ سب اس لئے ہوا کہ اللہ کی رضا تھی اور اللہ ہی بہتر کرے گا۔

2012ء تک اُسے احساس تھا اور شاید جب بھی اس کی بات چیت باغیوں کے زیر تسلط علاقوں کے اسلامی امیروں سے ہوئی۔ اس نے یہی جانا کہ وہ سول سیکولر ریاست کے قیام کو پسند کریں گے۔ یہ احساس تو اُسے بعد میں ہوا کہ سب تو ان کی چالیں تھیں۔ ہتھیارکی اور جنگی سامان لینے کی کہ وہ تواپنے زیر تسلط علاقوں میں نہ رشوت ختم کر سکے اور نہ جرائم۔ دوسرے اور تیسرے چکروں میں یہ تلخ حقائق اور کھل کر سامنے آئے۔احرار ال شام کے امیر ابو احمد نے کس قدر رعونت سے کہا تھا۔
”نقاب کے بغیر کوئی عورت باہرنہیں آسکتی۔ علو ی تو شام میں رہ ہی نہیں سکتے۔ دو روز اور اسماعیلی بھی۔ ہاں اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو ٹھیک۔“کچھ ایسا ہی رویہ القاعدہ کے لیڈ ر کا تھا۔جس نے اُسے ملنے کے بعد کہا تھا۔
”تمہاری بہادری کہ تم ہم سے ملنے آئیں۔“
”آپ اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟کیا بہادر نہیں؟“
وہ ہنسا اور بولا۔
”میں مرد ہوں اور یہ قدرتی امر ہے۔“
”اور میں عورت ہوں یہ بھی قدرتی امر ہے۔“
اُس کی ہنسی یکدم رک گئی تھی۔

مسلسل بیرل بموں سے متاثرین کے دکھوں کی تفصیلات جہاں ہر آن وہ موت کی سولی پر لٹکے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے دھرتی موت کا ہی راگ الاپتی ہے۔ اسی کی عظمتوں کے گن گاتی ہے اور اسی کو اپنا فاتح قراردیتے ہوئے اس کے قدموں میں بچھی جاتی ہے۔
پہاڑی علاقوں کے غاروں میں پناہ لینے والے ہزاروں سالوں کے اِس تہذیبی ملک کے شہری ایک بار پھر پتھروں کے زمانے میں پہنچ گئے لگتے ہیں۔
اُس نے اپنی گیلی آنکھوں کو پوروں سے صاف کرتے ہوئے خود سے کہا تھا۔
وہ حکومتی نظروں میں ہی معتوب نہ تھی۔ بلکہ جہادی اور باغی قبائل کو بھی مطلوب ہو گئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اس نے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا؟ اس نے قدرے حیرت اور دکھ سے کہا۔
”مصیبت میں ڈالنا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ کیا یہ میرا ملک نہیں؟یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے جنم لیاا ور پلی  بڑھی ۔ میرے لوگ جو زبان بولتے اور سمجھتے ہیں وہی میری زبان ہے۔ مجھے کیا چیز خوف زدہ کر سکتی ہے۔“

اس کے بار بار کے چکروں نے اُسے سمجھایا تھا کہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔
یہ جگہ جو کبھی بہت پرلطف روایات اور محبتوں سے بھری ہوئی بڑی ہی پرامن سی تھی ویسی نہیں رہی۔ اب یہاں خوف زدہ، ڈرے سہمے ہوئے لوگ ہیں۔
یہ مذہبی خانے موجود تو پہلے بھی تھے پر اتنے گہرے کبھی نہ تھے۔ ہم جب چھوٹے چھوٹے تھے تو یہ سنی، یہ شیعہ، یہ علوی۔ یہ دروز کہیں نہیں تھا۔ ہم سب شامی تھے۔
ISIS اور داعش کے بارے میں وہ برملہ کہتی ہے کہ یہ غیر ملکیوں کی فوج ہے۔ پھر ذرا واشگاف الفاظ میں کہتی ہے
کہ راہزنوں اور لٹیروں کے ٹولے ہیں۔
اُسے تو مغرب کی اُن نوجوان مسلمان لڑکیوں پر بھی شدید غصہ ہے۔ جو مغرب سےISIS اور داعش میں شمولیت کے لئے سفر کر کے آتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ نوجوان لڑکیاں جو مغربی معاشرے میں پیدا ہوئیں وہیں  پلی بڑھی ۔ انہیں شام کے بارے کچھ علم ہی نہیں۔ عرب جنگجو ہیرو کی مردانہ وجاہت اور شجاعت اُن کی فینٹسی ہے۔ گھوڑے پر سوار بندوق کے ساتھ جن کی کہانیاں انہو ں نے پڑھی اور سنی ہوں گی۔ مغر ب کی پر سکون زندگی جس سے انہیں بوریت ہوتی ہے۔ تھرل اور کچھ نیا کرنے کی آرزو دھکیل کر یہا ں لے آتی ہے۔
مجھے خوف ہے کہ اگر دنیا شام کے لوگوں کے مسائل نہیں سمجھے گی اور حکومت گرانے میں حقیقی لوگوں کی مدد نہیں کرے گی تو ایک اور بڑا خطرہ جنم لے گا۔ یہ میری اُمید بھی ہے اس میں وہ خطرات بھی مضمر ہیں کہ اسد حکومت ایران، روس سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ امریکیوں اور یورپی لوگوں کی حمایت کے لئے کوشاں ہے۔ مغرب ابھی اس معاملے میں اتنا واضح نہیں۔ بٹا ہوا ہے۔ تاہم وہ اس کے اقتدارکے لئے اس کی مدد کر رہے ہیں اور یہی چیز خطرناک ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply