جمہوریت یا خاندانی جمہوریت۔۔طاہر یٰسین طاہر

جدید تاریخ میں انسان کی اجتماعی دانش نے معاشرتی حیات کو کسی ضابطے کے تحت لا کر چلانے کے لئے جس نظام پہ اعتماد کیا، اسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ اس میں حق ِ حکمرانی عوام کا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ یا فقط یہ فریب کار جملہ عوام کے سیاسی فہم کو ورغلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے؟ ہاں ایسا ہی ہے۔ جمہوریت میں حق ِ حکمرانی عوام کو ہے۔ تھوڑے بہت تحفطات کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں یہ طرز ِ حکمرانی کامیاب ہے۔ عوام اپنے منتخب نمائندے پارلیمان میں بھیجتے ہیں اور یہ منتخب نمائندے عوام کے انتخاب یعنی ووٹ کے تقدس کا خیال کرتے ہیں۔ یہ بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک اور ان ممالک میں کہ جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، وہاں جمہوریت اپنی شکل میں بادشاہت بادشاہت کیوں لگتی ہے؟ ہم اپنی سماجی حیات کے سیاسی سفر میں زندہ باد، مردہ باد کے نعروں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ افسوس ناک حقیقت ہے۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس سیاسی پارٹی کو چاہے اس کے نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ دے۔ یہ حق مگر چھین لیا گیا ہے۔ برادری ازم، وڈیرہ شاہی، صوبائیت، لسانیت، مسلکی اندازِ فکر اور دیگر کئی گروہی مفادات نے اجتماعی سیاسی شعور کو بری طرح کچلا ہے۔ عام ووٹر کی بات تو ایک طرف، صوبائی و قومی اسمبلیوں کے منتخب ممبران تک اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے سربراہاں سے اختلاف رائے کی جرات نہیں کرتے۔ اکا دکا البتہ ہیں، جنھیں کونے لگا دیا جاتا ہے۔

تاریخ سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ پاکستانی سیاسی تاریخ تلخ ہے۔ الزام تراشیوں اور ایک دوسرے کو غدار وطن تک کہہ دینے کی تاریخ میں کوئی بڑا اور سرکردہ سیاسی رہنما کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ وہ سارے سیاسی شعبدہ باز جن کا سارے کا سارا سیاسی فہم اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کے کام آئے، وہ قومی رہنما کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہاں مگر مختلف سیاسی پارٹیوں کے تاحیات و “مابعد الحیات” قائد ضرور ہوسکتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف جس تصادم کو بیانیہ کہتے ہیں، اس کی گرد جلد بیٹھ جائے گی۔ پیپلز پارٹی کا تو سارے کا سارا بیانیہ زرداری ہائوس کے کسی کونے میں سابق صدر کی اجازت کا آرزو مند ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں سوائے”اسلامی نظام” کے نعرے کے اپنے دامن میں کچھ نہیں رکھتیں۔ اسلامی نظام کا یہ نعرہ سنجیدہ بحث کا متقاضی ہے۔ ہر مذہبی سیاسی جماعت اپنے سیاسی و مسلکی فہم میں اسلامی نظام کا مختلف منظر نامہ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کرپشن کے خلاف جاندار آواز بلند کی اور پانامہ کی گرد کو بیٹھنے نہ دیا۔ مگر طے شدہ باتوں پہ تکرار فکری بانجھ کی علامت ہے۔ کرپشن ہو رہی ہے۔ جس کو جتنا موقع ملتا ہے، وہ اپنے حصے کا کام کر گزرتا ہے۔ نہال ہاشمی نے جیل سے رہا ہوتے ہی کہا کہ کرپشن کی آدھی سے زیادہ دولت نیب کے سرکردہ لوگوں کے گھروں میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی جو بچتی ہے، وہ کس کس کے گھر پہنچی؟ عمران خان طے شدہ باتوں پہ تکرار کرتے کرتے اس قدر تھک گئے کہ “گوشہ نشینی” کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو بنی گالہ آکر سیاسی بیعت لے لے، وہ معصوم اور جو نہ آئے وہ مخالف پارٹیوں کا کرپٹ سیاستدان۔ کیا کوئی آمر آکر ملک کو ٹھیک کرسکتا ہے؟ قطعی نہیں۔ اس سے پہلے آمروں نے کون سا معرکہ انجام دیا؟ ملک کو انہی سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے۔

انہی سے مراد اسی سیاسی جدوجہد نے۔ انہی سیاستدانوں نے تو بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ووٹ کا تقدس یہ نہیں کہ منتخب نمائندوں، وزیروں اور پھر ان کے مشیروں کے اثاثے بڑھتے چلے جائیں اور ووٹر دو وقت کی روٹی کو بھی ترستا رہے۔ ووٹ کی اصل توہین یہی ہے۔ جمہوریت کا حسن یہ نہیں کہ چند خاندانوں کی زندگی سہل ہو جائے بلکہ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ عوامی حیات آسان ہو۔ قانون کی بالادستی ہو۔ میرٹ، تعلیم اور صحت سب کے لئے یکساں ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا۔ جو جس قدر طاقتور ہے، وہ اسی قدر منہ زور ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں چھانگا مانگا کا “سیاسی بیانیہ” ابھی کل کی بات ہے۔ پنجاب میں میاں منظور وٹو کس طرح وزیراعلٰی بنے تھے؟ اخبار نویس جانتے ہیں۔ سینیٹ کے تازہ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ وہ اس لئے کہ معاشرے کی سیاسی و سماجی تربیت ہی ایسی ہوئی ہے۔ کیا کوئی ریاست صرف چند خاندانوں کی طاقت کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ یا ریاستی حیات اور بقا کے لئے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے؟ بارہا لکھا اور مکرر لکھنے میں عار ہی کیا ہے؟ خود کو ناگزیر سمجھنے والے تاریخ سے نابلد ہیں، کم فہم اور متکبر ہیں، اسی لئے غور و فکر نہیں کرتے۔

اس کالم نگار کو ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان لفظی جنگ کا بڑا قلق ہے۔ سیاست نام ہی معاملہ فہمی اور تدبر کا ہے۔ کیا میاں نواز شریف تدبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ کیا آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا کہہ کر تدبر کا مظاہرہ کیا تھا، یا تصادم اور دھمکی کی راہ اپنائی تھی۔؟ کیا عمران خان نے امپائر کی انگلی اٹھنے کا کہہ کر، اپنے دھرنے کی کامیابی کے لئے غیر جمہوری قوتوں کی پشت بانی کا اشارہ نہیں دیا تھا؟ ایک طوفان ہے اور اس کی گرد میں سب اپنا اپنا آسمان دیکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جمہوریت وہی ہے، جو پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لے آئے۔ عدل وہی ہے، جو میاں نواز شریف کو راس آئے۔ بے داغ انتخابات وہی ہیں، جو عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلا دیں۔ اسلامی طریقہ انتخاب وہی ہے، جو مذہبی جماعتوں کو چند سیٹیں دلا دے۔ نہیں، ایسا نہیں۔ بے شک انتخابی سیاست میں کئی خرابیاں ہیں، بے شک امیدواروں کے چنائو میں پارٹیوں کے سربراہان ذاتی پسند و نا پسند کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ بے شک ملک میں جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتوں کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ یہ مگر اکیسویں صدی ہے۔ ہمیں جمہوریت راس ہے، مگر بخدا ایسی نہیں جیسی ہم پہ مسلط کر دی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جمہوریت کے تاجدار اگر واقعی جمہوریت چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنی اپنی پارٹیوں کے اندر جمہوریت لانا ہوگی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ پارٹی صدارت کے لئے چھوٹا بھائی بڑے بھائی کا نام پیش کرتا ہے اور بڑا بھائی چھوٹے بھائی کا نام۔ پھر پارلیمانی بورڈ سر جھکائے تالیاں بجاتا ہے اور دو میں سے ایک بھائی کا انتخاب ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کی ایک جھلک یوں بھی دیکھی گئی کہ زرداری کی جیب سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی “وصیت” نکلی اور باپ بیٹا پارٹی کے “جمہوری مالک” بن گئے۔ جمہوریت کی ایک شکل بنی گالہ میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ جو وہاں جا کر بیعت کر لے وہ پاک باز سیاستدان اور جو وہاں نہ جا سکے، وہ کرپٹ۔ ذاتی مفادات کو جمہوریت کے ساتھ نتھی کرکے دیکھنا بد دیانتی ہے۔ جو جمہوریت چار سال میں ملک کو وزیر خارجہ نہ دے سکی، اس جمہوریت کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ پاکستان گرے لسٹ اور بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کی دھمکیوں کے سائے تلے رہے۔ ملک کو کیسی جمہوریت چاہیے؟ اس پہ سنجیدہ بحث ہونی چاہیے۔ یہ کالم نگار عام پارٹی ورکر کے سیاسی استحصال پہ مسلسل لکھتا رہے گا، چند خاندانوں کے بڑے سیاسی عہدوں کی بقا کی جدوجہد جمہوریت نہیں ذاتی مفاد ہے۔ جمہوریت مذاق نہیں کہ عہدے اور ثمرات پارٹیوں کے رہنما اپنے چہیتوں میں بانٹتے پھریں۔ جمہوریت کے ثمرات عوام کا حق ہے اور یہ حق ان تک پہنچانا ہی اصل میں ووٹ کا تقدس ہے۔ ووٹ کا تقدس اس وقت بحال ہوگا، جب عام آدمی کی سماجی حیات سہل ہوگی۔ اصل جمہوریت ہی عام آدمی کو راس ہے، خاندانی جمہوریتیں تو پاکستانی سماج کو لے ڈوبی ہیں۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply