دس کروڑ یہ گدھے۔۔۔آصف محمود

کبھی آپ نے غور فرمایا کہ ہمارے مسائل کیا ہیں اور ہم بحث کن چیزوں پر کر رہے ہیں؟کیا اب کسی آئن سٹائن کا انتظار ہے جو آ کر بتائے کہ ہمارا انجام کیا ہو گا؟ کل شام سرگودھا پہنچا۔ ہر چیز بدل چکی۔ گاڑی چلتی رہی اور دل ڈھلتے سورج کی طرح ڈوبتا رہا۔زر خیز زمینیں برباد ہو رہی ہیں۔جہاں لہلہاتے کھیت اور قطار اندر قطار کینو کے با غات ہوا کرتے تھے وہاں یاروں نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا ڈالیں۔ جب جب یہاں آتا ہوں کچھ نئے باغات کو اجڑا دیکھتا ہوں اور کچھ مزید کھیت برباد ہو چکے ہوتے ہیں۔سونا اگلتی زرخیز زرعی زمینیں زمینداروں نے اپنی ہوس اور لالچ کے ہاتھوں برباد کر دیں۔جہاں برگد اور شیشم کے درخت ہوا کرتے تھے، جہاں کینو کے باغ ہوتے تھے، جہاں دھریکیں ہوتی تھیں، جن کی ٹھنڈی چھاؤں میں کتنی ہی گرم دوپہریں گزاری تھیں وہ سب ختم ہو گیا۔ جہاں ہم شکار کیا کرتے تھے وہ کھیت اجڑ گئے۔پانی کے جس ذخیرے میں سائبیریا کے آبی پرندے اترتے تھے خشک ہو گئے اور وہاں رہائشی کالونیاں بن گئیں۔

جہاں تازہ سبزیاں اگا کرتی تھیں ، جہاں بیری کے درخت تلے ہم بیر چنا کرتے تھے، جہاں شہتوت کی ٹھنڈی چھاؤں ہوا کرتی تھی، جہاں کھالوں میں تازہ پانی بہتا تھا، جہاں جھنڈ میں جنگلی کبوتروں کا ڈیرہ ہوتا تھا، جہاں ہم جامن چنا کرتے تھے، جہاں جامن کے نیچے ایک نلکا ہوتا تھا ، سب فنا ہو گیا۔ سب برباد ہو گیا۔سب اجڑ گیا۔گاؤں کسی حد تک محفوظ ہے اور وہاں وہ درخت بھی جن کے تنے ہم چھیل دیا کرتے تھے کہ یہاں اب چیڑ اترے گی اور بہار موسموں میں کھائیں گے مگر شہر کے آس پاس بکھری ساری یادوں پر کنکریٹ ڈال دیا گیا ہے۔بیری کا ایک جھنڈ ہوتا تھا جہاں گول بیر بھی ملتے تھے اور ڈوکل بیر بھی۔کبھی کبھار شہد کی سوغات بھی ہاتھ آجاتی تھی۔سب ختم ہو گیا۔

چودھری منظور نے تو حد کر دی۔ بیس ایکڑ کینو کا باغ کاٹ پھینکا اور اب وہاں ایک ہاؤسنگ کالونی بن رہی ہے۔اندرون شہر برگد کا ایک خوبصورت درخت ہوا کرتاتھا۔اس کی چھاؤں میں کبھی دھوپ نہیں اترتی تھی۔صبح دم اس کے دامن میں کوئل بولتی تھی۔ماں کی طرح مہربان درخت کٹ چکا ، اب وہاں ایک عدد شادی ہال بن چکا۔سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور اوقات سے بھی واقف ہیں۔لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے پر جھوٹا رعب جھاڑنے کے لیے بھاری قرض لے کر شادی پر اللے تللے کرنے سے باز نہیں آتے۔خدا جانے سادگی سے شادی کرنے میں کیا رکاوٹ ہے اور شادی کے لیے شادی ہال کیوں ضروری بنا دیے گئے ہیں۔معلوم نہیں ہمارا احساس کمتری کب ختم ہو گا اور یہ جہالت کب ہماری جان چھوڑے گی۔

بھلوال سے سرگودھا تک تباہی ہی تباہی ہے۔سرگودھا شہر کے اندر بھی کھیت اور باغات تھے وہ بھی تباہ ہو چکے۔لاہور روڈ پر نکلیں تو باغوں کی جگہ کنکریٹ اگ آیا ہے۔یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا اور کھیت کھلیان یونہی اجڑتے رہے تو ہم کھائیں گے کیا؟کیا ہمیں احساس ہے ہم خوراک کے کس بدترین بحران سے دوچار ہونے سے دوچار ہونے جا رہے ہیں۔پہلے ہی بہت تباہی ہو چکی مگر ہمیں پرواہ نہیں۔پانی کی قلت ہے۔کوئٹہ میں فارم گروورز ایسوسی ایشن کا سیکرٹری جنرل ایکڑوں پر پھیلے اپنے سیب کے باغ کو یہ کہہ کر کاٹ پھینک دیتا ہے کہ پانی نہیں تو اس باغ کا کیا کروں لیکن یہ خوں رلا نے والی خبر ہمارے ہاں ’ بریکنگ نیوز‘ تک نہیں بن سکتی۔

ہم مارکیٹ جاتے ہیں اور فخر سے ایران اور نیوزی لینڈ کا سیب خریدتے ہیں اور چوڑے ہو کر واپس آجاتے ہیں امپورٹڈ پھل لے آئے۔اپنا سیب یتیموں کی طرح ایک کونے میں رکھا ہوتا ہے اور دکان دار فخر سے بتاتا ہے یہ لیجیے صاحب یہ نیوزی لینڈ کا سیب ہے۔کیلا اب بھارت سے آتا ہے اور کیا کوئی شک ہے کہ ہمارے کیلے سے پھیکا ہوتا ہے۔آلو ہم بھارت سے منگواتے رہے۔ خربوزہ اب چین سے آ رہا ہے۔اصلی آلو بخارہ اب نہیں ملتا۔ فٹ بال کے سائز کا کالا سیاہ مصنوعی قسم کا آلو بخارہ جانے کہاں سے آ گیا ہے۔سبزیاں دیکھ لیں جانے کیسے اگ رہی ہیں اور کہاں اگ رہی ہے ان میں وہ بات ہی نہیں رہی۔ دیسی تھوم تک نہیں دستیاب نہیں ہے۔خالص گندم کا آٹا نایاب ہو چکا۔ دالیں کیمیکل سے دھو کر رکھی گئی ہیں ، دیسی مرغ قصہ ماضی ہوا اب برائلر دستیاب ہے۔لوگوں نے باغات کاٹ پھینکے اور برائلر کے کنٹرولڈ شیڈ بنا لیے۔یہ سب کھائیے اور جلدی سے بیمار ہوجائیے کہ فارما سوٹیکل کی صنعت کی ترقی آپ کی بیماری سے مشروط ہے۔

بزم دوستاں میں اگلے روز جناب ہارون رشید نے کمپنی باغ کا ذکر کیا۔ ماضی کی یاد کسی روز ہارون رشید صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کمپنی باغ لے گئی تو انہیں کتنا صدمہ ہو گا۔انتظامیہ نے درخت یوں کاٹ کاٹ پھینکے کہ خدا کی پناہ۔چار چار فٹ جن کا تنا تھا وہ درخت بد بختوں نے کتنی حقارت سے کاٹ دیے۔پاس سے گزرتا ہوں اور ان پر آری چلتے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے یہ درخت پر نہیں میرے دل پر چل رہی ہیں۔ خالص خوراک ہے نہ خالص ادویات۔حال یہ ہے کہ جو گائنا کالوجسٹ پیٹ نہ پھاڑ دے اسے نجی ہسپتال نکال دیتے ہیں کہ ہم نے پیسہ کمانا ہے کوئی خیراتی ادارہ نہیں کھول رکھا۔سرکاری ہسپتالوں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے ، بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔تعلیم کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے اور انتہائی بے ہودگی سے۔نیم خواندہ ٹھیکیداروں نے اور مذہبی جماعتوں کے نیم خواندہ بے روزگاروں نے تعلیمی ادارے بنا لیے۔

اب نئی نسل ان افلاطونوں کے رحم و کرم پر ہے۔تھانے مقتل بن چکے۔ باقی ملک کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے ، مجھے اسلام آباد میں کوئی ایک ایسا پولیس سٹیشن دکھا دیجیے جہاں رشوت دیے بغیر ایف آئی آر درج ہو سکتی ہو۔نظام قانون کا حال یہ ہے کہ سڑک پر پولیس اہلکار کو روندنے والا مجید اچکزئی ، شاہ زیب کو قتل کرنے والا جتوئیوں کا لڑکااور خدیجہ صدیقی پر خنجر کے وار کرنے والا، سب ایک ایک کر کے بری ہو جاتے ہیں اور ہم سکتے کے عالم میں دیکھتے رہتے ہیں۔ کتنے مسائل ہیں؟ کس کس کا ذکر کریں؟لیکن ہم بحث کن معاملات پر کر رہے ہوتے ہیں؟نواز شریف ، آصف زرداری ، عمران خان ، فضل الرحمن ،مریم ، حمزہ اور بلاول کے مستقبل پر۔

Advertisements
julia rana solicitors

تماشا تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے دکھوں کی خبر ہی نہیں اور ہم ان رہنمائوں کی مظلومیت کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ہم نے معاشرے کو یوں برباد کیا کہ گلی کوچوں میں موجود بڑے اور با کردار لوگوں کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اب تعریف بھی کرنی ہے تو صرف انہیں رہنماؤں کی۔ہر رہنما کے حصے کے بے وقوف ان کے فضائل بیان کر رہے ہیں اور کنویں کے ان مینڈکوں کی کل کائنات یہی ہے۔ جالب نے کہا تھا : دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام۔ایک تو میں جالب نہیں جو یہ طعنہ دے سکوں دوسرا یہ کہ بات اب دس کروڑ سے بہت آگے جا چکی

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply