کتنی عظیم ہے یہ فتح جس کے فاتح ملتے ہیں تو نظریں چرانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ کتنی لاغر ہے یہ فتح جسے توانائی بخشنے کے لئے اس کے فاتحین کو سوشل میڈیا پر اسے آکسیجن فراہم کرنی پڑ رہی ہے۔ کتنی بے داغ ہے یہ فتح جس کے فاتحین پچھلے تین روز سے اس کے داغ دھو رہے ہیں۔ کتنی بے بس ہے یہ فتح کہ اس کے فاتحین اپنے قارئین کو تسلی دیتے ہوئے لکھ رہے تھے ’’ احباب پریشان نہ ہوں، میں نے فیصلہ بار بار پڑھا ہے، یہ بالکل ٹھیک فیصلہ ہے ‘‘ جب ہم چیمپئنز ٹرافی جیتے تھے تو کیا ایک دوسرے کو اس طرح کی طفل تسلیاں دے رہے تھے ؟ جب فتح ہوتی ہے تو پھر ہوتی ہے، اسے ثابت نہیں کرنا پڑتا۔ کسی کو یاد ہے پاکستان نیوزی لینڈ کا وہ میچ جس میں ایمپائر نے سات بار نیوزی لینڈ کے حق میں جانبداری برتی تھی ؟ آج کی مسلم لیگ نون اس دن کی ہارنے والی پاکستانی ٹیم ہے۔ وہ ٹیم جسے ہار کا مالال نہ تھا کیونکہ وہ حریف ٹیم سے نہیں بلکہ ایمپائر سے ہاری تھی اور ایمپائر تو ایمپائر ہوتا ہے اس سے کون جیت سکتا ہے ؟ ایمپائر کو بس تاریخ ہرا سکتی ہے اور وہ اسے ہرا کر رہتی ہے۔ تاریخ کا ہر وہ ایمپائر خود تاریخ سے مار کھا گیا جو سیاست کے لئے استعمال ہوا۔ مولوی تمیز الدین کو اپنے فیصلے سے ہرانے والا جسٹس منیر تاریخ سے ہارا کہ نہیں ؟ ذوالفقار علی بھٹو تو جسٹس مولوی مشتاق سے یوں ہارا کہ پھانسی پر جھول گیا لیکن تاریخ نے مولوی مشتاق اور اس کے بنچ کا کیا حشر کیا ؟ عدالتوں کے سیاسی استعمال کو سمجھنے کے لئے اپنے وقت کے سب سے ’’صادق و امین” انسان مولانا ابوالکلام آزاد کا عدالتی بیان ایک بے مثال دستاویز ہے۔ 13 دسمبر 1921ء کی چمکتی صبح مولانا کو تاریخ سے ہارنے والی عدالتوں میں سے ایک عدالت کے روبرو پیش کیا گیا، ایمپائر نے کہا، اگلی سماعت پر اپنا بیان جمع کراؤ۔ 24 جنوری 1922ء کو مولانا نے وہ شاہکار مفصل بیان جمع کرایا جس نے اس عدالت کو اسی کی نظروں میں گرا کر تاریخ رقم کردی۔ مولانا کے اس بیان کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ قابل احترام جج جب ایمپائر بنتا ہے تو تاریخ سے ہار کیوں جاتا ہے ؟
مولانا بیان کا آغاز یوں کرتے ہیں
’’میرا ارادہ نہ تھا کہ کوئی تحریری یا تقریری بیان یہاں پیش کروں، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے لئے نہ تو کسی طرح کی امید ہے، نہ طلب ہے، نہ شکایت ہے۔ یہ ایک موڑ ہے جس سے گزرے بغیر ہم منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس لئے تھوڑی دیر کے لئے اپنی مرضی کے بغیر یہاں دم لینا پڑتا ہے۔ یہ نہ ہوتی تو ہم سیدھے جیل چلے جاتے۔‘‘
کچھ آگے چل کر مولانا سیاسی عدالت کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ہمارے اس دور کے تمام حالات کی طرح یہ حالت بھی نئی نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں (حکمران کے ساتھ ’’طاقتوں‘‘ کے لفظ کا اضافہ ہماری اسٹبلیشمنٹ کا بھی کیا بھرپور احاطہ کر رہا ہے) نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف و نا انصافی دونوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل و حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبدد حکومتوں کے لئے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں، تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیاں کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔ بلاشبہ زمانے کے انقلاب سے عہد قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ متوسطہ (مڈل ایجز) کی پر اسرار ’’انکوپزیشن‘‘ وجود نہیں رکھتی، لیکن میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے، وہ عمارتیں ضرور گرادی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں ؟ عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح ؑ جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے، ہمیں اس میں سقراط نظر آتا ہے، جس کو صرف اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا (صادق و امین) انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام ملتا ہے جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لئے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔۔۔۔۔۔۔ تاہم یہ مجرموں کا کٹہرا عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے جہاں سب سے اچھے اور سب سے برے دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں۔ اس جگہ کی عظیم الشان اور عمیق تاریخ پر جب میں غور کرتا ہوں کہ اسی جگہ کھڑے ہونے کی عزت آج میرے حصے میں آئی ہے تو بے اختیار میری روح خدا کے حمد و شکر میں ڈوب جاتی ہے اور صرف وہی جان سکتا ہے کہ میرے دل کے سرور و نشاط کا کیا عالم ہوتا ہے ؟ میں مجرموں کے کٹہرے میں محسوس کرتا ہوں کہ بادشاہوں کے لئے قابل رشک ہوں۔ ان کو اپنی خواب گاہ میں وہ خوشی اور راحت کہاں نصیب جس سے میرے دل کا ایک ایک ریشہ معمور ہو رہا ہے ؟‘‘
کئی صفحات کی ہمہ جہت تفصیل کے بعد مولانا آزاد اپنے اس بیان کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں
’’ مسٹر مجسٹریٹ ! اب میں اور زیادہ وقت کورٹ کا نہ لوں گا، یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں۔ ہمارے حصے میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے، تمہارے حصے میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لئے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے جس قدر یہ کٹہرا۔ آؤ اس یاد گار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کردیں۔ مؤرخ انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو۔ ابھی کچھ دنوں تک یہ کام جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے، وقت اس کا جج ہے ’’وہ فیصلہ لکھے گا‘‘ اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا۔‘‘
مقدمے کی سماعت کرنے والے ایمپائر کی نظر میں مولانا صادق و امین نہ تھے کیونکہ اس زمانے میں صادق و امین وہی سمجھا جاتا تھا جو برٹش دربار میں سجدہ شکر بجا لاتا تھا۔ ایمپائر نے مولانا کو ایک برس قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ یہ عدالت آج سے 95 سال قبل لگی تھی، مولانا ایمپائر سے ہار گئے لیکن مولانا سے جیتنے والی اس عدالت کو تاریخ نے خاک میں ملا دیا۔ آج بھی کچھ نہیں بدلا، جو راولپنڈی جا کر سجدہ شکر بجا نہیں لاتا وہ صادق و امین نہیں ہے اور سزا اس کا مقدر ہے پھر خواہ سزا کے لئے ڈکشنری کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ صادق و امین صرف وہ ہیں جو یوم تشکر بھی ’’فوجی پریڈ گراؤنڈ‘‘ میں مناتے ہیں، آج کی تاریخ میں سجدہ شکر کے لئے سب سے موزوں جگہ!
Facebook Comments
زبردست تحریر، نواز شریف کی موقع پرستی چالبازی بے وفائ اور وعدہ خلافی کے باوجود تاریخ کےاس موڑ پر وہ مظلوم ہے
بات بنی نہیں حضرت بات تب بنتی ابوالکلام آذاد کی طرح نوازشریف بھی کہتا یک طرفہ تاریخ سے کچھ ثابت نہیں کیا جا سکتاآپ تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم بننے والےکےلئے کتنا مطالعہ کیا ھے جو اسلام آباد سے جدہ یا اسلام باد سے مری چلا گیامیں آپ سے یہ عرض نہیں کر رہاکہ آپ 1400 سالہ تاریخ کو کھنگالیں ماضی قریب میں شاہ ایران صدام حسین حسنی مبارک قذافی اور اس کا بیٹا وغیرہ کو پڑھ لیں جن کے پلے بہت کچھ ھے محترم نوازشریف کے پلے تو کچھ بھی نہیں ھے آپ اہل علم ہیں اہل دانش ہیں اور اﷲ کے قانون کو آپ سے ذیادہ کون سمجھتا ھے
خوب ہے.
بہت عمدہ تحریر
Allah pak janab ko khush rakhy humain en sy buht kuch sekhne ko milta by.
Miyan sahab jab adliya ke mutaliq in k sadiq or aeen k bare main shubat rakhte the to ziyad se ziyada boli laga sakte thhe pesa to bohat hai miya sahab k pas ya phir molana Abul kalam ki tarha apni khdshat ka izhar karke istifa de kar molana ki tarha izzat wala maqam bana sakte the ab khamba nochne se kiya hasil bhae 45 salon se ye jahilana siyasat or sahafat dekh rahe hain is mulk ki siyasat ka ab ye hal hai ke aek inprh mazdor road par betha aek mochi jharo lagata khakrob rehri wala or nai ap mulk ki ane wali hokomat ke mutaliq wo koch bata dega jo bade bade siyasi mahreen ko nahi malom hoga or
agr malom hoga bhi to bahi to batane ka hosla nahi hoga jan o maal to sabhi ko piyari hota hai