ظلم اور ظلمت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

چیزیں اپنے عکس سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ یہ عالمِ دنیا درحقیقت عالمِ کثرت ہے۔ عالمِ کثرت تنوع سے عبارت ہے۔ تنوع کی بنیاد اختلاف ہے۔ اختلاف میں اعتدال رہے تو حسنِ اختلاف۔۔۔ اور یہی اختلاف آخری حدوں کو چھونے لگے تو بظاہر تضاد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وحدت آشنا نظر تضاد میں بھی ہم آہنگی کا منظر تلاش کر لیتی ہے۔ کثرت اُسے وحدتِ اَمر سے غافل نہیں کرتی۔
ظلم کا تضاد عدل ہے۔ عدل کے معنی اگر واضح ہوگئے تو ظلم کے معنی بھی کھل جائیں گے۔۔۔۔ ظلم کا شکار ہوئے بغیر!!

فکر و نظر کے عادلوں نے عدل کی تعریف یہ طے کی ہے کہ ہر چیز کو بھی اس کے اصل مقام پر رکھنے کا نام عدل ہے۔ شرک کو ظلم ا س لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں مقامِ خالق اور مخلوق کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اسی لیے انبیا مبعوث ہوئے تاکہ وہ بتائیں کہ عبدیت اور اُلوہیت میں کیا فرق ہے۔ جو قوم انبیا پر ایمان لے آتی ہے‘ وہ قدرتی طور پر شرک کے تصور سے پاک ہو جاتی ہے۔ مشرک معاشروں میں رسالت کا تصور نہیں ہوتا۔ خدا جُو ذہن اَز خود خالق اور مخلوق کے دائروں میں تمیز نہیں کر پاتا، اس لیے مخلوق اور خالق کو باہم خلط ملط کرنا اس کی عقلی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس عقلی گورکھ دھندے سے نکالنے کے لیے نوعِ انسانی کو بصورت ِ انسان ِ کامل ؐ وحی کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب مشرک معاشرے میں ذاتِ حق نے ذاتِ نبی ؐ کو مبعوث کر دیا تو اس کے بعد تفریق صرف کافر اور مومن کی باقی رہ گئی۔ ماننے والے مومن، اور انکار کرنے والے کافر کہلائے، رسول ؐ اللہ کی دعوت کے نیتجے میں کھڑی ہونے والی جماعت کے قوت پکڑنے کے ساتھ ہی ایک تیسری جماعت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ بچائے اس جماعت کے شر سے، اور اس جماعت کے ساتھ محشور ہونے کے انجام سے۔جس کا ظاہر اً قرار اور باطن انکار کی حالت میں ہوتا ہے۔منافقین۔۔۔۔ دین دشمنی میں کافرین سے زیادہ خطرناک!! یہودی اور نصرانی قوم اپنے انبیا کو اللہ کے نبی اور رسول کے طور پر نہیں مانتی بلکہ انہیں معاذ اللہ اس ذات ِ اَحد کی توارث میں شامل کر دیتی ہے، جس کی شان لم یلد ولم یولد ہے۔ مخلوق کو خالق کے درجے میں اور خالق کو مخلوق کے درجے میں شامل کرنا ظلم ہے ، بلکہ ظلمِ عظیم ہے۔

عدل تصورِ حیات سے شروع ہوتا ہے اور کارگاہِ حیات کے گوشے گوشے میں کارفرما نظر آتاہے۔ راہِ عدل سے انحراف ظلم کی راہ ہے۔ تصورِ حیات باطن کا شعبہ ہے ، اس لیے عدل اور ظلم دونوں کا تصور باطن میں جھانکنے سے سمجھ میں آئے گا۔ ظلم کا آسان مفہوم یہ ہے کہ کسی شے کو اس کے اصل مقام سے جدا کر دیا جائے۔۔۔۔۔ کسی شے کو اس کی اصل سے جدا تصور کیا جائے… اس لیے وحدت الوجود کا شعور اور مشاہدہ رکھنے والوں کے ہاں شرک کی تعریف عوام الناس کی تعریف سے مختلف ہو جائے گی۔ وہ ہر شئے کا اصل جانتے ہیں۔ ’’کل شئی یرجع الی اصلہٖ‘‘ کی رمزپہچانتے ہیں۔ وہ ’’انالحق ‘‘کہیں ٗتو عین توحید ہے۔ ’’لیس فی جبتی الا اللہ‘‘ پکار اٹھیں تو یہی اُن کا کلمہ توحید ہے۔ “سبحانی ما اعظم شانی ” ان کےکلام میں سرزد ہو جائے تو مشاہدۂ حق میں مغلوب الحال ہیں ۔ وہ خود کو مثلِ قطرہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ قطرۂ شبنم کی طرح نوکِ خارِ ہجرپر رقص کرتے ہیں ۔۔۔ اپنے مالکِ حقیقی کو قلزم ِ حقیقت جانتے ہیں۔۔۔۔ اُن کے دل کا جلترنگ کسی بھی لمحۂ حال میں نغمۂ سازِ انَالبَحر چھیڑ سکتا ہے۔۔۔۔ اور وہ بزبانِ غالبؔ اقرار کرتے ہیں کہ
ع ہم اُس کے ہیں‘ ہمارا پوچھنا کیا

اس کائنات میں انسان ہی وہ مخلوق ہے ‘ جسے ظالم نہیں بلکہ ظلوماً کہا گیا، اسمِ مبالغہ سے پکارا گیا ہے۔اسے محض جاہل نہیں بلکہ جہولاً کہا گیا ہے، یعنی جہالت کی بھی آخری حد…یہ انسان جب اپنے اختیارات کو بے لگام استعمال کرتا ہے تو ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کے نفس کو کارِ نیابت سونپا گیا ہے، یعنی اسے جو بھی اختیار دیا گیا ہے ٗ اختیار دینے والے کے اَمر کے مطابق استعمال کرنے کا پابند ہے۔ جب یہ شتر بے مہار بنتا ہے تو سب سے پہلے اپنے نفس پر ظلم ڈھاتا ہے۔ ظلم فی الانفس جب حد سے گزر جاتا ہے تو آفاق میں برپا ہو جاتاہے۔ بحر وبرّ کا فساد سب سے پہلے انسان کے نفس میں رُونما ہوتاہے۔ یعنی انسان باہر ظلم کرنے سے پہلے اندر ہی اندر ، اپنے آپ پر ، اپنے نفس پر ظلم کر چکا ہوتا ہے۔ وہ منصبِ نیابت و خلافت تیاگ کر ایک خود سَر اور باغی گورنر کی طرح اپنی بادشاہت کی بنیاد رکھ چکا ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان جب اپنی اصل سے جدا ہوتا ہے تو اپنے مقام و منصب کے تقاضوں کو فراموش کر دیتا ہے۔۔۔۔ اور غفلت کے انہی لمحات میں وہ اپنے حق میں ظلم کا ارتکاب کر چکا ہوتا ہے۔

جب ہم اپنے فرائض پورے نہیں کرتے تو دراصل ہم ظلم کرتے ہیں، ہمارے اس ظلم کی زد براہِ راست اُن پر پڑتی ہے جن کے حقوق کی ادائیگی ہم پر فرض تھی۔ حقوق کے باب میں سب سے پہلے ہمارے اوپر اپنے خالق و مالک کی بندگی کے حقوق کی ادائیگی فرض ہے۔ اِن حقوق میں عبادات سے لے کر معاملاتِ حیات تک سب شعبہ جات شامل ہیں۔ بندوں کے حقوق بھی درحقیقت اللہ ہی کے حقوق ہوتے ہیں کہ بندے بھی تو سب کے سب اللہ ہی کے بندے ہوتے ہیں، اور بندوں کے حقوق اللہ ہی کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ ایک صاحب ِ ایمان کے تصورِ انسانیت اور ایک لامذہب انسان کے تصورِ انسانیت میں یہی بنیادی فرق ہے۔ ایک صاحبِ ایمان شخص خدمت ِ انسان اللہ کا حکم سمجھ کر کرتا ہے، وہ خدمت ِ انسانیت کو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے قرب کا ذریعہ جانتا ہے، جبکہ ہیومینزم Humanism کی تحریک سے متاثر شخص ایک زندہ شخص کی خدمت محض زندگی کی خدمت سمجھ کر کرتا ہے۔ اس لیے وہ گذرے ہوئے شخص کی تکریم نہیں کر پائے گا۔ما بعد تصورات سے محروم آدمی مخلوق کی خدمت رات کے اندھیرے میں نہیں کر پائے گا، زندگی سے پیار کا دعویٰ کرنے والا مشفقانہ موت mercy killing کا قائل ہوگا۔ اس کی خدمت سیاست کا حصہ ہوگی یا پھر اس کے اپنے مزاج کی تسکین کا بندو بست۔

گناہ کا ا رتکاب ایک ظلم ہےٗ خواہ اس سے ملکی قانون متاثر نہ بھی ہو رہا ہو…کیونکہ یہ اپنے نفس پر ظلم ہے۔ نفس ۔۔۔۔ جس کے ذمے خود شناسی اور پھر خدا شناسی فرض تھیٗ یہ اپنے فرض ِ منصبی سے غافل ہو گیا۔۔۔ لذتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔۔۔۔ اسے برف کی چند سلوں کی مانند کچھ لمحات کا سرمایہ دیا گیا تھاٗ یہ اپنے وقت کو ضائع کر بیٹھا ، یعنی اپنا سرمایہ حیات اکارت کر بیٹھا۔ ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ میں نے زندگی کی حقیقت ایک برف فروش کی صدا سے جانی ،وہ برف بیچنے والا آواز لگا رہا تھاٗ رحم کرو ٗ اُس شخص پر جس کا سرمایہ ہر آنے والے لمحے میں ضائع ہورہا ہے۔

الغرض ٗ بیرونِ خانہ ظلم کی جہات کثیر ہیں‘ لیکن درونِ خانہ ظلم ایک ہی جہت سے رونما ہوتا ہے ، یعنی اپنے ہی نفس کی جہت ِ غفلت۔ اگر انسان ظلم اور ظلمت سے نجات چاہتا ہے تو اسے ہجرت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ ظلم سے عدل کی طرف ہجرت کا نام توبہ ہے۔ ابنائے آدم کو جاننا چاہیے کہ اُن کے جدِّامجد کی سب سے پہلی دعا کیا تھی : ربنا ظلمنا انفسنا والم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین۔ یہی دعا آج بھی ہمارے لیے سرمایۂ نجات ہے۔ ظلمت ِ نفس سے نورِ ہدایت کی طرف راہ پانے کے لیے سے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر ہی ایک عہد کرنا ہوتا ہے۔۔۔ واپس نہ پلٹنے کاعہد۔۔۔ توبہ بھی پلٹنا ہے… پلٹنے کے بعد دوبارہ الٹے پاؤں نہ پلٹنے کا عہد توبہ پر استقامت ہے۔ توبہ پر قیام ہی راہِ عدل کو جانے والا سیدھا راستہ ہے۔ اَز روئے قرآن‘ وہ ذات جو پاک ہے ٗ بلکہ سبحان ہے‘ پاکیزگی کو پسند کرتی ہے، توبہ کو پسند کرتی ہے، اور توبہ قبول کرتی ہے۔ وہ ذاتِ مطلق جو جمیل ہے ، بلکہ جمال ِ مطلق ہے وہ جمال کو پسند کرتی ہے۔۔۔۔ اس طرح وہ ذات عین علم ہے، علم کا تقاضا عدل ہےٗوہ راہِ عدل و اعتدال ہی کو پسند کرتی ہے۔ اَز رُوئے حدیث، عادل حکمران کو سایہ عرش میں جگہ ملتی ہے ۔ ہمیں جہاں بھی حکمرانی حاصل ہے‘ چاہیے کہ ہم دیکھیں کہ اپنی رعیت کے ساتھ معاملات میں ہم عدل سے کتنا قریب ہیں اور کتنا دُور؟ عدل سے دوری ظلم ہے۔ظلم۔۔۔ باطن میں اور پھر مابعد میں ظلمت یعنی اندھیرا پیدا کرنے کا موجب ٹھہرے گا۔

جس طرح جسم کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں‘ اس طرح ہماری روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ روح کا ایک اہم تقاضا طہارت اور لطافت ہے۔ روح طہارت و نظافت میں اپنی جولانیوں پر ہوتی ہے اور ظلمت اور نجاست میں اس کادم گھٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہاں تک یہ ’’نیم مردہ‘‘ رُوح سرکش شیاطین کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ رحمٰن کے بندے اپنی روح کو پاک اور پوتر رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہی میڈیم اِنہیں اَرواح مقدسہ سے ہم کلام ہونے کا شرف دیتا ہے۔ وہ اپنا برتن صاف رکھتے ہیں تاکہ جب اور جہاں اس کی رحمت کا نزول ہو‘ وہ اپنے دل کے کشکول میں اسے اکٹھا کر سکیں ، اور اس معطر و مقطر رحمت کے واسطے سے اپنے اور اپنے ملحقین کے لیے شفا اور شفاعت حاصل کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس اصل ظلم اپنی جان پر ظلم ہے۔۔۔۔ اور جانِ عزیز! عدل کی اصل بھی باطن میں جڑ پکڑتی ہے، عدل کی ابتدا اپنے باطنی معاملات میں عدالت قائم کرنے سے ہوتی ہے۔ جو اپنے اندر ضمیر کی عدالت میں کھڑا نہیں ہوتا ٗ اسے پھر باہر دنیا کی عدالت میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ صاحب ِ نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک معروف قول ہے ، مفہوم جس کا یوں ہے کہ انسان کوئی نیکی نہیں کرتا مگر اپنے لیے، اور کوئی گناہ نہیں کرتا مگر اپنے لیے!
عدل کا منظر یہ ہے کہ عدل پر قائم انسان یہ مشاہدہ کرسکتا ہے کہ جو ذرّہ جہاں ہے آفتاب ہے، کیونکہ وہ ذرے اور آفتا ب کو بنانے والی ذات کے حوالے سے اس کائنات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ خود ساختہ اصولوں پر چلنے والا انصاف کے نام پر بھی ظلم کا مرتکب ہو گا۔اپنے نفس پر ظلم ڈھانے والا عدل اور اعتدال کی راہ نہ پاسکے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply