تتھاگت نظم (21)–زندگی دشمن نہیں ہے

تتھاگت نظم (21)…زندگی دشمن نہیں ہے

اور پھر اک شخص آیا
سَنگھ کا یا آشرم کا کوئی دروازہ نہیں تھا
جو کسی کو روکتا
وہ گرتا پڑتا، ٹیڑھا میڑھا
جب کھلے آنگن میں پہنچا
بے تحاشا رو رہا تھا
جیسے بے دردی سے پیٹا ہو کسی دشمن نے اس کو!

روتا روتا، سسکیاں لیتا ہوا وہ گر پڑا، تو
بھکشوؤں نے اس کو چلنے میں مدد دی
آہیں بھرتا
کھانستا، پلّو سے منہ کو صاف کرتا
بُّدھ کی خدمت میں پہنچا

بُّدھ اپنی آنکھیں میچے
دھیان کی مُدرا میں کُش آسن پہ بیٹھے
جانے کس دنیا میں تھے، پر
اجنبی کے سَنگھ میں آنے کا اُن کو گیان تھا …
دھیرے سے بولے، ’’ ہاں سوالی
کس نے تم کو یوں ستایا ہے کہ تم یوں
ادھ مَرے سے چل رہے ہو؟‘‘

چیخ اٹھّا، جیسے نووارد
’’مری اِس زندگی نے …‘‘

’’یعنی تم کو زندگی سے یہ شکایت ہے کہ اس نے
تم پہ اتنے ظلم توڑے ہیں کہ
تم بے چارگی کی حد تلک پہنچے ہوئے ہو
اور اب چلنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے تمہیں؟‘‘

بدُّ ھ کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم مرتعش تھا!

’’ ہاں، تتھا گت!‘‘

’’زندگی کو تم سے گویا دشمنی ہے؟‘‘

’’ہاں ، تتھا گت!‘‘

بُّدھ کُش آسن پہ بیٹھے دھیان کی مُدرا میں تھے، لیکن یکا یک
اپنی آنکھیں کھول کر دھیرے سے بولے
’’زندگی اور تم میں یہ رشتہ عداوت، دشمنی یا بَیر کا
ایسے ہی ہے، جیسے کہ دو دشمن کھڑے ہوں …
اور تلواروں سے، تیروں، خنجروں سے لڑ رہے ہوں
کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا ، سوالی؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت، ٹھیک ہے یہ بات، لیکن …
زندگی بے درد ہے، بے رحم ہے، ظالم ہے …
اک ڈائن سی، میرا خون ہر دم چوستی ہے!‘

’’زندگی کو کوسنے دیتے تو ہو گے
جیسے تم اب دے رہے ہو؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت، کیا کروں؟ چارہ نہیں کوئی بھی
تو اب کوسنے اور گالیاں دینے کی ہمت بھی گنوا دوں؟‘‘

’’جب کسی دشمن کو گالی دو، سوالی
تو جواباً وہ بھی گالی دے گا، ہے نا؟
اور شاید ایک دو تھپڑ بھی جڑ دے!‘‘

’’ہاں ، تتھا گت!‘‘

’’زندگی بھی گالیاں دیتی تو ہو گی
سُن نہیں پاتے مگر تم …
زندگی کی گالیاں یا کوسنے
لفظوں کی صورت میں نہیں ہوتے، سوالی!
یہ بُرے حالات ، اَن چاہی مصیبت
حادثوں کی شکل میں ڈھلتے ہیں اکثر
یہ کہاوت تو سنی ہو گی، سوالی
اینٹ پھینکو تم کسی پر، تو یقینا
اس کا پاسنگ ایک پتھّر میں ملے گا!‘‘

’’ہاں ، تتھا گت، سن چکا ہوں!‘‘

’’یہ بتاؤ، کیا کسی دشمن کو اپنا دوست بھی سمجھا ہے تم نے؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت … میرا اک رشتے کا بھائی …
اس سے میری دشمنی تھی
پھر یکایک یوں ہوا ، جیسے وہ اک دن میں بدل کر
میرے اصلی بھائی جیسا بن گیا ہو
اس نے مجھ پر مہربانی کی …
برے وقتوں میں میری دست گیری کی، مجھے امداد دی
مجھ کو بہت اچھا لگا … اور میں نے بھی
اس کو سگا بھائی سا سمجھا … اب ہماری دوستی ہے!‘‘

’’خوب، گویا دشمنی اور دوستی میں ادلا بدلی عین ممکن ہے
اگر چاہے کو ئی تو!
اب کہو، کیا ٹھیک ہے یہ ترک سوالی؟‘‘ ترک ۔( تَ ر ک۔) بمعنی منطق

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

’’ایسے لگتا ہے کہ میری بات اب آہستہ آہستہ
تمہارے دل میں بستی جا رہی ہے
زندگی دشمن ہے، لیکن
زندگی ہی دوست بھی ہے
دشمنی اور دوستی میں ادلا بدلی کے لیے
ازحد ضروری ہے کہ تم اک دوسرے کو دوست سمجھو
تم اگر خود زندگی کو کوسنے دینے سے رک جاوٗ تو شاید
کام بن جائے تمہارا !‘‘

’’کیا کروں میں؟‘‘

’’زندگی کی دوستی تو زندگی کی دست گیری ہے، سوالی
یہ کہو …..(کہتے رہو ہر دم) کہ میں تو
ز ندگی سے پیار کرتا ہوں
مجھے اس سے محبت ہے
مری تکلیف ساری میرے ہی کرموں کا پھل ہے!‘‘

’’جی، تتھا گت۔ اور بھی کچھ؟‘‘

’’ہاں، کہو
میں سکھ سے جینا چاہتا ہوں، حوصلے سے، او رمحبت ، شانتی سے
زندگی ، اے دوست میری، حوصلہ دو
میں مصائب سے لڑوں گا
پر مجھے امداد کی بے حد ضرورت ہے …
مجھے امداد دو، اے دوست میری!‘‘

وہ جو لنگڑاتا ہوا آیا تھا
وہ جو اپنی سینہ کوبی کر رہا تھا
وہ کہ جس کے پاؤں چلتے تک نہیں تھے
تب یکا یک
خود ہی اٹھ بیٹھا
؂کھڑا بھی ہو گیا
بولا، ’’ تتھا گت، آپ کی جے ہو !
میں اب سے اس ہنر کو آزمانا چاہتا ہوں!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

اک بار پھر دیکھا تتھا گت کی طرف
اور پیار کے لہجے میں بولا …سر اٹھا کر
(جیسے منتر کی تلاوت کر رہا ہو)
’’زندگی، اے دوست میری
مجھ کو شکتی دے کہ میں خود چل سکوں
گھر تک چلوں
مجھ کو کوئی دقّت نہ ہو گھر تک پہنچنے میں …
کہ میں اب اک نیا انسان ہوں
اور تم نگہباں ہو مری، اے زندگی!‘‘
………………………………………….

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply