اعتکاف، مظہر عبودیت و بندگی۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

لغت میں اعتکاف سے کسی جگہ توقف کرنے کو کہا جاتا ہے۔ فقہی اصطلاح میں اعتکاف سے مراد انسان کا عبادت خداوندی کی قصد سے مسجد میں کم از کم تین دن تک بیٹھنا ہے۔ اعتکاف کے لئے شریعت میں کوئی خاص وقت معین نہیں لیکن احادیث کے مطابق اس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان اور خاص طور پر اس مہینے کے آخری دس دن ہیں۔ اعتکاف اگرچہ ایک مستحب عمل ہے لیکن دو دن معتکف رہنے کے بعد تیسرے دن کا اعتکاف واجب ہوگا۔ رمضان المبارک کا مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں (عَنِ النَّبِيِّ (ص) قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ۔۔)۱۔ جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے اور قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انسان کی خلقت کا ہدف عبودیت اور بندگی ہے اور اعتکاف اس ہدف کے حصول کے لئے ایک بہترین ذریعہ ہے، جس کا خداوند نے قرآن کریم میں اور خاصانِ خدا نے احادیث اور اپنے اعمال و کردار میں تعارف کروایا ہے۔ اعتکاف ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنی فطرت کے نزدیک تر ہوتا ہے اور پھر منزل اخلاص پر فائز ہو کر خداوند منان کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب  و کامران ہو جاتا ہے۔

اعتکاف کی روح اورحقیقت یہ ہے کہ انسان ہر کام، مشغلہ، کاروبار اور اہل و عیال کو چھوڑ کر اللہ کے گھر میں گوشہ نشین ہو جائیں اور سارا وقت اللہ تعالٰی کی عبادت و بندگی اور اس کے ذکر میں گزاریں۔ اعتکاف کی حقیقت توجہ اور حضورِ قلب ہے۔عبادت خواہ نماز یا روزہ ہو، خواہ اعتکاف، روح عبادت توجہ اور حضور قلب کی برکت سے نصیب ہوتی ہے۔ متدین اور دیندار افراد کے لئے خدا سے ارتباط قائم کرنے کے اہم طریقوں  میں سے ایک طریقہ یہی اعتکاف ہے۔ اعتکاف انسان ساز ہے، اور جو انسان بن جاتا ہے وہ اجتماع کو بناتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:(لا یزال المؤمن فی صلوٰۃ ما کان فی ذکر اللہ عزوجل قائماً کان او جالساً او مضطجعاً)۲۔ مؤمن ہمیشہ نماز میں (شمار ہوتا) ہے جب تک وہ اللہ عزوجل کی یاد و ذکر میں رہے چاہے کھڑا ہو یا بیٹھا ہو یا لیٹا ہوا ہو۔ اعتکاف کا ثمرہ بھی یہی ہے کہ انسان اللہ تعالٰی اور اس کی بندگی کو دنیا کی ہر چیز پر فوقیت اور ترجیح دے۔ اعتکاف اللہ تعالٰی کی عبادت و بندگی بجا لانے کا ایک ایسا منفرد طریقہ ہے جس میں مسلمان دنیا سے بالکل لاتعلق اور الگ تھلگ ہو کر اللہ تعالٰی کے گھر میں فقط اس کی ذات میں متوجہ اور مستغرق ہو جاتا ہے۔

اعتکاف کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:(وَ إِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)۳۔اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ اور ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں او ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو۔ اعتکاف کے عبادی مراسم فقط دین اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام آسمانی و الہٰی ادیان میں یہ عبادت موجود رہی ہے۔ بحار الانوار میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد بیت المقدس میں ایک سال، دو سال، ایک ماہ، دو ماہ، کم و بیش اعتکاف میں رہتے تھے۔۴۔ علامہ طباطبائی نقل کرتے ہیں کہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا اعتکاف کی خاطر لوگوں سے دور رہتی تھیں۔۵ اسی طرح سے دیگر انبیاء و اولیاء کے بارے میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔ حضرت محمد مصطفٰي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اعتکاف جیسی شیرین عبادت کے تذکرے موجود ہیں۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کے پہلے عشرے میں معتکف ہوتے تھے، کبھی دوسرے عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور پھر تیسرے عشرے میں اور بعدازاں حضور کی سنت و سیرت یہی رہی کہ ماہ رمضان المبارک کے تیسرے عشرے میں معتکف رہتے تھے۔

اعتکاف کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن کی آیات اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات میں اعتکاف کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں، (اعتکاف عشر فی شھر رمضان تعدل حجتین و عمرتین) ۶۔ ماہ رمضان کے ایک عشرہ میں اعتکاف کرنا (چاہے وہ پہلے عشرہ میں ہو یا دوسرے میں یاتیسرے عشرہ میں ہو) دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ۔۔ مَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ تَعَالٰى جَعَلَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ)۷۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کیلیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ ہُوَ یَعْكِفُ الذُّنُوبَ، وَيَجْرِيْ لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا)۸ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔

اسی طرح  ایک اور مقام پرارشاد فرماتے ہیں، (مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ)۹۔جس نے اللہ کی رضا کیلیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعتکاف کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اگر کسی سال کسی وجہ سے اس مستحبی عبادت کو انجام نہیں دیتے تھے تو اگلے سال ماہ مبارک رمضان میں دو عشروں میں اعتکاف کرتے تھے ،ایک عشرہ اسی سال کیلئے اور ایک عشرہ قضاء کے عنوان سے اعتکاف کرتے تھے۔ عن ابی عبداللہ (علیہ السلام) قال (کانت بدر فی شھر رمضان فلم یعتکف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) فلما ان کان من قابل اعتکف عشرین عشرا لعامہ و عشرا قضاء لما فاتہ)۱۰۔ امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں، (اعتکف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فی شھر رمضان فی العشر الاولی ،ثم اعتکف فی الثانیة فی العشر الوسطی، ثم اعتکف فی الثالثة فی العشر الاواخر، ثم لم یزل یعتکف فی العشر الاواخر)۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کئی برس ماہ رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، اگلے سال ماہ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اور تیسرے سال ماہ رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے اور آخری برسوں میں ہمیشہ ماہ مبارک رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ 11۔

ہر عبادت کی طرح اعتکاف کی صحت و قبولیت کے لئےبھی کچھ شرائط ہیں۔ جیسے ایمان، عقل، قدرت اور اس کے علاوہ دیگر شرائط میں قصد قربت (نیت)، روزہ، تین دن روزہ دار ہونا، مسجد جامع یا مساجد چہارگانہ میں سے کسی ایک میں ہونا، بغیر کسی عذر شرعی یا ضرورت شرعی کے باہر نہ نکلنا، مسلسل مقامِ اعتکاف میں رہنا، زوجہ شوہر کی اجازت کے ساتھ اور فرزندان کا والدین کی اجازت کے ساتھ ہی اعتکاف کرنا۔ اعتکاف کے دوران دنیاداری اور غیر معنوی اشعار سے پرہیز کرنا چاہیئے اور اسی طرح ہر وہ کام جو اعتکاف کے مقدس اہداف کے حصول میں مانع اور رکاوٹ بن سکے اس کو ترک کردینا چاہیئے۔ انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت ذکر، صلوات، دعاؤں، اور تلاوت قرآن کریم میں بسر کرنا چاہیئے تاکہ جب معتکف اعتکاف ختم ہو جانے کے بعد مسجد سے باہر آئے تو اس کا ان تمام معنوی امور کے ساتھ اُنس اور دلی لگاؤ بہت زیادہ ہو چکا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ صحیح بخاری، ح1797۔
۲۔ اعتکاف ابرار ص۲۸،وسائل الشعہ  ج۷ ص۱۵۰۔
۳۔ بقرۃ ،125۔
۴۔ بحار  الانوار،ج۱۴ص۱۴۱ ۔
۵۔ المیزان ج۱۴،ص۳۴۔
۶۔ وسائل الشیعه، ج 7، ص 397۔
۷۔المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص279 رقم 7326۔
۸۔ سنن ابن ماجۃ: باب فی ثواب الاعتكاف ص128۔
۹۔کنز العمال: کتاب الصوم، الفصل السابع فی الاعتکاف و لیلۃ القدر، ج8 ص244 ۔
۱۰۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، جلد ٢ ، صفحہ ١٨٤ ۔ مستدرک الوسائل ، جلد ٧ ، صفحہ ٥٦٠ ۔
۱۱۔ وسائل الشیعہ ، جلد ١٠ ، ابواب الاعتکاف ، باب ١ ،حدیث ٤ و ١ و ٥ ۔ مستدرک الوسائل ، جلد ٧ ، صفحہ ٥٦٠

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply