گھرانہ! ایک فرسودہ سماجی اکائی۔۔قیصر عباس فاطمی

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ ثقافت پذیری کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی طرح سماجی اقدار کی کانٹ چھانٹ بھی ہو رہی ہے ایسے میں مخصوص علاقائی روایات بدستور دم توڑتی جائیں گی۔ بالخصوص ایسے رسم و رواج جو زمانہ قدیم میں افراد کے انحصار باہمی کے تحت وجود میں آئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اشرافیہ کے لیے عوام کو قابو کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ سماجی اکائیوں، اور ان کے دستور و روایات سمیت تمام اقدار کا بنیادی مقصد “فرد” کی بقا، فلاح اور ترقی ہے۔

محدود قبائلی نظام ہو یا وسیع سلطنت، جدید ریاست ہو یا ابھرتا ہوا عالمی نظام، اگر “فرد” کی بقا میں ناکام رہے، فلاح کا بندوبست نہ کر سکے یا ترقی کے مواقع پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ تو اسے لازماً مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا۔

“شادی” جو ایک دستور کی مانند ہے، اور جس کی بنیاد پر اہم سماجی اکائی “گھرانے” کی تشکیل ہوتی آئی ہے، اپنی قدر کھو چکا ہے۔ بالخصوص پسماندہ معاشروں میں اسے (یعنی شادی اور گھرانے) کو فرد/افراد دانستہ و غیر دانستہ طور پر ذاتی انا کی تسکین کے لیے ایک منحوس چکر میں گھماتے چلے آ رہے ہیں اور آئے دن ہونے والے لاتعداد مظالم اسی ایک دائرے کے اندر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مثلاً  ریپ، چائلڈ ابیوز، ڈومیسٹک وائلنس، آنر کلنگ، فورسڈ میریج وغیرہ۔۔

گھرانے کا اصل مقصد افزائش نسل، اور نومولود کی بالغ ہونے تک کی ضروریات کو پورا کرنا اور اخلاقی تربیت کرنا ہے۔ مگر یہ کیا کہ اب گھرانے کی تشکیل کا مقصد جنسی تعلقات قائم  کرنا ہے۔ دل بہلانے کے لیے بچے پیدا کر دئیے۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈال دیا اور اس منحوس چکر کی بقاء و سلامتی کے لیے انہیں بھی زبردستی “شادی” کے منحوس بندھن میں جکڑ دیا گیا۔

پاکستانی معاشرے کے تناظر میں ایک مخصوص روش کی نشاندہی کی جائے تو شادی بیاہ بھی ایک فیملی بزنس کی طرح لگتا ہے۔ جسے نسل در نسل بظاہر “عزت، نام، غیرت وغیرہ” اور درحقیقت انا کی تسکین کے لیے چلایا جا رہا ہے۔ یہ بھی دکانوں کی طرح چلتا ہے۔ ہر دکان کا اپنا نام اور اپنا طریقہ کار ہے۔ راجوں کی دکان، گجروں کی دکان، سیدوں کی دکان، آرائیوں کی دکان وغیرہ۔ اور ہر دکان کے مخصوص گاہک ہیں وہ کسی دوسری دکان پر نہیں جا سکتے۔ یعنی ایک گاہک بھوک سے مر جائے مگر دوسری دکان سے کچھ نہ لے۔ بالکل ایسے ہی، سید نے آرائیں کی دکان پر نہیں جانا۔آرائیں نے گجر کی دکان پر نہیں جانا۔

شادی بظاہر ایک نیک، پُرمسرت اور دل کش معاملہ ہے۔ مگر ایک لمحہ ٹھہر کر، اردگر غور کریں، اور اس سے وابستہ رسم و رواج پر فکر کریں، تو سر پیٹنے کو دل چاہے گا۔ کسی لڑکی،لڑکے نے اپنی پسند اور مرضی سے شادی کر لی اور اسے قتل کر دیا گیا؟پسند کی شادی اور قتل؟۔۔۔ اگر آپ دل رکھتے ہیں، خود کو انسان کہلواتے ہیں، چوٹ لگنے پر درد محسوس کرتے ہیں، اور اتنی عقل کے مالک ہیں کہ “عدل و انصاف” کا معیار قائم کر سکیں تو اس پر آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ یا تو ایسے سماج کو فنا ہو جانا چاہیے یا اس دستور کو ہی ختم کر دینا چاہیے جس کے تحت اس فعل قبیح کو پنپنے کا موقع ملے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر، گھرانے کے اصل مقاصد کی طرف لوٹتے ہیں۔ موجودہ دور میں گھرانہ اپنے بنیادی مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اور دوسری طرف ان مقاصد کی نوعیت اور دائرہ کار بھی بدل چکا ہے۔ افزائش نسل پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ افراد کی مادی ضروریات کو عالمی معیار اور اخلاقی تربیت کو عالمگیر اقدار کے تحت پورا کیا جانا چاہیے۔ اور ہر فرد بلا امتیاز تمام بنیادی انسانی حقوق سے مستفید ہو۔ اور اگر کسی کو ایسا ہونا دیوانے کا خواب لگے، تو کھلی آنکھوں سے ظلم و جبر دیکھنے والوں کو کم از کم شادی بیاہ اور فیملی سسٹم کے منی فاشسٹ ریجیم کے منحوس چکر کو ختم کرنے کی “قابل عمل” تحریک تو ضرور چلانی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply