چہرہ فروغ مے سے گلستاں(قسط3)۔۔فاخرہ نورین

میں نے ایک نویکلی فیملی میں آنکھ کھولی ہے, یعنی میری  پیدائش سے کافی پہلے میرے والدین اپنے والدین سے الگ اپنے گھر میں رہتے تھے ۔ ہم نے بغیر کسی کی دخل اندازی سہے ایک خود مختار زندگی گزاری ۔تعلیمی زندگی کے سارے دورانیے میں ہم لوگ کہیں آئے گئے نہیں, بعد میں ملازمت اپنے شہر سے باہر ملی تو ملنا ملانا ویسے ہی کم رہا ۔ہمارے پورے خاندان میں جوائنٹ فیملی سسٹم رہا ہی نہیں سو سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے گھر کا ماحول ہمارے والدین کی مرضی کا ہی بنا ۔ گاؤں میں بھی چونکہ ہمارے گاؤں میں بہت زیادہ گھر نہ ہونے کے سبب ہم نے زراعت کے زیر اہتمام خاندانی نظام نہیں دیکھا ۔ہمارے گاؤں یعنی ہریا اسٹیشن کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ زیادہ تر لوگ پیشہ ور تھے ۔امی کی نظر میں یہ خامی تھی اور وہ اکثر ہمیں یہ کہہ کر کسی بھی ہمسائے کے گھر سے روک دیتی تھیں کہ
سارے پنڈاں دے چِکے ہوئے اچکے تے لچے ہریا اسٹیشن آ وسے نے ۔کوئی موچی تے کوئی لوہار کوئی ترکھان تے کوئی مراثی۔
چنانچہ ہم اپنے اپنے پنڈ سے چِکے ہوئے کمیوں کے گھر کم ہی جاتے کہ ہم کشمیری بٹ تھے اور اس لیے اس گاؤں میں آن بسے تھے کہ ہمارا دادا کبڈی کھیلتا تھا اور اس کے ڈولے دیکھ دیکھ کر عاشق ہونے والی عورتوں کے خاندان والے ہمارے دادا کے دشمن بن گئے تھے ۔یہ اور بات کہ عورتیں اس لچے پنڈ میں بھی ان کے پیچھے آتی اور دادی سے گالیاں کھاتی رہیں ۔ دادی اور امی کا کہنا تھا کہ ہمارے دادا کے دشمن عناصر ان کی ناک نیچی کرنے اور بدلہ لینے کے لئے ان کی پوتیوں سے چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں لہذا دادا کی کرنی کے بھگتان سے بچنے کیلئے بھی لوگوں سے کم ملنے کی ضرورت ہے ۔
صفائی ستھرائی، کڑھائی سلائی، کھانا بنانا، گھر کو ایسے رکھنا کہ بقول امی بھانویں ددھ روہڑ کے چک لو، یہ ہمارے گھر کے اصول رہے سو بہت بچپن سے ہی امی نے گھر کی ڈیوٹیاں بانٹ کر ہم ساتوں بہنوں کو کھانا پکانا، سینا پرونا، کروشیا یہاں تک کہ ہم بڑی دو بہنوں کو تو ناڑےپراندے بنانا اور مشینی کڑھائی اور سلائی کی باقاعدہ تربیت ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے دلائی گئی ۔ گھر کے دو کمرے تھے ایک کی صفائی میرے اور دوسرے کی صفائی آپی کی روزمرہ ڈیوٹی تھی ۔برتن میرے جبکہ کپڑے دھونے کا ذمہ آپی کا تھا ۔ سالن میں بناتی اور آٹا آپی گوندھتی امی ناشتہ بنا کر ہمارے سکول کالج جانے کے بعد برتن صحن باتھ روم کچن وغیرہ سمیٹ لیتیں۔ مجھے کپڑے استری کرنا اور پراٹھے بنانا ابو نے سکھایا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر حوصلہ افزائی کر کے طرح طرح کے کھانے بنانے کا شوق بھی انھوں نے پیدا کیا ۔

ہماری امی البتہ کبھی ہم سب حاضر سروس بہنوں کی کارکردگی پر مطمئن نہیں ہوئیں اور دن رات کی درفٹ کے ساتھ ساتھ ہمہ دم مستعد رکھنے والی ہیں ۔ ہاں جیسے ہی کوئی پڑھنے کے لئے ہاسٹل یا پردیس بیاہا جاتا ہے، اس سے ملنے والے سُکھوں  کا تذکرہ کر کے امی باقی بہنوں کو کھولاتی اور بہتری پر اکساتی رہتی ہیں ۔ میں سمجھتی تھی کہ ہر گھر کا منظر نامہ یہی ہے کیونکہ خالہ کے گھر، اپنی پھپھی کے ہاں، ماموں کی بیٹیوں اور سہیلیوں کےگھر کم و بیش یہی کارروائی ہوتے دیکھی سنی تھی ۔

ایسا لگتا تھا کہ ہر گھر میں ایک ہٹلر امی اور بیٹیوں کو تمیز تہذیب اور گھر داری سکھاتے ابو پائے جاتے ہیں ۔کچھ گاؤں کو بہت زیادہ فنتاسیا جا چکا ہے اور شہروں میں کھلے یہ ولیج، ویہڑے، تندوری، بیٹھک اور چک نمبر فلاں فلاں کی صورت کھلے ہوٹل گاؤں کے حوالے سے کافی سارے مغالطے پیدا کر چکے ہیں ۔

فلموں میں گاؤں ٹھیک ٹھاک فلمی ہونے کے سبب بھینس چوتی صائمہ، شہوت انگیز رقص کرتی نرگس اور ٹھمکے مار مار ہیرو کی دھوتی کھلواتی ثنا نے بھی جٹیوں اور مٹیاروں کا تصور مثالی بنا دیا ہے ۔
ورنہ سر جھاڑ منہ پھاڑ تندوری پر دو دو ٹوپے آٹے کی روٹیاں پکاتی پسینوں پسینی عورتیں جن سے عجیب سی ہواڑ زدہ ہمک آتی ہے اور جو گندے کچن میں دور دور تک بکھراوا ڈالے روٹی پر سالن رکھے کھانے اور کھلانے میں مگن ہوں میں ان کو صرف پھوہڑ پن کی مثال کے طور پر ہی کار آمد سمجھتی ہوں ۔

گاؤں  کے کچن کھانے کے اوقات میں عجیب منظر پیش کرتے ہیں ۔چولھے کے گرد پڑی ہانڈی، روٹیوں والی چنگیر، کے ارد گرد بیٹھے افراد خانہ کے استعمال شدہ برتن دور دور تک بکھرے پڑے نظر آتے ہیں ۔آتے جاتے کی ٹھوکر سے سٹیل کی کولی ٹنگ نڑنگ ٹنگ نڑنگ گھومتی ہے اور خود ہی سیٹل منٹ کر لیتی ہے ۔

گلاس ڑنگ ڑنگ ڑنگ کرتا پانی گراتا ایک کونے سے نصف دائرے میں گھومتے ہوئے دوسرے کونے تک ایک قوس بناتا رک کر اگلے ٹھڈے کا انتظار کرتا رہتا ہے اور کوئی اسے نہیں اٹھاتا۔ بھنبھناتی مکھیوں پرے کے پرے استعمال شدہ برتنوں کے گرد سیاہ حاشیہ کھینچے تھوڑا تھوڑا پھدکتے رہتے ہیں ۔کسی کی آمد پر ساری مکھیاں ہمارے بچپن کی نصابی کتاب میں اتفاق میں برکت نامی کہانی کے کبوتروں کی طرح یکجان ہو کر ایک ساتھ ہلکا سا اوپر اٹھتی ہیں، یوں لگتا ہے شکاری کے چنگل سے نکلنے کے لئے جال بھی اڑا لے جائیں گی لیکن نیچے کولیوں میں دہی گڑ کے ذرات اور ملائی ہی نہیں چینی کی باقیات بھی ہیں سو ایک نیچی پرواز اور تیز وائبریشن کی آواز بلند کرنے کے بعد وہ پھر سابقہ پوزیشن سنبھال لیتی ہیں ۔خاتون خانہ آنے والوں کو انھی کولیوں گلاسوں میں پانی، دودھ، ملائی، چینی یا گڑ ڈال کر دیتی رہتی ہے ۔انسان اور مکھی کا بقائے باہمی کا یہ سفر نسل در نسل جاری رہتا ہے ۔

کوئی مجھے عورت کی مظلومیت پر لیکچر نہ دے کیونکہ میں اس پر یقین نہیں رکھتی۔ کوئی مجھے یہ نہ بتائے کہ ان بے چاری دیہاتی عورتوں کی کسمپرسی ان کی اس حالت کی ذمہ دار ہے ۔کیونکہ میں نے جتنی عورتیں دیکھیں ان میں چند مستثنیات کے علاوہ زیادہ تر بنیادی طور پر پھوہڑ اور تن آسانی کی پیداوار ہیں ۔ عورت کو معاشی تنگی ہو سکتی ہے، علم کی روشنی سے محرومی ہو سکتی ہے، گھریلو پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن اس کی بغلیں اس کی ذاتی ملکیت ہیں ،دانت اس کے اپنے منہ میں اور بال اپنے ہی سر پر دھرے ہیں، ناخن اس کی انگلیوں پر اگے ہیں اور ایڑیاں اس کے پیروں کے ساتھ لگی ہیں۔وہ کم از کم انھیں صاف رکھ سکتی ہے۔نہانے کا فریضہ صرف بعد از جنابت ہی نہیں اس کے علاوہ بھی سرانجام دیا جا سکتا ہے(بدبو دار عورتوں کی سیکس اپیل پر میرے دماغ میں ہمیشہ سوال رہے ہیں لیکن پھر سوچتی ھوں کہ ادھر تو دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی)۔وقت کی کمی دیہاتی عورت کا مسئلہ نہیں اس کے پاس وافر وقت ہے ۔گھر کا جھاڑو پوچا روز کرنا اس کی عادت نہیں ،ایک وقت روٹی تھوپ کر وہ پورا دن وہی روٹی شوہر اولاد اور دیگر گھر والوں کو کھلاتی ہے ۔آپس میں بیٹھ کر گپ شپ لگانے، خاندان اور گاؤں بھر کی چغلیاں کرنے اور دوسروں کی ذاتی زندگی جہنم بنانے کے طریقوں اور اقدامات کے لئے اس کے پاس بہت وقت ہے لیکن پیمپرز اٹھا کر لپیٹ کر رکھنے، باتھ روم دھونے، کچن صاف کرنے کی فرصت البتہ اس کے پاس نہیں کیونکہ یہ سب کام اس کی ترجیحات میں نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔