میرا مال۔۔۔مرزا مدثر نواز

کسی کنجوس امیر کا بیٹا بیمار پڑ گیا۔ اس کے دوستوں اور خیر خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ بیٹے کی تندرستی کے لیے قرآن پاک کا ختم بھی کرا اور مالی صدقہ بھی دے تا کہ یہ بلا ٹل جائے۔ اس نے یہ سنا تو دوستوں سے کہا‘ مجھے تمہاری یہ بات اچھی لگتی ہے کہ قرآن مجید کا ختم کرایا جائے‘ میں ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں میرے مویشی دور ہیں اس لئے ان کا صدقہ نہیں دے سکتا۔ ایک صاحب دل نے اس امیر کی یہ بات سنی تو سمجھ گیا‘ کہنے لگا‘ اس کے لیے قرآن پاک کا ختم اس لیے آسان ہے کہ قرآن تو اسے حفظ ہے قرآن خوانی پر اس کا کچھ خرچ نہ ہو گا ۔رہا سوال صدقے میں جانور ذبح کرنا تو اس میں پیسے خرچ ہوتے ہیں جو اس امیر مگر کنجوس نے خرچ نہیں کرنے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ مالی قربانی مشکل لگتی ہے اور بدنی آسان۔ ایک دینار خرچ کرنا پڑ جائے تو لوگ دلدل میں پھنسے ہوئے گدھے کی مثل بن جاتے ہیں وہ سو بار الحمد پڑھ لیں گے مگر پیسہ خرچ کرنے سے ان کی جان نکلتی ہو گی (حکایتِ سعدیؒ)۔

بخل اساسی بد اخلاقیوں میں سے ہے یعنی ایسی بد اخلاقی جو بہت سی بد اخلاقیوں کی جڑ ہے۔ خیانت‘ بد دیانتی‘ بے مروتی‘ بعض دفعہ بے رحمی‘ بد سلوکی   بھی اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ حرص‘ طمع‘ لالچ‘ تنگ نظری‘ کم ہمتی‘ پست طبعی اور بہت سی برائیاں اسی ایک جڑ کی مختلف شاخیں ہیں۔ اسلام آیا تو جھوٹ کے بعد سب سے پہلے اسی جڑ پر اس نے کلہاڑی ماری اور بھوکوں کو کھلانا‘ ننگوں کو پہنانا‘ محتاجوں کو دینا‘ یتیموں کی خبر گیری اور مقروضوں کی امداد مسلمانوں کا ضروری فرض قرار دیا۔ آپﷺ نے جب حضرت خدیجہؓ کے سامنے جبریلؑ کی آمد کا حال سنایا تو حضرت خدیجہؓ نے آپ کو آپ کی نبوت کا یقین جن دلیلوں کی بناء پر دلایا وہ یہ ہیں ”یا رسول اللہ! آپ قرابت والوں کا حق اور مقروضوں کا قرض ادا کرتے ہیں‘ غریبوں کو سرمایہ دیتے ہیں‘ مہمانوں کو کھلاتے ہیں اور حق کے مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں“۔
بخل  ان بیماریوں میں سے ہے جو درحقیقت اعمال کی جزا و سزا پر دلی اعتقاد نہ رکھنے کا نتیجہ ہیں‘ کیونکہ جو اعمال کی پاداش کا یقین نہیں رکھتا وہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت دوسروں کے حوالے کرنے پر آسانی سے تیار نہیں ہو سکتا۔بخیل اس نکتہ کو بھول جاتا ہے کہ مال و دولت مقصود بالذات چیز نہیں بلکہ وہ صرف چیزوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ سونے چاندی کی اینٹیں خود بخود روٹی‘ کپڑااور مکان کی چہار دیواری نہیں بن سکتیں‘ اس لیے ان کو سمیٹ کر رکھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ان کو ضروری اور اعلیٰ مقاصد  کے حصول میں خرچ کرنا ہی ان کا صحیح مصرف ہے اور یہی اعلیٰ مقاصد ہیں جن کو اللہ نے اپنی راہ کہا ہے‘ جو اس راہ میں خرچ نہیں کرتا وہ اپنے لیے درہم و دینار نہیں جمع کرتا بلکہ اپنے سینہ اور پیشانی کے داغ کا سامان اکٹھا کرتا ہے۔بخیل آدمی دنیا میں بھی طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلوں میں گرفتار رہتا ہے کہ سب کچھ پاس ہونے کے باوجود بھی اس کو نہ اچھا کھانا میسر آتا ہے‘ نہ اچھا پہننا‘ نہ قرینہ کا گھر‘ نہ عزت و آبرو‘ ہر شخص اس کو ذلیل و خوار جانتا ہے‘ ہر ایک اس کے نام سے نفرت کرتا ہے‘ فقراء اس کے لیے بد دعا کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ بیوی بچے جن کے لیے وہ سب کچھ کرتا ہے وہ بھی اس سے خوش نہیں رہتے‘ ہر ایک اس کی دولت کا خواہاں رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح اس خزانے کا یہ سانپ راستے سے ہٹ جائے تو اس پر قبضہ کر لے۔

بخل کی شدت ایمان کو بھی برباد کر دیتی ہے‘ شاید اسی لیے آپﷺ نے فرمایا کہ ”دو خصلتیں سچے مومنوں میں جمع نہیں ہوتیں‘ بخل اور بد خلقی“۔ رسول اللہﷺ جن برائیوں سے بچنے کی اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے ان میں سے ایک بخل بھی ہے‘ فرمایا کرتے تھے کہ ”خداوند میں بخل‘ کسلمندی‘ کبر سنی‘ قبر کے عذاب اور زندگی و موت کی آزمائش سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ بخل صرف ظاہری مال و دولت ہی کے حق   ادا نہ  کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ نے اپنے فضل سے جس کو جو کچھ دیا ہے مثلاََ کسی کو علم دیا ہے‘ کسی کو عقل دی ہے‘ کسی کو جسمانی قوت دی ہے‘ تو جو لوگ اللہ کی ان بخششوں کا حق ادا نہیں کرتے وہ بھی ایک قسم کے بخیل ہیں اور وہ بھی اپنے درجہ کی سزاؤں کے مستحق ہیں‘ جس کو علم ملا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے علم کو پھیلائے اور دوسروں کو بتائے‘ جو ایسا نہیں کرتا وہ علم کا بخیل ہے‘ اسی لئے علم کا چھپانا اور جان کر نہ بتانا گناہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ”اللہ اور رسول کے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے جس نے علم کو سیکھا اور اس کو پھیلایا“ اس لئے لا محالہ جس نے علم رکھ کر علم کے فرض کو انجام نہیں دیا‘ اس کا شمار بخیلوں میں ہو گا۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply