آخر کیوں…زیبا ستار

 اس موضوع پر آپ نے ایک نہیں بے شمار کالم پڑھے ہوں گے  جو یقیناً سب بہترین مصنفین کے ہی ہوں گے۔ آج میں کچھ حقائق کو محسوس کرنے کے بعد،ایک حقیقت آپ کے سامنے لاکر اپنا اولین فرض سمجھ کر اپنا پہلا آرٹیکل لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں  اور امید کرتی ہوں آپ کی توجہ  ان مسائل کی طرف مبذول کر سکوں، جن سب سے ہم آنکھیں پھیرے بیٹھے ہیں۔

میں جس معاشرے کا حصہ ہوں  وہاں لڑکیوں کی تعلیم کے حصول کو اپنے ذاتی کھوکھلے رتبے کا سرطان سمجھا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے سے ان کا رتبہ موت کی کروٹ بدلےگا ۔ علاوہ ازیں دیگر سرگرمیاں جو ایک عورت کو  روز گار فراہم کر سکے،ان میں کڑھائی، سلائی اور پالر جیسے کئی ہنر شامل ہیں،  شجر ممنوع  کی حیثیت رکھتی ہیں۔  یہاں لڑکوں کی تعلیم پر اتنا زور نہیں دیا جاتا،جتنا کہ گھر کی خواتین پر حکمرانی کرنے پر جی جاں کی ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے جبکہ خواتین کو تعلیمی شعور سے دور رکھنے کی نت نئی تدابیر ایجاد کی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کے کند ذہنوں میں کسی ایلفی سی چپکی وہ غلیظ سوچ ہے کہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی ، تو ان پر اپنا تسلط جاری نہیں رکھا جا سکتا اور یوں ان کا  اثرورسوخ برقرار نہیں رہ پاۓ گا۔

یہ معاشرہ جہاں اپنے گھر کی خواتین کو تو چار دیواری میں قید رکھنے کو بہادری اور دیگر خواتین کو تعلیم کا درس دینا اور علمی اہمیت کی تعریف کے پل باندھ کر دنیا میں رہنے کا طریقہ سکھانا اپنا ازلی فرض  سمجھا جاتا ہے۔  دنیا کے لئے وہ شیر و شکر اور اپنے آنگن کے لئے کریلے کا کام سر انجام دیتا ہے اور اپنے ہی گھریلو حقوق سے منہ پھیرے ایک انجان لوگوں کی مانند سر کھجاتے اور چائے کی چسکیاں لیتے تماشائی بنا بیٹھا ہوتا ہے ۔  یہ ہمدردی محض ایک دکھاوا ہے جسے شرافت کے جامے میں چھپایا جاتا ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اپنی خواتین کی عزت کے لئے قتل و غارت تک اتر آتے ہیں ۔ دوسروں کی بہن بیٹی کی ویڈیو اور دیگر معیوب حرکات سے ان کا دامن معاشرے کی غلیظ سوچ کی کیچڑ سے داغ دار کرکے اسے اور کمزور کر دیتا ہے یہ جہالت کے ان اندھیروں کی عکاسی ہے جس میں رہ کر ایک مجبور اور لاچار عورت  کو اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لئے زہر کا پیالہ پینے کے علاوہ اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا جس کا منہ بولتا ثبوت پنجاب کی رہائشی بس  ہوسٹس مہوش ہے جس نے ان غلیظ نظروں کو محسوس کیا اور انکار پر ہوس کے بھڑیے کی گولی کا نشانہ بن گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور بھی کئی ایسے واقعات سے اخبارات کے صفحے بھرے پڑے ہیں۔ میرا آپ سب سے جو یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے ایک سوال ہے ۔۔ کیا ہمارا مذہب عورت کو ان سب چیزوں کی اجازت نہیں دیتا ؟ کیا خواتین عزت و احترام کی مستحق نہیں یا پھر وہ خدا کی بنائی ہوئی تخلیق نہیں یا پھر اسے اس دنیا میں رہنے کا حق نہیں؟ آخر کیوں ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply