• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیلاش کی وادی بریر میں موت کا استقبال کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔سلمٰی اعوان

کیلاش کی وادی بریر میں موت کا استقبال کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔سلمٰی اعوان

پشاور روڈ سے آیون کسی ایسی دُلہن کی طرح نظر آتا ہے جس کا ایک ایک انگ حُسن دلربائی کی تصویر ہو۔ پر جونہی نیچے اُتر کر نقاب کشائی ہوتی ہے تو ایک بھدا بے رونق اُجڑا پُجڑا چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے یوٹرنز کی خطرناک چڑھائیوں اُترائیوں کے بعد بلندی پر گاڑی کے سیدھا ہونے پر وہی دلرباعی دامن دل کو پھر کھینچتی ہے۔
ژوبار چیک پوسٹ سے ریمبور جانے کے لیے ڈرائیور نے گاڑی دائیں ہاتھ موڑ لی۔ راستہ بہت تنگ اور دشوار گزار تھا۔ سیاہ اور براؤن چٹانیں خوفناک تھیں۔ بہت نیچے نالہ ریمبور بہتا تھا۔ چوبی پُل پر کراسنگ کے بعد گاڑی کے سامنے عمودی چڑھائی تھی۔ یہ چڑھائی دہلانے والی تھی یوں کہ دو قدم آگے بڑھتے تو چار قدم پیچھے لڑھکتے۔ چند بار کے اس عمل سے مجھے یوں لگا جیسے تڑپتی اور ہونکتی گاڑی اب نالے میں گر کر ہی دم لے گی۔
میرا اضطراب اور بے چینی ڈرائیور سے پوشیدہ نہ رہ سکی تھی شاید اسی لیے اسکی آواز میں اطمینان تھا اور لہجے میں دلاسا۔
”پریشانی والی بات نہیں یہاں گاڑی کو ریورس کیے بغیر آگے نہیں جایا جا سکتا۔“
درے نما راستے کے بعد آسمان کی کشادگی اور درختوں فصلوں کی ہریالی خوف ودہشت کی گرداب میں ڈولتے ڈوبتے دل کو زندگی کے حسن اور رعنائی کے توانا احساس سے قوت دیتیں۔

” گمبائیک پُل۔  ڈرائیور نے بتایا۔  نالے کے سا تھ راستہ دیکھیے۔“
میں نے آنکھوں کو ممکنہ حد تک پھاڑتے ہوئے اشارہ کردہ سمت کی طرف دیکھنا شروع کیا یہ راستہ اُس جنگل کو جاتا ہے جہاں بہت بڑی چرا گاہ اور کھیت کھلیان ہیں۔ موسم گرما میں کاشتکاری ہوتی ہے۔ یہاں سُرخ رنگ کے پانی کا ایک چشمہ ہے جو پیٹ کی بیماریوں کے لیے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔
پراکالک۔کوٹ دیش۔ بالا دیش۔ اوچھوک گول کے گاؤں گزرتے گئے۔ اور ایک عجیب سا منظر آنکھوں کے سامنے اُبھرتا گیا۔ کالاش مردوزن پیروجواں بچے بالے راستے پر کہیں جتھوں میں کہیں اکا دکا نشیب میں بہتے نالے کی طرح ہوائی فائرنگ کی گھن گرج کے ساتھ چلے جاتے تھے۔
”مرکز میں کوئی  مر گیا ہے۔ موت بھی کسی امیر آدمی کی ہے۔“  ڈرائیور نے مجھے مطلع کیا۔ موت کیسا خوفناک دہشت بھرا اور وجود کی رگ رگ میں کپکپی دوڑانے والا لفظ ہے۔ پر یہاں گاڑی میں اسے سُن کر میرے اندر جیسے مہتابیاں سی چھٹنے لگی تھیں اس لیے کہ نسلی تخلیق کے لیے ملاپ کے بندھن موت خوشی و غمی جیسے فطری عناصر کسی بھی قوم قبیلے کے وضع کردہ رسم ورواج اور طور طریقے اسکے مزاج اور خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔

”چلو اب یہ تو دیکھوں گی ہی۔“
مرکزی وادی گروم میں جب داخلہ ہوا تو سچی بات ہے یوں محسوس ہوا تھا جیسے طبل جنگ بجا ہو۔ ہوائی فائرنگ اور لوگوں کا جم غفیر اوپر پہاڑوں کی طرف رواں دواں تھا۔ کالاش ہوٹل کے سامنے ڈرائیور نے مجھے اُتار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ”موت کا یہ کھیل اب دو تین دن چلے گا۔ اطمینان سے رہیے اور دیکھیے۔“
موت کے اس ہنگامے کو دیکھنے اور اسکے بارے میں جاننے کی شتابی کے ساتھ ساتھ میرے لیے عصر کی نماز کے لیے کسی مسجد کے فرش پر سجدہ کرنا بھی ضروری تھا۔ ہوٹل کے عقبی لان سے ماحول کی دلکشی سے لطف اندوزی کو میں نے کسی دوسرے وقت پر اٹھا دیا اور باہر نکل آئی۔ دریا کے کنار ے اسکا گھر مجھے نظر آگیا تھا۔ میں نے اس نئی زمین پر عاجزانہ عبودیت کے اتھاہ جذبے کے زیر اثر سر جھُکا دیا تھا۔

دریا پر بنے چوبی پُل پر پار سے آتے ایک نوجوان لڑکے کو میں نے روک لیا۔ وادی کی اس ہنگامی حالت پر بات چیت سے معلوم ہوا کہ کالاش قبیلہ مُردے کو اس کی موت کے فوراً بعد چارپائی پر ڈال کر ڈانس ہال لے جاتا ہے۔ گروم گاؤں کے ایک معزز آدمی کا آج گیارہ بجے انتقال ہو گیا ہے۔
میری اوپر جانے کی خواہش پر اُس نے فی الفور چلیے کہہ کر ہاتھ بڑھا دیا۔ شوق کے ہاتھوں پیٹ کا مسئلہ پس پشت چلا گیا۔ حالانکہ اُسوقت بھوک کی شدت سے میری کنپٹیوں میں ٹیسیں سی اُٹھ رہی تھیں۔ بیگ سے بسکٹوں کا پیکٹ نکال کر میں نے بسکٹ کھاتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لیے قدم اُٹھائے۔

کیا عجیب منظر تھا دائیں بائیں آگے پیچھے ڈھول بجاتے ڈانس کرتے ہا ہو کی آوازیں نکالتے زینہ درزینہ چڑھائیوں پر سیاہی سے اٹے پڑے دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کے ساتھ ساتھ تنگ راہوں پر چلتے لوگوں کا ایک ہجوم ندی کے سبک خرا م پانیوں کی طرح بہتا چلا جاتا تھا۔

یقیناً یہ دو سو فٹ کی بلندی تھی۔ فطرت کی گود میں رنگوں کی روشنی میں ہنستا مسکراتا اٹھکھیلیاں کرتا یہ ایک بھریا میلہ تھا۔ پر ذرا آگے ایک حیرت انگیز منظر بھی تھا۔ چارپائی پر ایک میت ستونوں پر مشتمل بے درودیوار چھت والی ایک کشادہ اور ہموار جگہ کے بیچوں بیچ پڑی تھی جسے دیکھنے میں یہاں آئی تھی۔ تین چار عورتیں سرہانے بیٹھیں سر کے کھلے بالوں سے چہرہ ڈھانپے اپنی زبان میں اونچے اونچے کچھ گا رہی تھیں۔ مرنے والے کی بیوی بہوئیں اسکی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔ مجھے معلوم ہوا تھا۔

اب سورج کی نارنجی کرنوں نے ایک اور منظر کا راستہ کھولا۔ دو کالاشی بزرگ ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کلہاڑیوں کے ساتھ مجمع میں سے نکلے آگے بڑھے میت کے قریب آئے اور بلند آواز میں کچھ پڑھنا شروع کیا۔ ہزاروں کا ہجو م د م سادھے کھڑا تھا۔ اُس سمے مجھے اپنا آپ ماضی کی کسی ایسی ٹنل میں محسوس ہوا تھا جہاں وہ رزمیہ شاعری کرنے والا ہومر ایسے ہی ماحول میں کھڑا ٹروجن وار کے بعد یولیسس کے کارناموں اور اسکی دس سالہ طویل مسافتوں کی داستان گا رہا ہو۔

اس سین کا کلائمکس اسوقت ہوا جب انہوں نے اپنی کلہاڑیاں میت کے وسط میں لا کر ٹکرائیں۔ اس زوردار ٹکراؤ کی ٹک گویا وہ صور اسرافیل تھی کہ جس نے فطرت کے نظاروں میں گھرے اس کشادہ قطعہ پر کھڑے لوگوں کو یوں مہمیز کیا کہ ان کی خاموش زبانیں اوراجسام اسطرح متحرک ہوئے کہ سیٹیوں کے ساتھ ایک ایسا زوردار ڈانس شروع ہوا کہ لگا جیسے کائنات اب کسی تندوتیز بگولے میں تحلیل ہو کر فضا میں پھیتی پھیتی ہو کر بکھر جائے گی۔ اس جگہ کے ساتھ ایک خستہ حال عمارت تھی۔ سردیوں کا ڈانسنگ ہال جس کے ستونوں پر بکرے کے نقش ونگار تھے۔

جب ڈھول کی ڈھم ڈھم کانوں کے پردے پھاڑتی تھی۔ جب گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور سنسناہٹ رگوں میں خون کو منجمند کرتی تھی اورجب حسیناؤں کے پُرے رقص بسمل میں مگن تھے میرا گائیڈ مجھے مہاندیو کی زیارت کی دعوت دیتا تھا۔ سامنے والی پہاڑی پر بڑے سے پتھر کے سائے تلے چار دیواری میں مہاندیو رہتا ہے۔ میں نے دیکھا راستہ تنگ بھی تھا اور دشوار گزار بھی وقت کی کمی بھی پیش نظر تھی۔ یہاں گھوڑوں کے چوبی سروں والے مجسمے ہوں گے جا بجا دیودار کی ٹہنیاں خون کے چھینٹے جلتی آگ یا شاید راکھ ہو۔ قربان گاہ میں یہی سب کچھ ہوتا ہے نا۔ میں نے استفہامیہ انداز میں اُسے دیکھا تھا۔ میری انتڑیاں اُسوقت بھوک کی شدت سے بلبلا رہی تھیں۔ اُترائی کی دشواری بھی سامنے تھی۔

اُترتے سمے میری حالت اُس دلہن جیسی تھی جس نے بالشت بھر اونچی ایڑی کا جوتا اور زمین پرلُٹنیاں لیتا شرارہ پہنا ہو اور جو پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی ہو اس ڈر سے کہ کہیں لڑھک لڑھکا کر تمسخر کا باعث نہ بن جائے مجھے تمسخر کا نہیں ہڈی جوڑ کے اناڑیوں کے پاس پہنچنے کا ڈر تھا۔ گورڈن کالج راولپنڈی کے چند طلبہ کی ہرنی کی طرح چوکڑیاں بھرنے کی ادائیں دیکھ کر ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا یاد آیا تھا۔

ہوٹل میں لوبیا کا بد مزہ سا سالن تھا۔ اکڑی ہوئی روٹی تھی۔ شکوہ کرنے پر سُننے کو ملا تھا۔ آرڈر دے کر جانا تھا۔ اور اگر مُفتے کی مقامی ذائقہ دار چیزیں کھانی تھیں تو اوپر ٹھہرنا تھا۔ جش (چربی میں بنایا ہوا نمکین حلوہ) اور اُبلا ہوا گوشت ملتا۔جش نیچے کے حلووں ولووں اور اُبلا گوشت روسٹ کے سواد کو بھُلا دیتا۔
پیاز اور ٹماٹر کے سلاد کے ساتھ جو ملا اُسے غنیمت جان کر آہستہ آہستہ چبا کر حلق سے اُتارتے ہوئے میں نے لڑکے کو سُنا۔ تین دن یہمیلہ چلے گا۔ پنیر گوشت چاول منوں کے حساب سے اُڑے گا۔ کالاش موج میلے والا مذہب ہے۔ کھاؤ پیو موج اُڑاؤ اس کا سلوگن ہے۔ لڑکا ہنستا تھا۔ اور میری معلومات میں اضافہ بھی کرتا جاتا تھا۔

”یہ امیر آدمی ہے اب اسکی اولاد اسکا چوبی مجسمہ بنا کر کسی جگہ گاڑ دے گی۔ “
متاثرین میں بیو ہ کی نسبت بیچارے رنڈوے کی حالت زا رزیادہ قابل رحم جاننے کو ملی۔ چلو بیو ہ پانچ ماہ تک اپنے برتن بھانڈے ہی الگ کرتی ہے پر مرد کو تو شوم (لکڑیاں رکھنے کی جگہ) میں رہنا پڑتا ہے۔ روٹیاں کیچ کروانے کے اندا ز میں پھینکی جاتی ہیں۔ غریب پانچ ماہ تک چھوتوں جیسی  زندگی گزارتا ہے۔ یہ انداز سوگوار خاندان سے محبت کا اظہار ہے۔

اوپر ڈھول بجتا تھا۔ لالٹینیں جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی تھیں۔ اور رقص جاری تھا۔ میں نے نیند کی چادر اوڑھی اور پربتوں کی ان رنگ رنگیلی شہزادیوں کے ساتھ انجانے دیسوں کی طرف روانہ ہو گئی۔
صبح کی آنکھ میں بانکپن تھا۔ ایک جادوئی کیفیت تھی جو کشاں کشاں کھینچ کر مجھے سحر زدہ انسان کی طرح دریائے ریمبور کے پار لے گئی جہاں درختوں کے جھنڈ وں میں دو منزلہ سہ منزلہ چوبی گھر تھے۔ بوڑھی عورتیں بچے کھیت کھلیان اور وادی کا اکلوتا بجلی گھر تھا۔سورج کی چڑھائی کے ساتھ ساتھ میری چلنے کی رفتار بھی جاری تھی۔ تھوڑا سا آگے بڑھتی تو خود کو ایک نئے منظر کے حسین حصار میں پاتی۔ ایسے میں مجھے وہ لازوال شاعر یاد آیا تھا۔ ”ورڈزورتھ“ جسکی حُسن فطرت پر بے مثال نظمیں اسکی میلوں لمبی پیدل سیروں کے تجربات ومشاہدات کا نتیجہ تھیں۔ دریائے ریمبور کی روانیاں شاید Derwent کی روانیوں سے لگانہ کھاتی ہوں اور Grasmere کے پہاڑوں کی شان بان ریمبور کے پہاڑوں جیسی نہ ہو۔ پر یہ سرسبز چراگاہیں یہ پھیلے جنگل بھیڑ بکریاں چراتے چرواہے۔ آسمان کی وسعتوں میں مقید یہ دلربا منظر کاش میں شاعر ہوتی۔
اور جب میں واپس آ رہی تھی میں نے اُسے دیکھاتھا اور دیکھ کر ٹھٹھکی تھی۔ ورڈزورتھ نے یہ شعر ایسی ہی کسی نازنین کے لیے کہا ہو گا۔
She was a phantom of delight
When she gleamed upon my sight

مقامی تھی پر سر تا پامنفرد۔ اسکے انداز دیدمیں خود نمائی اور اپنے ہونے کا بھرپور اظہار تھا۔
یہ اقلاس تھی۔ کافرستان کی پہلی میٹرک پاس لڑکی جو بعد میں پائلٹ کے طور پر بھی مشہور ہوئی۔ اسکے لباس پر نہ بوسیدگی تھی اور نہ پرانا پن۔ سر کے بالوں کی مینڈھیاں خوبصورت اور تازہ گندھی ہوئی تھیں۔ ٹوپی میں مُرغ زریں کے نئے نکور پر چمکتے تھے۔
پھر اُس نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور اپنے گھر لے گئی۔ اُسکا دو منزلہ گھر بولتا تھاکہ اس کا سربراہ بالائی چراگاہوں کی زمینوں جنگلوں کے قیمتی درختوں اور بے شمار بھیڑ بکریوں کا مالک ہے پربشٹارہ خان یہ سب نہیں بولتا تھا۔ یوں ڈھائی پسلی کیبشٹارہ خان کو جسکی اندر کو دھنسی آنکھیں گال اور سانولی رنگت دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ مہکتے تروتازہ گلاب جیسے چہرے والی طرحدار لڑکی ایسے بے سرے آدمی کی بیٹی ہے۔ وہ اوپر سے تھوڑی دیر قبل آیا تھا۔ شہری ناشتہ۔ بسکٹ اور چائے پیش ہوئی پھر وہ مجھے ایکو سے ملانے لے گئی۔

ایکو جلانے کے لیے لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر لاتی ہے۔ فصلوں کی بوائی اور کٹائی میں حصہ لیتی ہے۔ بھیڑ بکریاں چراتی اور کھانا پکاتی ہے۔ ایکو کو ہمارے رسم ورواج اور کلچر سے عشق ہے۔ اور وہ انکی ادائیگی جذب سے کرتی ہے۔ وادی گروم کی سڑک پر چلتے اور اس مہ لقا کی باتیں سنتے ہوئے مجھے موپساں کی کہانیاں یاد آئی تھیں جنکے کردار متنوع بڑے منفرد اور انسانی نفسیات کے گُنجلک رویوں کے بہترین عکاس ہوتے ہیں۔
کیا ایکو بھی ایک ایسا ہی کردار ہے؟ میرا اپنے آپ سے استفسار تھا۔

نچلی منزل کے مویشی خانے اور گودام سے گزر کر دوسری منزل کی چند چوبی سیڑھیاں چڑھ کر میں صحن میں آ کھڑی ہوئی۔ کھلی انگنائی سے بڑے کمرے میں داخلہ ہوا۔ وہی مانوس سے منظر دھوئیں سے سیاہ دیواریں اور چھت چارپائیوں پر بکھرے جُلھے گھودیلے۔ گندے مندے برتن بھانڈے جلتی آگ اور راکھ کا ڈھیر۔ دُنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملک جاپان کی ایکو کالاشی لباس کے سب لوازمات سے سجی سنوری کہیں نقطہ آغاز کی پر اسرار غاروں والے زمانے کے دہانے پر کھڑی اپنے طباق سے چہرے پر بکھری مسکراہٹ لیے بندے کو سوچوں اور حیرتوں کی گھمن گھیریوں میں ڈالتی تھی۔ دو دنیاؤں کا تضاد ذہن پر ضربیں لگاتا تھا۔ اسکا شوہر عام سا کالاشی جوان اور عمر میں اس سے چھوٹا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایکو میری ذہنی دیواروں پر چمٹ گئی تھی۔ ”پُکھ نہ ویکھے سالنا تے عشق نہ پُچھے ذات تے نیند نے ستھرملیا جتھے پہ گئی رات“ والی مثالیں سب ٹھیک۔ پر بھوک نیند اور عشق لوازمات کے بغیر کتنے دن چلتی ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply