پنشن اور رسہ کشی۔۔۔مدثر سلیم میاں

تایا ستار، پاء سلیم شیخ،انکل دلدار،عبدالغفار نعیم اور میاں سلیم شاکر صاحبان ہیں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ۔روائتی تیزی طراری سے انجان،ہر کسی کے لئے مہربان۔ پنشن کے مسائل سے پریشان ۔

قارئین کرام! آپ کو اطلاع دیتا چلوں کہ  یہ وہ سرکاری ملازمین ہیں جنہوں نے سکیل 1تا 15 تک کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے میں رزق حلال کماتے ہوئے زندگی گزار دی۔دورانِ ملازمت دو وقت پیٹ بھر کے کھانا بھی نصیب نہ ہو سکا۔بعد از ریٹائرمنٹ پنشن اتنی “منی” سی طے ہوئی کہ بے چاری “بدنام” ہوتے ہوتے رہ گئی۔ جس میں حتیٰ المقدورحصہ صرف موجودہ وزیر جرمانہ( جسے مشکل الفاظ میں وزیر خزانہ بھی کہتے ہیں)کی تصویر پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

آپ تصور کریں کہ آپ کسی گھرمیں بیٹی،بیٹے،بہن،بھائی،والد یا والدہ ،بہو، داماد، ساس، سسر، چچا، چچی،پھوپھا، پھو پھی کی” آسامی” پر” تعینات” ہیں۔آپ اس گھر میں بیس، پچیس یا تیس سال تک گزار تے ہیں۔پھر آپ کی سروس کا دورانیہ مکمل ہو جاتا ہے۔ آپ ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔جیسے ہی آپ ریٹائر ہوتے ہیں۔آ پ کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔وہی دفتر یا گھر جہاں آپ کے اشارے کے بنا ہوا کو بھی داخل ہونے کی مجال نہ تھی۔۔آپ کے سگے بیٹے بیٹیاں آپ کے ساتھ سلوک میں فرق رکھنا شروع کر دیں گے۔وہی بہو جو ایک ہفتہ قبل آپ کے لئے دو روٹیوں کو دیسی گھی لگا کر دیا کرتی تھی۔اب ڈیڑھ روٹی کو گھی لگا کر آپ کو کھانے کیلئے دے گی۔
آپ اپنی پنشن بنوانے کے لیے اپنے ہی دفتر کے چکر لگا لگا کر مزید ضعیف ہو جائیں گے۔لیکن متعلقہ ” کلر ک اور صاحب” کی با لترتیب “وائف” اور “Mrs” کو ہی آرام نہیں آئے گا کہ کہیں یہ حضرات دفتر میں بیٹھ کر آپ کی پنشن بنانے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔رہی سہی کسر اس وقت نکل جائے گی۔اگر ریٹائر ہونے والا گھر کا واحد کفیل بھی ہو اوربد قسمتی سے ریٹائر ہونے سے چند دن پہلے ہی اللہ کو پیارا ہو جائے۔جاتے ہوئے اپنے لواحقین میں سے ایک بھی فرد ایسا نہ چھو ڑ سکے جو بعد میں پنشن کے کاغذات ہی تیار کر سکے۔بیوہ بے چاری کبھی کسی کی منت کرے گی۔کبھی کسی کے پاوں پکڑے گی کہ اس ناہنجار زندگی کی روانی کیلئے دنیا چھوڑ کے جانے والے کی پنشن ہی اپنے نام منتقل ہو جائے۔کسی بھی ٹاون میونسپل ایڈمنسٹریشن کا ملازم ہونے کی حیثیت میں فوت ہونے والوں کو خبردار کیا جا تا ہے کہ و ہ فوت ہونے سے قبل اپنے پسماندگان کو “اکاونٹ برانچ” آڈٹ برانچ” ٹی او آر آفس کے کلرک اور نائب قا صدان سمیت تما م عملہ کی “خدمت” کرنے کے لئے پیسے دیے بغیر” ہر گز نہ مریں”۔ اس صورت میں ان کا پنشن کیس “فنڈز” نا ہونے کی وجہ سے تا خیر کا شکار ہو سکتا ہے۔مرنے والا مر گیا اور اپنے ورثاء اور دفتر کے ساتھیوں کے درمیان رسہ کشی کا آغاز کر گیا کہ اس کے بعد اس کی باقیات کا وارث کون ہو گا؟ ورثاء کا خیال ہوتا ہے کہ کیونکہ ان کے گھر کا فرد ان کو چھو ڑ کر ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے اس لئے اس کی باقیات پر ان کا حق ہے۔جبکہ ادارے والے یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ یہ صا حب جاتے ہو ئے ہمارے ساتھ کام کرتے تھے اس لئے ان کی باقیات کے بھی ہم ہی “لا وارث” ہیں۔

ادارے کا عملہ ورثاء کو کانوں میں سرگوشیاں کر کے بتائے گا ” میں کام کر دوں گا، آپ اپنی خوشی سے مجھے جو مر ضی دے دیجئے گا”۔ ان نا عاقبت اندیشوں کو خدا کی لاٹھی کب بے آوازی سے آکر سبق سکھائے گی؟کب اس ملک میں ایسا زمانہ آئے گا جب ریٹائر ہونے والے ملازمین خواہ سرکاری ہیں یا نجی،ان کے ادا رے انھیں فوری طور پر واجبات ادا کریں۔کب ایسا قانون بنے گا کہ ریٹائر ہونے والے ملازمین کو در در کے دھکے نہیں کھانے پڑیں گے ہر سال ہونے والے اضافے خود بخود ان کی پنشن میں لگا دیے جا ئیں گے۔ کب ایسا نظام نافذ ہو گا کہ پسے ہوئے سفید پوش طبقے کوخواری سے بچانے کے اقدامات کیے جا ئیں گے؟کب یہ دستور بدلے گا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس؟کہاں سے وہ آہنی ڈنڈا “نازل” ہوگا جو ارضِ پاک میں پلنے والے اس ناسور کے سر”وغیرہ”پر برسے گااور مثال عبرت قائم کرے گا۔آج حالات یہ ہیں کہ بزرگانِ پنشن کسی محمد بن قاسم کی راہ دیکھ رہے ہیں جوان مظلوموں کے منہ سے نوالے چھیننے والے افسران کی سرکوبی کر سکے۔جو ان لوگوں کو کم از کم اتنی پنشن دلا سکے جس سے یہ لوگ دو وقت کی روٹی تو پیٹ بھر کر کھا سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے تو بروزِ قیامت مجھ سے پو چھ گچھ ہو گی۔جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہان کا خیال ہے کہ اگر انھوں نے کسی کو زندہ چھوڑ دیا توان سے سوال جواب ہو گا۔پاکستان کے حکمرانوں کی حرکات اس شعر کے شاعر سے مرغا بن کے معافی مانگ کر کچھ اس طر ح سے گزارش کر رہی ہیں کہ
دنیا اتے رکھ فقیرا
ایسا بہن کھلون
ٹر جا ویں تے سارے ہسن
کول بہویں تے رون۔

Facebook Comments

Muddassir Saleem Mian
مدثر سلیم میاں۔ مختلف قومی اخبارات اور مکالمہ کے لئے کالم نگاری کرتے ہیں نیز ڈیجیٹل جرنلزم کے ریسرچ فیلو ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply