ادھورا علم اور ففتھ کالم

جمہوریت کی کرسی کے چار پائے (Four Columns of Democracy) حکومت, عدلیہ, فوج اور صحافت بلا کم وکاست سبھی لوگ مانتے اور انہی سے بہتری کی امید رکھتے ہیں۔قابل غور اور قابل توجہ بات سبھی جمہوریت پسندوں اور جمہوریت و شہریت کے طالبعلموں کے لیئے یہ ہے کہ فوج جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔فوج آئین کی اتنی ہی پابند اور ذمہ دار ہے جتنی حکومت, عدلیہ اور صحافت آئین کی پابند اور ذمہ دار ہوتی ہے۔آئین میں کوئی ادارہ یا ایوان کسی دوسرے پر فوقیت تب تک نہیں رکھتا جب تک کوئی ادارہ یا ایوان آئین کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ففتھ کالم یا پانچواں پایا وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور بعض اوقات اس کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اگر مستقل ففتھ کالم ہم عوام کو فرض کرلیں تو یہی وہ اہم پایا ہے جو منتخب نمائندوں کو حکومت میں لانے کا باعث بنتا ہے اور اسی کے پاس یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ ان نمائندوں کا بمع فوج, عدلیہ اور صحافت کے احتساب کر سکیں یا بنیادی معلومات تک آئین کے مطابق رسائی لے سکیں۔
اب بات کرتے ہیں ڈان لیکس پر فوج کا بلخصوص تاریخ میں پہلی دفعہ اتنا ٹھنڈا موقف کسی جمہوری اور عوامی حکومت کی سنگین غلطی پر اور ساتھ ہی جمہوری عمل پر اعتماد کا اظہار کرنے کا اصل سبب کیا ہے؟کیا فوج نے حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے؟کیا فوج کو عوام کے انتخاب پر شکوک و شبہات رکھنے کا کوئی آئینی حق حاصل ہے؟کیا آئین فوج کو جمہوریت کے چار کالمز میں برتر درجہ دیتا ہے؟کیا فوج حکومت سے کسی بھی طرح کا احتساب کرنے کا آئینی جواز اور حق رکھتی ہے؟کیا فوج داخلہ و خارجہ سیاسی امور میں مداخلت کا حق ماسوائے حکومتی رٹ کے قائم کرنے کے لیئے حکومت کی درخواست پر رکھتی ہے؟کیا آرمی چیف خود سے کوئی جنگ یا آپریشن بغیر حکومتی سرپرستی اور حکم کے شروع کرنے کے مجاز ہیں؟کوئی بھی قانون فوج کو حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی اجازت دیتا ہے؟کیا آئین میں ایسی کوئی شق موجود ہے کہ فوج اپنے فیصلے عوام کی منشاء اور پسند کے مطابق کرنے کی پابند ہے؟کیا فوج کا کام بس لڑنا مرنا ہی ہوتا ہے, خواہ لڑائی سرحدوں کی حفاظت کی ہو یا سیاسی رسہ کشی کی؟کیا کوئی بھی قانون آرمی چیف کو وزیراعظم یا صدر سے برتر قرار دیتا ہے؟اوپر موجود سبھی سوالوں کا جواب بغیر کسی حیل و حجت کے نہ میں ہے۔
جس کسی کو ذرا بھی شک ہو وہ سیاست اور جمہوریت کا چیمپئن بننے سے پہلے ذرا لگے ہاتھ ایک ہرے رنگ کی موٹی سی کتاب پڑھے جس کو سبھی بہت مقدم اور مقدس مانتے ہیں اور اس کا نام ہے آئینِ پاکستان (Constitution of Pakistan)۔اور ڈان لیکس میں جو ہوا اس کے پختہ ثبوت بھی ملے لیکن ایک بات سب بھول گئے کہ یہ لیکس خالصتاًٍ کسی عسکری ادارے کی عمارت اور ملاقات کے نہیں تھے۔اس کا ذمہ دار کوئی فوجی نہیں تھا۔اس کی ذمہ داری فوج پر عائد نہیں ہوتی۔آئین کے مطابق ہر ادارے اور شخصیت کا پروٹوکول الگ نوعیت کا ہوتا ہے اور ہر پروٹوکول مہیا کرنے والے افراد اور ادارے الگ کوڈ آف کنڈکٹ رکھتے ہیں۔چونکہ یہ لیکس کسی خالص فوجی ملاقات اور عمارت سے نہیں ہوئے اور ان کا منتظم کوئی فوجی نہیں تھا تو فوج مکمل انکوائری اور حتمی فیصلے یا سزا کا اختیار بھی نہیں رکھتی تھی سوائے اس کے کہ حکومت فوج سے اس پر مداخلت کا کہتی۔حکومت کو احساس بہت دیر سے ہوا خاص کر فوجی قیادت کی ناراضگی کے بعد مگر ہاں احساس ہوا اور یہی فوج چاہتی تھی۔اگر فوج کا مطمع نظر حکومت کو الٹنا یا کوئی سیاسی سٹنٹ کرنا ہوتا تو فوج باضابطہ احتجاج ریکارڈ نہ کرواتی بلکہ براہ راست کوئی بھی ایکشن لیتی اور اس کا کم سے کم ایکشن اور کچھ نہیں بلکہ فوج کی نگرانی میں آزاد انکوائری ہوتی اور اس انکوائری کی رو سے مجرم یا ملزم کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوتا۔
لیکن نہیں چونکہ لیکس کا تعلق سول حکومت و انتظامیہ سے تھا اور فوج بس اس کا ایک فریق تھی تو انکوائری کا حق اور فرض دونوں حکومت کی سول انتظامیہ کےپاس ہی محفوظ تھا۔بس فوج نے حکومت کو پریشر بنا کر اس فرض کی ادائیگی پر مجبور کیا۔حکومت نے لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے کافی عرصہ لگا کر انکوائری رپورٹ مرتب کی اور اس کی چند نامکمل اور مبہم سفارشات کے ساتھ فوج کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس پر فوج نے عدم اعتماد اور مزید تسلی کی ڈیمانڈ رکھی۔کیونکہ فوج نے عدم اعتماد کا اظہار سوشل میڈیا کے ایک سرکاری اکاؤنٹ کی ٹوئیٹ سے کیا تو حکومت اور فوج میں مزید تلخی اور عوام میں بےچینی کا پایا جانا ایک فطری سی بات تھی۔اب کل کی پریس کانفرنس سے پہلے جو معاملات ادھورے تھے ان کو مکمل کیا گیا اور فوج کو جو تحفظات تھے وہ باہمی رضا مندی سے دور کیے گئے تو فوج جیسے بااخلاق ادارے نے یہ بہتر سمجھا کہ عوام کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور حکومت کا مورال بھی بڑھایا جائے، تو فوج نے سابقہ بیان کو موجودہ بہتر صورتحال کے پیش نظر غیر موثر قرار دیا اور فوج کا حکومت پر اعتماد بحال کیا۔
اب بات کرتے ہیں ان جمہوری قوتوں کی اور ان کے چاہنے والوں کی، جو ڈان لیکس کو شروع دن سے کوئی بہت بڑا بریک تھرو سمجھ رہے تھے اور یہ امید لگا کر بیٹھے تھے کہ فوج اس حکومت کو آئینی مدت پوری کیے بغیر گھر کا راستہ دکھائے گی یا فوج کو ایسا کرنا چاہیئے تھا ان جمہوری قوتوں کی خوشی کے لیے تو افسوس عوام کو ان کا کردار مشکوک لگنا ایک فطری سی بات ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ اگر حزب اختلاف کی چند سیاسی مقبول و معروف اور جمہوریت نواز پارٹیاں ہر مسئلے کے حل کے لیے فوج کی مکلف ہیں یا فوج کو وہ جمہوریت کے چار کالمز میں سے ایک کے بجائے ففتھ کالم اور حکومت پر برتر سمجھ کر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں تو پھر وہ جمہوریت نوازی اور جمہوریت پسندی کا ڈھونگ کیوں کر رہی ہیں؟کھل کر مارشل لاء کی تحریک کیوں نہیں چلاتیں اور اپنے لوگوں کو کیوں جمہوری ٹرک کی بتی کے پیچھے بھگا بھگا کر ہلکان کررہی ہیں؟کل سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے کہ فوج نے غلط فیصلہ کیا۔۔۔۔فوج پنجاب پولیس بن گئی ہے،فوج بک گئی ہے،فوج مک مکا کر گئی ہے،اور بھی پتہ نہیں کیسی کیسی بے سروپا باتیں اور تبصرے گردش کررہے ہیں۔
ہر دو لفظ لکھنے پڑھنے والا سوشل میڈیا پر دانشور،سیاسی مبصر اور تجزیہ نگار بنا ہوا ہے۔ ۔۔ا ن کے لیے مشوہ ہے کہ بھائی پہلے پاکستان کا آئین پڑھ لو اور بنیادی نقاط اور قوانین جان لو پھر چاہے جیسے تبصرے کرو۔ورنہ ادھورے علم کے ذریعے شر پھیلانے سے باز رہو۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply