عقلمند کسان

ہم کاروباری معاملات میں بہت عقلمند اور منصوبہ ساز لوگ ہیں، چاہے ہمارا تعلق زمینداری سے ہو یا سرمایہ کاری سے, کسی چھوٹے دکاندار سے ہو یا بزنس ٹائیکون سے. ہمارا عقلمند کسان جب کوئی فصل کاشت کرتا ہے تو سب سے پہلے کسی ایسی فصل کا انتخاب کرتا ہے جس کی مارکیٹ میں اچھی ڈیمانڈ ہو, آسانی سے بک جائے اور منافع بخش بھی ہو. صرف اسی فصل کا انتخاب کرتا ہے جس کے لئے موسم بھی سازگار ہو اور علاقہ بھی مثلاً بارانی علاقے میں چاول نہیں لگاتا کہ پانی پورا نہیں کر سکتا. پھر بہترین بیج کا انتخاب کرتا ہے, پانی کا بندوبست دیکھتا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے کہ کب وہ بیج بو یا جائے. بیج ڈال دینے کے بعد مقررہ وقت پر کھادیں اور کیڑے مار ادویات ڈالتا ہے, وقت کا تعین کر کے فصل کو پانی دیتا ہے. غرض یہ کہ اس سارے عرصے میں کسان غافل نہیں ہوتا بلکہ بہت احتیاط اور منصوبہ بندی سے کام لیتا ہے اور پھر اللہ پر توکل کر کے اپنی محنت کا بہترین صلہ مانگتا ہے، جو الحمدللہ اسے ہر سال ملتا بھی ہے.
بالکل اسی طرح ایک سرمایہ دار بھی سرمایہ کاری سے قبل بے شمار امور کا جائزہ لیتا ہے.ملکی حالات, روپے کی قدر, مقام کا تعین, پراڈکٹ کا انتخاب و معیار اور منڈی کی طلب سمیت بہت سی چیزوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے. اس کے بعد ہی پیسہ لگاتا ہے اور اللہ سے مدد طلب کرتا ہے. ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک غریب ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے کاروباری گروپس تک ہر شخص یا کمپنی مکمل تحقیق اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتے ہیں حالانکہ سب کا ایمان ہے کہ رزق دینے کا وعدہ اللہ نے کیا ہے. فصل سے بہتر منافع حاصل کرنا اللہ کی دین ہے کاروبار کی کامیابی یا ناکامی مکمل طور پر خدا کے ہاتھ میں ہے اس کے باوجود انسان اپنی طرف سے پوری عقل لڑاتا ہے, پوری کوشش کرتا ہے اور اس کے بعد ہی اللہ سے مدد کی امید رکھتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اور فصل کے بیچ انسانی عقل کو بھی رکھا گیا ہے اور نتائج کا ایک بڑا حصہ اسی عقل پر انحصار کرتا ہے. اگر ضروری منصوبہ بندی کے بغیر اور غفلت کے ساتھ ہی کام کئے جائیں تو پھر خدا سے مدد کا طالب ہونا بھی فضول ہے.
اب دوسری طرف آئیے. یہی کسان یا دکاندار جب اولاد پیدا کرتا ہے تو کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کرتا. اپنے معاشی حالات, بیوی کی صحت, بچوں کا معیار زندگی اور تعلیمی اخراجات سمیت کسی چیز پر غور نہیں کرتا. کسی سوجھ بوجھ اور معاملہ فہمی کے بغیر ہی کثیر اولاد کا باپ بن جاتا ہے. پہلے سے موجود غربت مزید بڑھ جاتی ہے, بیوی کی صحت گر جاتی ہے, بچے ادھ ننگے گھومتے ہیں, تعلیم و تربیت کا شدید فقدان پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ مزید ناکارہ افراد اپنے اندر سمو لینے پر مجبور ہوتا ہے. چھ چھ بچوں کا غریب باپ اگر اپنی استطاعت اور سہولت کے مطابق اولاد پیدا کرے اور چھ کی بجائے دو یا تین بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کر دے تو معاشرہ اس کا احسان مند رہے لیکن ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ چار چار بچے پہلے سے موجود رہے ہوتے ہیں اور پھر بھی ہر سال نئے ماڈل کی آمد کا سلسلہ زور شور سے جاری رہتا ہے. اور نتیجتاً کبھی وہ اپنے چار بچے بیچنے پر مجبور ہوتا ہے تو کبھی ماں چھ بچوں کو زہر دے رہی ہوتی ہے لیکن اس بارے میں سوچ سمجھ اور منصوبہ بندی کرنے پر کوئی تیار نہیں ہوتا. چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میانہ روی اختیار کرنے کا حکم بھی اسی زمرے میں قبول کیا جا سکتا ہے. کیوں کہ اس کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے اور فرد پر ہوتا ہے. ہمارا یقین ہے کہ بے شک اللہ تعالی ہی سب کو رزق دینے والا ہے, ہم اپنی ذات کے لئے بھی اللہ کے محتاج ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش کے لئے بھی لیکن حقیقتا ً اولاد بھی ایک فصل ہے جس کا بیج انسان خود رکھتا ہے اور یہاں بھی رب نے اپنے اور اولاد کے بیچ انسان کی عقل و منصوبہ بندی کو فیصلہ ساز بنا رکھا ہے. اسی عقل سے کام لینے کے بعد خدا سے مدد طلب کرنا مسلمان کا طریقہ کار ہے.

Facebook Comments

احمد عمیر اختر
مکالمہ کو دنیا کے تمام مسائل کا حل اور گولی, گالی کو مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply