الحاد اور جاوید احمد غامدی

استاذ پر جب الحاد کے فروغ کا الزام لگتا ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ ان حضرات کی عقل کا ماتم کروں جن کے نزدیک استاذ کی فکر الحاد کو فروغ دے رہی ہے۔ مفتی منیب الرحمنٰ ایک نہایت عمدہ عالم دین ہیں، ہم عصر علماء کی ایک دوسرے کی فکر اور تعبیر پر ایسی گفتگو نامناسب ہے۔ یعنی آپ دیکھئیے آپ کس کمال سے کوتوال کو ڈانٹ رہے ہیں اور کس ڈھٹائی سے اپنا جرم چھپا رہے ہیں۔
چلئے پہلے اصولی بات کئے دیتے ہیں۔ جب آپکو کسی پر کسی الزام کو ثابت کرنا ہوتا ہے تو بتانا ہوتا ہے کہ فلاں چیز سے متاثر ہو کر الحاد کی طرف لوگ بڑھ رہے ہیں۔ یعنی آپ بتائیں کہ غامدی صاحب نوجوانوں کے سوالات کے تسلی بخش جوابات کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ الحاد پھیل رہا ہے۔ یا آپ یہ بتا دیجئے کہ وہ نبیﷺ کو دین کا تنہا ماخذ مانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ الحاد پھیل رہا ہے۔ یا پھر وہ سنت کو دوسرے علماء سے مختلف دلائل سے مانتے ہیں اسلئے الحاد پھیل رہا ہے۔ یہ سوالات تو آپکے سر رہے۔ آگے بڑھتے ہیں۔
اندازہ کیجئے، روایتی فکر، بیانیہ اور شدت پسندی سے اکتایا نوجوان جب سائنس اور دوسرے علوم سے آشنا ہوتا ہے اور اس پر اسلام سے متعلق اسکے اشکالات کو ہوا ملتی ہے۔ اور مسجد میں بیٹھا روایتی مولوی اسے بتاتا ہے کہ بیٹا سائنس تو قرآن سے اخذ شدہ ہے۔ اور ارتقاء تو قرآن کے خلاف ہے، یا ان سوالات سے بیٹا تو مرتد ہوگیا ہے۔ اسکے بعد یا تو وہ خوف سے ایمان کی حالت میں باقی رہتا ہے یا پھر وہ الحاد کے راستے پر نکل لیتا ہے۔ (میں ایاز نظامی کا نام لونگا تو بہت سے برا مان جائینگے)۔
تو یہ آپکے نزدیک الحاد کو ہرگز فروغ دینا نہیں ہے۔ بلکہ الحاد کو فروغ دینا تو یہ ہے کہ غامدی صاحب اپنی تمام تر مجبوریوں اور تکالیف کو پس پشت ڈال کر، سائنس، مذہب، فلسفہ اور ان تمام دلائل سے ان اشکالات کو دور کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے حضرات کے رویہ جات سے پید اہوتے ہیں تو انکی فکر الحاد کو فروغ دے رہی ہے۔ پیٹ لیجئے، آپ بھی اپنا سرپیٹ لیجئے!

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply