حکمت یار کی واپسی

حکمت یار کی واپسی
آصف محمود
گلبدین حکمت یار منظر عام پر آ گئے۔ نوید دی جا رہی ہے: یہ مسیحا ہے جو بیس سال بعد منظر پر طلوع ہوا ہے،اب سارے دکھ دور ہو جائیں گے اور اسلامی انقلاب کا سورج تو بس اب کابل کے اس پار سے طلوع ہوا ہی چاہتا ہے۔
میں بھی اس’ مرد مجاہد‘ کے قصیدے لکھتالیکن کیا کروں میرا تعلق اس نسل سے ہے جو اپنی سادہ لوحی کا تاوان برسوں پہلے ادا کر چکی جب سوویت یونین کے چلے جانے کے بعد یہ ’ مجاہد رہنما‘ کابل کو کھنڈر بنا رہے تھے اور سماج کو قبرستان۔ان لوگوں نے سرحد کے اس پارہوس اقتدار میں نسلیں تباہ کر دیں اور ہم یہاں گلبدین حکمت یار کے تصویری سٹیکرز کتابوں پر لگا کر فخر کرتے رہے جن پر کلاشنکوف کے سائے میں لکھا ہوتا تھا" اسلامی انقلاب کا راستہ اب کوئی نہیں روک سکتا"۔یہ وہ دور تھا جب ہمارے مذہبی سیاسی رہنما کابل جاتے اور کندھے سے لٹکتی کلاشنکوف والی ان کی تصاویر اخبارات کی زینت بنتیں تو محسوس ہوتا دنیا فتح ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی ہیں۔
آج وہ دن یاد آ رہے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں پاکستان میں جیسا بھی تھالولی لنگڑی جمہوریت اور ایک آئینی ڈھانچہ موجود تھاجس نے ہمارے ہاں انتقال اقتدار کے عمل کو ایسے جنگجوؤں سے محفوظ رکھا جو ہوس اقتدار میں اپنے ہی سماج کو یوں برباد کر دیں کہ دنیا انہیں ’ کابل کا قصاب‘ کہنے لگے اوریہ بیس سال بعد واپس لوٹیں تو ندامت کا کوئی ایک قطرہ ان کے ماتھے پر نہ ہو اورسرخ قالین پر اس بانکپن سے چل رہے ہوں جیسے نجات دہندہ ہوں۔
وقت کا موسم کیسے بدلتا ہےٍ ، آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ایک وقت وہ تھا جب خانہ جنگی جاری تھی اورنیویارک ٹائمز کے صحافی ٹم وینر سے گلبدین نے کہا ’’ہم پندرہ لاکھ جانیں قربان کر چکے ہیں اور اسلامی انقلاب کے لیے مزید پندرہ لاکھ جانیں قربان کر سکتے ہیں‘‘۔مزاج کی سفاکیت پرذرا غور فرمائیے ، پندرہ لاکھ جانیں۔اور یہ اسلامی انقلاب تھا کیا؟سروبی اور میرانشاہ کے اس پار خوست میں ان کے مراکز میں اس کی وضاحت یوں ہوتی تھی: ’’ ربانی بھاگ جائے گا،انقلاب آئے گا۔خون رنگ لائے گا،انقلاب آئے گا‘‘.
چنانچہ گلبدین حکمتیار اور احمد شاہ مسعود اپنا اپنا انقلاب لاتے رہے اور افغانوں کے پھول سے بچے اور پریوں سی معصوم بیٹیاں ہمارے ہاں سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر سے ان موسموں میں رزق تلاش کرتے رہے جو کابل کے کسی گھر کے آنگن میں بیٹھ کر گڑیا سے کھیلنے کے موسم تھے ۔فرغانہ کی وادیوں میں کسی باغ میں جھولے ڈالنے کے زمانے انہوں نے اسلام آباد کی سڑکوں پر ہماری گاڑیوں کی سکرینیں صاف کرتے گزار دیے۔یہاں لوگوں نے اپنے بچے امریکہ سے پڑھا لیے اورانہیں پارلیمان میں لا بٹھایا لیکن غریب کے بچے کو مقتل میں بھیج کرقتل گاہوں کو رومانوی رنگ دے دیا گیا۔قائد اب وہ نہیں تھا جو لوگوں کے لیے عافیت تلاش کرتا بلکہ اس کا تعین اس بات سے ہونے لگاکہ کس کے پرچم تلے زیادہ لاشے پڑے ہیں۔بے بصیرتی کا نیا نام شجاعت تھا۔چنانچہ جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے ۔
وقت بدلا تویہی حکمت یار جو اپنے ’’اسلامی انقلاب ‘‘ کے لیے پندرہ لاکھ انسانوں کو کفن پہنانے کے لیے تیار تھے، اجلی پوشاک پہن کر اشرف غنی سے آن ملے۔یہی کرنا تھا تو اس کے لیے نسلیں برباد کرانے کی کیا ضرورت تھی؟اسی’’ بالغ نظری‘‘کا مظاہرہ احمد شاہ مسعود کے ساتھ معاملہ کر کے کیا جاتا تو افغانستان کا معاشرہ تو تباہ نہ ہوتا۔جو کچھ آج اشرف غنی انہیں دے رہے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ احمد شاہ مسعود اس سے بہت زیادہ انہیں دینے پر رضامند تھے۔معاہدہ پشاور سب نے قبول کر لیا تھا سوائے گلبدین حکمت یار کے جنہوں نے کابل پر توپخانے کا منہ کھول دیا ۔نہتے لوگ مرتے رہے اور شہر اجڑ گیا۔گلبدین کو وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی گئی لیکن تب انہیں وہ بھی قبول نہ تھی۔تب وہ افغانستان کے بلا شرکت غیرے حکمران بننا چاہتے تھے۔احمد شاہ مسعود نے انہیں دعوت دی کہ مل بیٹھ کر بات کریں۔ انہوں نے جواب دیا، مشاورت نہیں یہ میری شمشیر برہنہ ہے جو فیصلہ کرے گی ۔اسامہ بن لادن نے بھی گلبدین سے درخواست کی کہ احمد شاہ مسعود اور دیگر سے معاملہ کر لیں لیکن شمشیر برہنہ کو اس وقت نیام میں جانا پسند نہ تھا۔
پاکستان میں البتہ وہ نیک نام رہے اور اس کی وجوہات ہیں۔جماعت اسلامی کی شکل میں ایک ’’وزارت اطلاعات ‘‘ ان کے امیج بلڈنگ کے لیے موجود تھی ،اور افغان حکومتوں کے روایتی پاکستان مخالف رویوں کی وجہ سے تنگ ہماری حکومتیں بھی ان کی شکل میں ایک دوست دیکھ رہی تھیں۔چنانچہ دنیا جسے ’ کابل کا قصاب‘ کہتی رہی وہ یہاں ’قائد انقلاب‘ سمجھا جاتا رہا۔
وقت کے تھپیڑے سب کو سمجھا دیتے ہیں اس سے کیا غلطی ہوئی ۔اچھا ہوا حکمت یار بھی سمجھ گئے لیکن کتنا؟ میڈیا اب بھی ان کی نظر میں غدار ہے۔لہجے کی تہذیب اب بھی نہیں ہو سکی ،مدبرانہ تحمل کی بجائے اس میں جنگجو کی سی شدت ہے۔شہروں کو کھنڈر بنا دینے والا جنگجو میڈیا کو غدار قرار دے رہا ہے۔سیاسی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ جس حکمران کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے انہیں راستہ دیا اور جس حکمران نے سرخ قالین بچھا کر استقبال کرتے ہوئے سیاست میں انہیں خوش آمدید کہا انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں اسی کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایاکہ پاکستان اور ایران افغانستان میں مداخلت بند کر دیں۔بجا فرمایا لیکن آدمی سوچتا ہے کہ برائے وزن بیت ہی سہی بھارت کا بھی نام لے لیا ہوتا۔افغانستان سے ہونے والی مداخلت پر بھی دو لفظ بول دیے ہوتے۔
وقت نے حکمت یار کو تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔سوال یہ ہے کیا ہم بھی کچھ سوچنے پر تیار ہیں؟کیاہم اپنے انقلاب اور قیادت کے تصورپر نظر ثانی کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟دشمن تو ہمارا خون بہا ہی رہا ہے کیا ہم خود اپنی جان کی حرمت کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟کیا آج بھی ہمارا قائد وہی ہو گا جس کی جہالت اور بے بصیرتی مسلمان گروہوں کو خانہ جنگی کا شکار کر دے اور شہر تباہ اور مقتل آباد ہو جائیں؟کیا اب بھی قیادت کی عظمت کا تعین اس بات سے ہو گا کہ قائد محترم کے جھنڈے تلے کتنے لاکھ لوگ قربان ہو چکے؟درست کہ جنگ مسلط ہو جائے تو بہادری سے لڑنی چاہیے لیکن کیا یہ بھی بہادری ہے کہ باہم لڑتے رہیں اور مسلمان معاشروں کو میدان جنگ بنائے رکھیں اور انہیں سکھ کا سانس نہ لینے دیں؟سواالات کا ایک دفتر کھلا ہے اگر ہم غور فرما سکیں۔یاد رکھیے وقت کا موسم بدل رہا ہے اور اب افغانستان کا ایک سو روپیہ اب پاکستان کے ایک سو ستر روپوں کے برابر ہے۔
’’عمر جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے‘‘
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply