اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حجاب پر پابندی

اسلامی جمہوریہ پاکستانمیں حجاب پر پابندی
تنویر احمد
خبر یہ ہے کہ ’’پاکستان نرسنگ کونسل کی اکیڈمک کمیٹی نے حفاظتی وسیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نرسز کےحجاب پہننے پر پابندی کی سفارش کی تھی جس کی بنیاد پرملک بھر میں نرسنگ اسکول وکالجز میں طالبات پر دورانِ ڈیوٹی حجاب پہننے پرپابندی لگا دی گئی ۔‘‘ اور شنیدیہ ہےکہ بیرونی ڈونرزکو خوش کرنے کیلئے یہ اقدام کیاگیا۔
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘میں حجاب پر پابندی کی خبر ہی ایسی کہ ہرمحبِ وطن پاکستانی مسلمان کے دل کو ٹھیس پہنچنا لازمی امر ہے ۔کیونکہ وطنِ عزیز کو علیحدہ ریاست بنانے کی تحریک کے پیچھے یہی جذبہ کار فرما تھا کہ مسلمانوں کیلئے ایک ایسی ریاست ہونی چاہئے جہاں وہ اسلامی تعلیمات پرمکمل آزادی کیساتھ عمل پیرا ہوسکیں۔آج حجاب پر پابندی کا فیصلہ نا صرف تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں ان اجڑے اوربچھڑے ہوئے خاندانوں، لٹتی عصمتوں ،اورلاکھوں بے گناہوں کے خون اور انکی لازوال قربانیوں کیساتھ مذاق اور پاکستان سے وابستہ ان کی آرزؤں کا خون ہے۔بلکہ عالمی طور پر’’بنیادی حقوق کی آزادی‘‘کےنعرہ کی بھی دھجیاں اڑادی گئیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ ہی عرصہ قبل جب حجاب پہننے پر اضافی پانچ نمبر دینے کی سفارش کی گئی تھی توخود ساختہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہےتھے۔اس کے خلاف درجنوں کالم نگاروں نے بیسوں صفحات کالے کئے۔۔
میڈیا ٹاک شوز میں اس’’ ہارٹ ایشو ‘‘کو بڑے اہتمام کے ساتھ اچھالا گیا ۔اور آصفہ بھٹو صاحبہ کاطنزسے بھرپورٹویٹ بھی نیوز چینلز پرگردش کرتا نظرآیا۔وہاں توحجاب پہننے کی محض ترغیب تھی جس پر اتنا طوفان کھڑا کردیا گیاتھاجبکہ یہاں ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی حرمت وتقدس کےضامن ’’ حجاب‘‘کو اتار نے کی منصوبہ بندی ہونے لگی ہے۔اوریہ فیصلہ زبردستی ’’ مسلط‘‘ کیا جارہا ہے لیکن’’ آزادی ‘‘کے علمبرداروں کےایوانوں میں سناٹا چھایا ہواہے۔شایدانکے قلم کی سیاہی خشک ہوگئی ہے کہ کچھ لکھ نہیں پائے۔یا ہاتھوں کی انگلیاں فالج زدہ ہوگئیں ہیں کہ کچھ ٹائپ بھی نہیں کرسکے۔نیوزچینلز کو ’’پانامہ کے پاجامہ ‘‘ کی سلائی سے فرصت ملے گی تو اس مسئلہ پر کوئی ٹاک شو کریں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ جس طرح کچھ دہشگرد وطنِ عزیز کی جغرافیائی سرحدوں پر حملہ آور ہیں تو دوسری طرف بعض (بقولِ عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صاحب کے) ’’دہتشگرد‘‘ عناصر ملک کی نظریاتی سرحدوں کومنہدم کرنے میں منہمک ہیں۔دہشتگردی کو مذہب سے جوڑکراسلام کو بدنام کرنا ،توہینِ رسالت کے قانون میں چھیڑ چھاڑ کیلئے راستے ہموار کرنا،اور سوشل میڈیا پر محسنِ انسانیت ﷺ کی ذاتِ ارفع کو نیچا دکھانے کی ناکام کوششیں اسی سلسلے کی مربوط کڑیاں ہیں۔مسرت اس بات پر ضرور ہے کہ وطنِ عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کی رکھوالی کیلئے پاک فوج ہمہ تن گوش مصروف عمل ہے اور کامیابیاں سمیٹ رہی ہے (اللہ پاک کامیابیوں کایہ سلسلہ دراز کرے )۔لیکن افسوس اورحیرت اس پرہے مملکتِ خداد ادکی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کمزور دکیوں اورکیسے پڑ گیا ؟یہ محاذ خالی کیوں چھوڑا گیا؟نظریاتی سرحدوں کی رکھوالی آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ اس سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟
سوال یہ ہے کہ کیا وطنِ عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی اہمیت اس کی جغرافیائی سرحدوں سے کم ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دھرتی یا زمین اپنی ذات میں کوئی فضلیت یا مقام نہیں رکھتی ۔عربی کا مقولہ ہے ’’شرفُ المكانِ بالمکینِ‘‘جسے غالب نے کہا کہ ’’ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد‘‘ وگرنہ زمین تو ساری دنیا کی ایک ہی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ زمین کے ہر خطے کے مکینوں کے مکینوں نےاپنی لسانی ،ماحولیاتی یامذہبی شناخت کے پیشِ نظر اسکے مختلف حصوں کے مخصوص نام رکھ دئیے ۔ چنانچہ افغانی بولنے والوں نے افغانستان ،چینی زبان والوں نے چائنہ،ہندومت کے پیروکاروں نے ہندوستان کا نام تجویز کیا (علی ہذا القیاس)۔تو زمین کے یہ حصے انہیں ناموں سے پہچانے اور پکارے جانے لگے۔جب مملکتِ خداد ادکےقیام کی تحریک شروع ہوئی تو بانیانِ تحریک نے اپنی لسانی یادیگر شناختوں سے قطعِ نظر کرتے ہوئے،جس نظریہ کے تحت الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا، اسی نظریہ کو سامنے رکھ کرزمین کے اس ٹکڑے کیلئے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘کا نام تجویز کیا گیا ۔
جو اس بات پر دالّ ہے کہ اس کی خمیر اسلامی بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے۔اس کے آئین میں اسلامی روح ڈال دی گئی اور 73ء کا آئین واضح طور پر بتاتا ہےکہ’’ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو‘‘۔اب اگر پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں سے اس کی نظریاتی شناخت چھین لی جائے تو پھر محض جغرافیہ کے لحاظ سے اس سرزمین کی شناخت تو رہے گی لیکن روح کے بغیر مردہ جسم کی طرح۔ اور یہ قیامِ پاکستان کی لازوال قربانیوں کو رائیگاں کرنے کے مترادف ہوگا۔یہی اس دشمن کی خواہش ہے جو وطنِ عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کو کھل کر نشانہ بناتے ہیں ۔ یہاں بھی وہ نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا دیکھنا چاہتاہے۔
’’73ء کے آئین کے تناظر میں‘‘اب حکومت کیلئے کرنے کا کام یہ ہے کہ آئینی تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اس فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے ملک کے آئینی ادارہ’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘یا مستند دارالافتاؤں سے مسئلے کی شرعی حیثیت معلوم کی جائے کہ سیکیورٹی اور حفاظتی اقدامات کے پیشِ نظر حجاب پر پابندی عائد کرنا شرعاً کس حد تک درست ہے؟ (اور جن بنیادوں پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے،اس کی دستاویزات بھی منسلک کی جائیں کہ واقعۃً حجاب سےسیکیورٹی اور حفاظتی اقدامات متاثر ہورہے ہیں یا دیگر مفادات ) ۔شرعی حیثیت معلوم ہوجانے کے بعد اس کی آئینی اور قانونی حیثیت بھی واضح ہوجائے گی ۔جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ کرنا آسان ہوگا۔پھر اللہ اللہ خیر صلا۔

Facebook Comments

تنویر احمد
سچامسلمان بننے کی کوشش کررہا ہوں اسلئےسچائی کا ساتھ دینا پسند ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply