ہم جنس پرستی اور ٹرانس جنڈر تحریک کی جدلیات

اگر کوئی خبر بار بار، کثرت سے اور نمایاں طور پر پیش کی جاتی تو دیکھنے سننے اور پڑھنے والے عوام اُس خبر کو واقعتاً اہم سمجھ لیتے ہیں. یہی مین سٹریم میڈیا کا کردار ہوتا ہے. میکس میک کومبز اور ڈونالڈ شا نے 1968ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ایجنڈا سٹنگ تھیوری پیش کی تھی جس کا مرکزی مدعا بھی یہی تھا کہ کیسے مین سٹریم میڈیا عوام کی ذہن سازی میں کردار ادا کرتا ہے. والٹر لپ مین نے 1922ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “پبلک اوپینین”میں بھی ہوبہو یہ بات لکھی تھی کہ دنیا میں ہونے والے معاملات کے بارے رائے عامہ کی تیاری میں ذ رائع ابلاغ کا کردار حتمی ہوتا ہے. مشہور دانشور نوم چومسکی کے مطابق زرائع ابلاغ کی بڑی بڑی کارپوریشن ہی دنیا بھر میں رائے عامہ کی تشکیل کی راہ متعین کرتی ہیں، علاوہ ازیں ذرائع ابلاغ کے چھوٹے ادارے بھی بڑے اداروں کی روش اپناتے ہیں۔
مذکورہ بالا پیراگراف میرا موضوع نہیں ہے مگر تمہید ضرور ہے جو موضوع کی گھمبیر پرتوں کو سلجھانے میں کردار ادا کرے گی۔ لبرل دنیا اور اُس کے سرمایہ دار آقا ،ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈرز (مخنث) کے مساوی انسانی حقوق کیلئے قانون سازیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں. بڑی بڑی چکا چوند روشنیوں میں نہائی ہوئی کانفرنسیں ہوتی ہیں، کمال تخلیقی عمل سے گزر کر دماغ کو دنگ کرنے والی ڈاکومنٹریاں بنائی جاتی ہیں اور نجانے کیا کچھ دکھاوا ہوتا ہے۔ مگر مین سٹریم میڈیا کو ملاحظہ فرمائیں کہ ہم جنس پرستوں اور مخنثوں کی بدحال زندگیوں کی کتنی خبریں ہیں جو بریک کی جاتی ہیں.
“امریکن سول لبرٹیز یونین”گزشتہ ایک صدی سے LGBT افراد کے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہی ہے، اِسی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی پچاس میں سے 31 ریاستوں میں LGBT افراد کو ملازمت میں مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں. امریکہ کے ایک دوسرے صحافتی ادارے “مائک” کے مطابق امریکہ کی 29 ریاستوں میں صرف جنسی خدوخال کی بنیاد پہ کسی کو بھی ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے، یعنی اُنکو ملازمت کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے. یہاں تک کہ ہسپتالوں، سینما اور ہوٹلوں میں بھی ایسے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے. حتی کہ لبرل دنیا کے آقا امریکہ میں ہم جنس پرستوں اور مخنثوں سے خون کا عطیہ لینے پر بھی ریاستی پابندی عائد ہے. مذکورہ رپورٹ ہی کے مطابق 82 فیصد امریکی ہم جنس پرست اور مخنث سماجی بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ 32 فیصد جسمانی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی دسمبر 2016ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے تمام تعلیمی اداروں میں LGBT افراد کے خلاف تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور اِن افراد کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ امریکہ کے قومی اتحاد برائے تشدد مخالف پروگرامز کے مطابق سالانہ بیس سے زائد LGBT افراد صرف جنسی خدوخال کی بنیاد پر قتل کیے جاتے ہیں. جبکہ ایف بی آئی کے مطابق رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پہ ہونے والے کُل جرائم میں سے 21 فیصد جنسیت کی بنیاد پہ ہونے والے جرائم ہیں. امریکہ میں ایسے افراد کے خلاف ہونے والی خبروں کا اظہار اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ امریکہ آج دنیا بھر میں انسانی حقوق اور LGBT افراد کے معاملہ پہ دنیا بھر چمپئن بنا پھرتا ہے، مگر مین سٹریم میڈیا ایسی تمام خبروں اور رپورٹوں سے خالی ہے کیونکہ عوام کے سامنے یہی ظاہر کرنا ہے کہ امریکہ جنت نظیر ہے۔
برازیل LGBT افراد کے استحصال بارے پوری دنیا میں بدنام ترین ملک ہے، جبکہ کینیڈا کی یہی صورت حال ہے. پوری دنیا میں LGBT افراد استحصال کا شکار ہیں. گذشتہ دنوں سعودی عرب میں دو پاکستانی مخنثوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا. مگر مین سٹریم میڈیا خاموش۔۔ اسی طرح ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایسے افراد کے خلاف ہونے والا استحصال بہت شدید ہے. مگر مین سٹریم میڈیا سیاست دانوں کے بیہودہ بیانات اور ٹاک شوز سے گندگی کے ڈھیر کا روپ دھار چکا ہے. پوری دنیا میں LGBT افراد سماجی تنہائی، بیگانگی اور شدید غربت کا شکار ہیں. مگر مین سٹریم میڈیا خاموش ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لبرل دنیا کے سرمایہ دار آقا اِس معاملے پہ صرف اور صرف لفاظی تک محدود ہیں تاکہ اقتدار “جاری”رہے۔
ہم جنس پرست اور مخنث افراد باقی انسانوں کی نسبت زیادہ غربت، بدنامی اور پسماندگی کا شکار ہیں. باقی انسانوں کی نسبت LGBT افراد زیادہ جنسی استحصال کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق آدھے سے زائد ایسے افراد جنسی استحصال کا سامنا کرتے ہیں. جبکہ دنیا بھر میں آدھے سے زائد LGBT افراد جسمانی تشدد کو بھی برداشت کرتے ہیں. ایسے طبقہ کے وہ افراد جو اپنے خلاف ہونے والے استحصال بارے پولیس سے رابطہ کرتے ہیں اُن کی 15 فیصد تعداد پولیس کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہو جاتی ہے. جبکہ اِس طبقہ کے وہ لوگ جو استحصال سے بچنے کیلئے کوئی “شیلٹر ہوم”تلاش کرتے ہیں تو اُن میں سے 22 فیصد افراد شیلٹر ہوم کے سٹاف کے ہاتھوں ہی جنسی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر بحرانوں کا شکار ہے. ہر ملک کے حکمران طبقات اس تنزل پذیر نظام کی بجائے عوامی جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد سے لوگوں کی توجہ کو ہٹانے کے لئے قربانی کے بکرے تلاش کرتے ہیں. جیسے فیمینزم کی جھوٹی تحریک شروع کرکے انسانی جدوجہد کو مرد و زن میں تقسیم کیا گیا. جیسے CLASH OF CIVILIZATION کی جھوٹی تھیوری کے ذریعے انسانوں کو مذاہب کی بنیاد پہ تقسیم کیا گیا ہے. بالکل اُسی طرح حکمران اشرافیہ محنت کش اور استحصال زدہ عوام کے اتحاد کو تقسیم کرنے کے لئے”تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی اپنی پالیسی جاری رکھے گی. جیسے مین سٹریم میڈیا کے ذریعے انسانی آبادی کو رنگ، نسل، جنس اور مذہب کی بنیاد پہ تقسیم کیا گیا، ایسے ہی اب جنسی خدوخال کی بنیاد پہ انسانی آبادی کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔
مجھے یہاں یہ بحث نہیں کرنی کہ ہم جنس پرستی اور مخنث انسانی فطرت ہے یا غیرفطری ہے. مجھے اِس بحث کا حصہ نہیں بننا کہ مذاہب، ثقافتیں اور ملکی ضابطے کیا کہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ. کیا دنیا میں ہر 100 میں 1 بچہ مبہم جنس کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا؟ اُن کیلیے انسانی ضابطہ کیا ہونا چاہیے؟ جو بچہ اِس دنیا میں ایسے پیدا ہوا جس کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مرد ہے یا عورت ہے، کیا اُس بچے کیساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے جس سلوک کی جھلکیاں مذکورہ بالا پیراگرافوں میں بیان کی گئی ہیں؟ یا پھر پوری دنیا اِس فیصلے پہ متفق ہو جائے کہ ایسے بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا چاہیے جیسے عرب میں اسلام سے قبل لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جنس پرست اور مخنث کس طرح اپنے حقوق، حقیقی آزادی اور مساوات کے حصول کی تحریک کو موثر بنا سکتے ہیں؟ کیا اِس تحریک کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑا جا سکتا ہے؟ آج محنت کش عوام کو سرمایہ داروں کے خلاف سب سے زیادہ “اتحاد”کی ضرورت ہے اور LGBT تحریک کو محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے. ہمیں سیالکوٹ میں ایک مخنث پہ ہونے والے تشدد کی مثال کو ہی سمجھ لینا چاہیے۔ایک طرف معاشی طاقتور انسان یا اُس انسان کا ایک کارکن ہے جبکہ دوسری طرف ایک معاشی کمزور اور سماجی تنہائی کا شکار مخنث ہے، کون ہے جو کسی طاقتور کو کسی کمزور پہ ظلم کرنے سے روک سکتا ہو؟ اِس کا بہترین حل یہ ہے کہ نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے معاشی طاقتوں کا خاتمہ کیا جائے، تاکہ کوئی معاشی طاقتور کسی معاشی کمزور کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے کا سوچ ہی نہ سکے۔
تعصب سے پاک اور مساوات پہ مبنی سماج کی مکمل ضمانت صرف کمیونسٹ نظام ہی دے سکتا ہے۔ کمیونزم انسانوں کو تقسیم کرنے کی ضرورت ہی ختم کر دیتا ہے اور ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کیلیے مثبت ماحول فراہم کرتا ہے. چونکہ کمیونزم انسانوں کو کسی بھی بنیاد پہ تقسیم کرنے کی ضرورت ہی کا خاتمہ کرتا ہے تو ملازمتوں، خوراک، لباس، رہائش، صحت کی دیکھ بھال، نقل و حمل، ریٹائرمنٹ کے فوائد اور دیگر چیزوں کی تقسیم میں کسی بھی قسم کی تخصیص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔کمیونزم کے تحت ریاستی و مذہبی جبر کے بغیر افراد اپنی جنس و جنسیت کو سمجھنے کے معاملے میں مکمل آزاد ہوں گے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں تو باقی ہر شے کی طرح جنس بھی ایک قابلِ خرید و فروخت چیز ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی جبر اور کئی دوسرے سماجی اقدار افراد کے بیچ تعلق پہ اثرانداز ہوتے ہیں، لیکن کمیونسٹ سماج میں لوگ معاشی بندشوں اور سماجی روک تھام سے بالا ہو کر آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ باہمی رضامندی اور پسندیدگی کی بنیاد پہ تعاملات منتخب کریں گے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں لوگ مختلف اعلیٰ و ادنی ٰطبقات میں تقسیم ہوتے ہیں، جبکہ کمیونسٹ سماج میں تمام طبقات اور تمام مراتب کا خاتمہ ہو جاتا ہے، صرف ایک مرتبہ باقی رہ جاتا ہے. اور وہ مرتبہ انسان ہونے کا ہے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply