میاں صاحب !کیا آپ نے استعفیٰ دیا تھا؟۔۔۔سید شاہد عباس

نیب کے ادارے کو اس کے قیام سے ہی غیر اعلانیہ طور پر ہر آنے والی سیاسی جماعت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے پہ پر تولتی رہی ۔ اور اس بات میں شک کرنا دن میں خواب دیکھنے سا ہی ہو سکتا ہے کہ سیاستدان اپنے خلاف تحقیقات کے لیے کسی شخص کو خود اختیارات دیں گے۔ پاکستان کے عدالتی نظام اور احتساب کے اداروں میں جب تک تعیناتیاں سیاستدانوں کی مشاورت سے ہوتی رہیں گی تب تک ہم کیسے یہ توقع بھی رکھ سکتے ہیں کہ کسی سیاستدان تک کی کرپشن پہ کھل کے پکڑ کی جا سکے گی، فوج ، بیوروکریسی، خدمات عامہ کے اداروں کا احتساب تو بہت بعد کی بات ہے۔
نیب نے ایک اعلامیہ، پریس ریلیز، یا اطلاعاتی نوٹس جاری کیا۔ جس میں میاں محمد نواز شریف کے منی لانڈرنگ کے حوالے سے مبینہ اطلاعات تھیں۔ شاید یہ اطلاعات نظر انداز ہو جاتیں لیکن اس میں جب ہمسایہ ملک کا نام آیا تو معاملہ عام نہ رہا۔ یہ معاملہ سالوں پہلے کا ہے یا نیا ہے، اس بات سے قطع نظر نیب کو اس پورے معاملے کی نہ صرف خاموشی سے تحقیق کرنی چاہیے تھی بلکہ خاطر خواہ ثبوت اکھٹے کرنے کے بعد معاملہ میڈیا کی زینت بنایا جاتا تو جتنا شور آج ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا۔ لیکن وقت سے پہلے میڈیا پہ ایک ایسی بحث چھیڑ دی گئی کہ میاں صاحب کے پاس انتخابی مہم کے لیے ایک ٹھوس نقطہ آ چکا ہے۔ لیکن اس نقطے میں دم خم اتنا نہیں ہو سکتا کہ اس ایک نقطے کی وجہ سے پورے ادارے کا کام ہی ٹھپ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی جائے یا اسی ایک معاملے سے خود کو فرشتہ ثابت کر دیا جائے۔ نیب نے اس معاملے کو میڈیا کی زینت بنا کے یقیناً غلطی کی، اور سونے پہ سہاگہ اسی غلطی کی وضاحت تھی۔ اداروں کو کیا لگے وضاحتوں کو کیا لگے، میڈیا میں خبروں کو کیا لگے۔ ادارے تو خاموشی سے اپنا آپ اپنے کام سے ثابت کرتے ہیں۔

اب میاں صاحب کا مطالبہ ملاحظہ کیجیے، کہ ثبوت دو ورنہ استعفیٰ دو۔ نہ جانے پاکستانی قوم کو میاں صاحب کے ایسے مطالبات پہ ہنسی کیوں نہیں آتی اور وہ اُن کے ساتھ مل کر جذباتی نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان صاحب نے بھی تو میاں صاحب سے یہی کہا تھا کہ فیصلہ مانیے، اور اگلے انتخابات کی تیاری کیجیے، مگر میاں صاحب نے مجھے کیوں نکالا کی فیچر فلم ایسی شروع کی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ اور عرض اتنی سی ہے کہ آپ نے لندن پراپرٹی، ایون فیلڈ، سعودی عرب سے براستہ قطر دوبئی و برطانیہ میں نہ جانے کتنے اثاثے بنا لیے، آپ نے پاکستان اسٹیل ملز کا بیڑہ غرق کر دیا مگر سعودی عرب میں آپ کی ہل میٹلز ترقی کے زینے طے کر رہی ہے، اور آپ نے کیوں اثاثے چھپانے پہ ، اقامہ چھپانے پہ استعفیٰ خود سے نہیں دیا؟ آپ کے خیر خواہ تو آپ کو محاذ آرائی سے بچنے کا مشورہ بھی دے رہے تھے۔ تو آپ ایک اتنے اہم اِدارے کے سربراہ سے ایک غلطی پہ استعفیٰ طلب کرنے کا کیا اخلاقی جواز بھی رکھتے ہیں؟ آپ سے توعدالت نے زبردستی استعفیٰ دلوایا ہے، نا اہلیت کی تلوار چلا کے۔ تو آپ یہ گماں بھی کیسے کر رہے ہیں کہ آپ کے کہنے پہ کسی کو استعفیٰ دینا چاہیے؟ جو کام آپ خود نہیں کر سکے اُس کی توقع دوسروں سے کیسے رکھ چکے ہیں؟

چیئرمین نیب کا تقرر اپوزیشن و حکومت کے باہمی مشورے سے ہوتا ہے۔ اور جسٹس(ر) جاوید اقبال کا تقرر بھی مشاورت سے ہوا۔ تقرری کے دوران تو آپ کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا اور اگر نیب کی غلطی پہ بھی جائیے تو آپ ہی کا تقرر کردہ انسان کیا یک دم سے اِتنا برا ہو گیا کہ ایک غلطی سے ہی اس کی ٹانگیں آپ نے کھینچنا شروع کر دیں؟ آپ نے تو آخری دم تک معافی تو دور اپنی غلطیوں کا اقرار تک نہیں کیا۔ پورے سفرِجی ٹی روڈ میں واویلا بھی جاری رہا۔ اور آپ کس اخلاقی دائرے میں چیئرمین نیب سے استعفیٰ مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ آپ ہی کے مشورے سے لگایا گیا شخص اگر کرپشن پہ پردہ پوشی کرئے تو وہ ٹھیک اور شو مئی قسمت اگر وہ میرٹ پہ کام کرنا شروع کر دے تو تھو تھو؟ کیا یہ آپ کا دوہرا معیار نہیں ہے؟ کیا اخلاقی لحاظ سے کوئی ایسا ضابطہ ہے جس میں آپ کا یہ مطالبہ آتا ہو؟ آج چیئرمین نیب استعفیٰ دے دیں، کل کو چیف جسٹس آف پاکستان سے عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہہ دیا جائے گا اس بات کی ضمانت تو شاید آپ نہیں دیں گے؟ اور کل کلاں کسی اور ادارے کے سربراہ سے استعفیٰ نہیں مانگا جائے گا کہ جناب ہم نے کہہ دیا تو آپ بس استعفیٰ دیں؟ یہ تو انوکھا لاڈلہ ہو گیا نہ جو کھیلن کو مانگے چاند؟

Advertisements
julia rana solicitors london

غلطی نیب کی ہے۔ معاملات میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ خاموشی سے آگے بڑھتے ہیں۔ مگر کیا یہ غلطی ایسی ہے کہ اس پہ ایک ادارے کا سربراہ استعفیٰ دے جائے؟ وہ بھی ایک ایسی ہستی کے مطالبے پر جس کا استعفیٰ خود اُس نے غیر ظاہر شدہ اثاثوں پہ خود اُس نے نہیں دیا بلکہ عدالتی حکم پہ نااہلیت کے بعد لیا گیا۔ حیرت ہے نعرے لگانے والوں پہ۔ اور اندازہ لگائیے پاکستان کا وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اندر ایک ایسے ادارے کے سربراہ پہ تنقید کے نشتر برسا رہا ہے جو ایک ایسے شخص کے خلاف مصروف عمل ہے جو اب ایوان کا حصہ بھی نہیں۔ میاں صاحب کی نااہلیت چھوڑیے، وہ نہ تو ایوان کا حصہ ہیں، نہ ہی اب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، نہ ہی کوئی عوامی عہدہ ہے ان کے پاس، پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا منتخب وزیر اعظم کس حیثیت میں نیب کے بیان پہ میاں صاحب کی حمایت میں پوری تقریر کر رہا ہے؟ کٹھ پتلی ہونا الگ بات ہے، عہدے سے وفا الگ بات ہے۔ کچھ تو خیال کیجیے، کچھ تو اپنے مقام کا احساس کیجیے، سیاسی وفاداریوں میں، شخصیات کی پیروی میں اس حد تک آگے نہ بڑھیے کہ آپ بونے لگنے لگیں۔۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply