ہمارا عدالتی نظام۔۔مشتاق خان

عدلیہ آج کل اتنی مشہور ہے کے جن خوش قسمت لوگوں کو عدلیہ کے پاس جانے کا اتفاق نہیں  ہوا وہ چیف جسٹس صاحب کی ہر ہر ادا پر سر دھن رہے ہیں تو میں نے سوچا آج اپنے مجرم دوست کے ساتھ عدلیہ کے ساتھ ایک دن گزارا جائے اور اس کا احوال اپنے پاکستانی بھائیوں کو بتا کے ثواب ہی کما لوں.
میرے دوست کا نام مائیکل ہے۔ یہ پاکستانی مائیکل ہے ہمارے محلہ میں سرکاری خاکروب ہے اور نسل در نسل اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ مائیکل کی آج پیشی ہے اس کو ہر کچھ ہفتوں کے بعد نشہ کرنے اور بیچنے کے جرم میں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور اگلے دن اس کی ضمانت ہوجاتی ہے، اس پر اب تک دو درجن سے زیادہ کیس رجسٹر ہو چکے ہیں اور اس کا نشہ کرنے پیسے مانگنے کے بعد تیسرا کام عدالتوں میں پیشیاں بھگتنا ہے.
کیونکہ میں عدالت کی سیر سمجھ بوجھ کو بڑھانےکے لئے کرنا چاہ رہا تھا تو مائیکل کو بھی سمجھا دیا تھا کہ مجھے مکمل سمجھنا ہے۔۔
اس لئے وہ مجھے پہلے کچھ وکلاء کے پاس لے کے گیا ،وکلاء کے لئے مائیکل ایک رزق جیسی مقدس چیز تھا بہت پیار سے ملے اور مجھے یہ سمجھ آئی کہ وکلاء کے درجے ہیں ایک گروپ سب سے طاقتور وکلاء کا ہے، کورٹ میں یہ وکلاء بڑے بڑے کیس یا کام پکڑتے ہیں اور کام کروانے کے دو طریقے ہیں یا تو پارٹی سے لی فیس نما رشوت کو عملہ کے ذریعے جج سے شئیر کرتے ہیں، اگر اس طرح بات نہ  بنے تو جج کو بدمعاشی سے ڈرا دھمکا کے کام لیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں سب وکیل ایک منٹ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور عملہ یا جج کو گالیاں دینا یا جسمانی تشدد کرنا ان وکیلوں کا قانون نافذ کرنے کا واحد ذریعہ ہے.

ویسے 90 فیصد معاملات کورٹ کے ریڈر ،نائب کورٹ، نائب قاصد ،انسپکٹر لیگل یا ڈرائیور کے ذریعے طے پا جاتے ہیں، اس طرح طے شدہ کام زیادہ پائیدار ہوتا ہے.
دوسرے نمبر پر ذرا کم بدمعاش وکلاء ہوتے ہیں جو چھوٹے موٹے کیس یا جائیداد کے کاغذات وغیرہ رجسٹر کرواتے ہیں، وقت پڑنے پر یہ وکلاء بھی مارنے والے وکلاء کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں.

تیسرے درجے کے وکلاء یا تو خود بھی نشہ کرنے والے ہوتے ہیں یا پھر شریف آدمی وکیل بنا ہوتا ہے یہ وکیل ڈومیسائل ٹریفک کے چالان یا کیس اور جائیداد کی نقل وغیرہ  حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ خطرناکی میں یہ بھی دوسرے بدمعاش گروپ جیسے ہی ہوتے ہیں بس ان کو کوے کی طرح چیخنا ہوتا ہے.
عدالت میں ریڈر کا 90 فیصد  کام ملزموں کو اگلی پیشی کی تاریخ دینا ہوتا ہے جس کے لیے ملزم حسب توفیق پیسے   اس کو پیش کرتا ہے، جو اکثر وہ ایک احسان جتا کے اور گالی دے کے دانت نکالتے ہوئے رکھ لیتا ہے.
پیسے نہ  دے سکنے والے ملزم سارا دن کھڑے رہتے ہیں، تاریخ کے انتظار میں.

کسی ملزم کی ضمانت منظور ہوجانے پر کورٹ کے   سارے عملہ کو ان کی سرکاری حیثیت یا جج کے ساتھ قربت کی بنیاد پر نذرانہ  دیا جاتا ہے.
عدالت ضمانت منظور کرے نہ  کرے، اس کا اختیار ہے، اور اس کے لئے کسی جج کو سزا نہیں ملتی  کہ اس نے ایک مجرم کو ضمانت کیوں دی، بس مظلوم کو اپیل کا حق ہے کہ  جاؤ اور اگلی عدالت سے انصاف لوٹ یا خرید سکتے ہو تو لے لو.

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایک نشئی وکیل نے مجھے سمجھایا کہ مثال کے طور پہ اگر آج 3/4/79,5/7/79 وغیرہ یعنی جواء اور نشہ کے دس کیسز میں ملزمان نے 249 crpc کے تحت برئیت کی درخواست دی ہے کہ قانون کے تحت ان مقدمات میں سرکاری گواہان کے علاوہ کوئی پبلک یا آزاد گواہ نہیں  ہے، اس لئے ان کو بری کیا جائے تو جج ان دس میں سے جن کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں کو بری کردے گا اور باقی کے لئے حکم دے گا کہ  ان مقدمات میں گواہان استغاثہ کو طلب کیا جائے یہ صرف یہ بات سمجھانے کو ہے  کہ  کس طرح انصاف بیچا یا لوٹا جاتا ہے، پاکستان میں اصل لوٹ مار تو پھر بڑے کیسوں  اور بڑی بڑی پارٹیوں کے درمیان انصاف کرتے ہوئے کی جاتی ہے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply