منکہ مسمی ملازم حسین ،نوکری کی تے نخرا کی؟۔۔۔شکور پٹھان

نہ جانے کس بے ہمت شخص کا یہ قول ہے۔ اس نے شاید نوکری نہیں کی یا اگر کی، تو اس خادم کی طرح نہیں کی۔ لوگ باگ نہ جانے کیوں ملازمت کو غلامی سمجھتے ہیں لیکن اس خاکسار نے جہاں بھی ملازمت کی اپنے انداز سے کی اور یوں کی کہ دوسرے رشک کرنے لگے۔
نوکری بھی کی اور نخرے بھی کئے۔
یہ قصہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب میرے ملک میں نئی نئی عوام کی حکومت آئی تھی۔ یہ خاکسار سارا دن عوام کی پارٹی کے دفتر میں پڑا اینڈتا رہتا۔ ،ہمارے علاقے سے بیرسٹر جمال اختر عوام کی پارٹی کے نامزد امیدوار تھے۔ بیرسٹر صاحب ایک کامیاب وکیل اور خاندانی اور متمول شخص تھے۔ ان کا یہ بڑا سارا بنگلہ تھا جس میں بیک وقت کئی کاریں کھڑی رہتیں اور یہ سب بیرسٹر صاحب کے اہل خانہ کی تھیں۔ ان کے مقابل ایک مولانا تھے جو ویسے تو بہت قابل تھے اور تحریک پاکستان کے رکن اور قائد اعظم کے ساتھیوں میں سے تھے لیکن مال وال انکے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہم سب کے گھر والے ان مولانا صاحب کے حامی تھے لیکن ہم لونڈے لپاڑیوں کا ٹھکانہ جمال اختر صاحب کا دفتر ہوتا کہ وہاں ہر وقت چائے پانی، سموسے بسکٹ وغیرہ کا دور چلتا۔ کبھی کوئی زیادہ بڑا پارٹی کارکن آتا یا آتے تو بوتلیں منگوائی جاتیں ۔ اور جب پارٹی کے لیڈر آتے تو ان سے بھی “بڑی” بوتلیں آتیں۔ ہم لیکن اس وقت دفتر سے باہر بٹھائے جاتے۔ ہماری عیاشی تھی۔ مال بھی خوب ملتا اور بیرسٹر صاحب کی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے۔
اس سے قبل کہ یہ کہانی کہیں اور نکل جائے، قصہ مختصر یہ کہ ہماری اس ساری بھاگ د وڑ کے باوجود بیرسٹر صاحب ہار گئے۔ ہمارے شہر میں عوام کی پارٹی کو کچھ زیادہ نشستیں نہیں ملیں لیکن ملک اور صوبے میں عوام کی پارٹی کی حکومت بن گئی۔
میرے شہر کے لئے تو عوام کی پارٹی کو کوئی فائدہ نہ ملا بلکہ نوکریوں اور کالجوں میں داخلوں کی مصیبت ایسی پڑی کہ اب تک گلے کا ہار بنی ہوئی ہے۔ میرے لئے لیکن جمال اختر صاحب کی مصاحبی کام آئی۔ عوام کی پارٹی کی بہرحال یہ خصوصیت تھی کہ اپنے بندوں کا خیال بہت رکھتی تھی۔ بیرسٹر صاحب کی سفارش سے مجھے ایک سرکاری ادارے میں نوکری مل گئی ورنہ میرے لئے نا ممکن تھا کہ کوئی سرکاری یا نجی ادارہ مجھے اپنے ہاں گھسنے بھی دیتا کہ میں پڑھائی میں ہمیشہ نالائق اور کام کاج میں نکھٹو رہا تھا۔ جس ادارے میں اختر صاحب نے مجھے لگایا تھا وہاں میرے جیسے کئی اور تھے بلکہ مجھ سے بھی گئے گذرے اور نکمے لوگ عوام کی پارٹی کی مہربانی سے موجیں اڑا رہے تھے۔ کام وام تو ہم کچھ نہیں کرتے بس مزے کرتے لیکن اوور ٹائم برابر لیتے۔ ادارے کی ضرورت تو صرف پندرہ بیس ملازمین کی تھی لیکن یہاں ہم ساٹھ ملازمین عوام کی پارٹی کی خدمت کا پھل کھا رہے تھے۔

اور جیسا میں نے بتایا کہ کام تو کچھ تھا نہیں اور نہ ہمیں کچھ کرنا آتا تھا لیکن اس نوکری کی وجہ سے مجھ سے کچھ عجیب سی عادتیں اور حرکات سرزد ہونے لگیں۔ شام جب گھر آتا کپڑے بدل کر ، منہ ہاتھ دھوکر ، چائے کیلئے بیٹھتا تو بیوی سامنے دھری ہوئی تپائی پر چائے بڑھاتی تو میرا ہاتھ بے ساختہ تپائی کے نیچے چلا جاتا۔ ایسے ہی کھانے کی میز پر پانی یا سالن کی پلیٹ میری طرف بڑھاتی تو میں میز کے نیچے سے ہاتھ بڑھاتا۔
کوئی مجھ سے کسی کام کے لئے کہتا یا کہتا کہ ہمارے لئے دعا کرنا تو میرا پہلا سوال ہوتا” مجھے کیا دوگے ۔”
گھر والے بھی کوئی کام کہتے جو چاہے کتنا بھی سادہ ہو ، میں انہیں چکر پہ چکر دیتا اور ان سے کچھ لے کر ہی اس کام کو انجام دیتا۔
لیکن یہاں تھے بڑے مزے ۔ کام کرونہ کرو مال خوب بنتا تھا۔ عیاشی کے دن تھے۔ اخبار والے اور بد خواہ حسد کے مارے نہ جانے کیا کچھ لکھتے رہتے۔ عوام کی پارٹی نے اپنا یہ انداز کبھی نہ بدلا اور اپنے کارکنوں اور خیر خواہوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔ ان کا یہ طور طریقہ آج بھی رائج ہے۔
ہماری عیاشیاں جاری تھیں لیکن فلک کج رفتار کو ہماری فراغت ایک آنکھ نہ بھائی اور ایک دن “بڑے والوں ” نے آکر عوام کی حکومت کو چلتا کیا ساتھ مجھ جیسے بہت سے عوام کی جماعت کے وفا دار کارکنان کو بھی چمٹے سے پکڑ کر نکال باہر کیا۔ ہمارے خلاف عجیب سی تحقیقات شروع ہوگئیں یعنی، رشوت ستانی بد عنوانی، اقرباپروری ، نا ا ہلی وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ہم تھے ہی کس قابل کے یہ کچھ کرتے۔

یہ انکوائری چل رہی تھی اور میں بے روزگار تھا کہ ایک مخلص دوست نے بتایا کہ تمہارے مزاج۔ کی ایک بہترین نوکری تمہاری منتظر ہے۔ اس نے بتایا کہ اس میں بھی کوئی کام نہیں ہوگا، گوکہ تنخواہ بہت کم ہوگی لیکن ایک نہیں دو نہیں تین وقت کا کھانا مفت ملے گا۔ جائے ملازمت کے ساتھ ہی مفت رہائش ملے گی اور تمہارا کام پر آنے جانے کا خرچ بھی بچ جائے گا۔ سب سے بڑا فائدہ اس ملازمت کا یہ ہوگا کہ تمہارے خلاف کوئی انکوائری کرنے آئے تو یہ ملازمت تمہیں بچا لے گی۔
پتہ چلا کہ ایک غیر معروف سے علاقے کی ایک چھوٹی سی مسجد میں امام کی جگہ خالی تھی۔ بے شک یہاں تنخواہ بہت ہی معمولی تھی بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی لیکن دیگر مراعات بے حد پرکشش تھیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کام کوئی نہیں لیکن اگر کام کروں تو ثواب بھی ملے، اللہ بھی خوش اور بندے بھی یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔
میں شاید پھر بھی یہ ملازمت نہ کرتا لیکن سرکار کی انکوائری سے بچنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ میں نے ہاں تو کردی لیکن حسب معمول فلک کج رفتار نے یہاں بھی گڑبڑ کردی۔ محلے کے دو تین ریٹائرڈ بزرگ جو پانچوں وقت کی جماعت میں ہوتے تھے، ایک دن وفد کی شکل میں آئے اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب جب سے آپ نے امامت سنبھالی ہے، فجر، مغرب اور عشاء میں سورہ فاتحہ کے بعد انا اعطینا اور قل ہو اللہ احد کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتے۔ میں نے انہیں ان سورتوں کی فضیلت سمجھانے کی کوشش کی اور یہ بھی بتایا کہ بزرگوں کی آسانی کے لئے چھوٹی سورتیں پڑھتا ہوں۔ لیکن یہ سارے بڑھؤ ، بڑے کائیاں تھے ۔ وہ جان گئے کہ مجھے سورہ کوثر اور سورہ اخلاص کے سوا کچھ نہیں یاد، چنانچہ دو دن کے فری بریک فاسٹ، لنچ اور ڈنر کا لطف اٹھانے کے بعد مجھے وہاں سے بھی فارخطی مل گئی۔

لیکن بہرحال اولین سرکاری نوکری کا یہ فائدہ ہوا کہ اب میری درخواست پر نوکری کے تجربے کا خانہ خالی نہیں تھا۔ کچھ دنوں میں ایک نجی ادارے میں کام مل ہی گیا۔
میری ملازمت بدلنے کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ میں بھی بدل گیا تھا۔ اس ملازمت کو بھی اپنی شرطوں پر کیا۔ جو کچھ سرکاری ادارے میں سیکھا تھا اسے کسی اور پر تو نہ سہی اپنے آپ پر خوب رائج کیا۔

اس دفتر کے کام کے اوقات صبح نو سے شام پانچ بجے تک تھے۔ میرا روزنامچہ کچھ یوں ہوتا۔
صح نو بجے گھر سے نکلتا اور ساڑھے نو پونے دس تک دفتر پہنچتا۔ اتنے تھکا دینے والے سفر کے بعد کام سے پہلے چائے کا ایک کپ تو انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ چائے کے کمرے میں ساتھیوں کی خیر خیریت پوچھنے اور گذری شام کا حال بتانے میں کچھ تو وقت لگ ہی جاتا ہے۔ گیارہ بجے آکر ڈاک اور میرے پاس آئی ہوئی فائلوں پر نظر ڈالتا۔ اب اگر کوئی کام شروع کیا جائے تو لنچ میں دیر ہوسکتی ہے جو صرف پینتالیس منٹ بعد ہی ہے اس لئے فی الحال کام کو ایک طرف رکھ دیتا۔ لنچ کی میز پر ساتھیوں سے گپ شپ میں دو ڈھائی گھنٹے ایسے گذرتے کہ وقت گذرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ میز پر واپس آکر کچھ دیر اخبارات وغیرہ کا مطالعہ کرتا کہ تین بجے چائے کا وقفہ ہوجاتا۔ وہاں سے چار بجے واپسی ہوتی۔ چونکہ واپسی میں راستے میں ٹریفک کی بہت بھیڑ ہوتی ہے چنانچہ واپسی کی تیاری شروع کر دیتا اور ساڑھے چار بجے گھر کی راہ لیتا۔ پانچ بجے تو دفتر ویسے بھی بند ہو ہی جاتا ہے۔ ٹریفک سے بچنے کے لئے جلد نکلنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

میرا مینیجر کم بخت میرے آنے جانے کے اوقات پر بڑی نظر رکھتا تھا۔ ایک دن کہنے لگا ” میاں آپ روزان صبح بڑی دیر سے آتے ہیں۔”
میں نے بھی تنک کر اور ترکی بہ ترکی جواب دیا”آتے ہیں دیر سے تو کیا ہوا ، ہم جاتے بھی تو جلدی ہیں” وہ کم بخت اپنا سا منہ لے کررہ گیا۔
ایسے لوگ بھلا باز کب آتے ہیں ۔ ایک دن کہنے لگا یہ آپ کے چائے کے وقفہ، کافی بریک، سگریٹ کا وقفہ، لنچ کا وقفہ اور ٹوائلیٹ کے وقفے کے دوران کبھی کام کا بھی وقفہ کر لیا کریں۔ میں نے کہا ہم وہی تو کرتے ہیں۔

یہ مینیجروں کی نسل ہی ایسی ہوتی ہے۔ ایک دن کہنے لگا کہ جتنا وقت اور زور تم بیت الخلا میں لگاتے ہو، اگر کام پر لگاؤ تو تمہارا کوئی کام پینڈنگ نہ رہے۔ اب ایسوں کے منہ کون لگے جنہیں بنیادی انسانی ضروریات اور حقوق کا احساس ہی نہ ہو۔

سرکاری نوکری سے مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ اوور ٹائم کیسے بنتا ہے۔ میں نے اس دفتر میں جو مختلف باس کے ساتھ کام کیا اسکا نچوڑ یہ ہے کہ اگر باس اور ماتحت دونوں ہوشیار ہوں تو منافع خوب بڑھتا ہے ۔ اور اگر باس ہوشیار اور ماتحت بے وقوف ہے تو پیداوار بڑھتی ہے۔ لیکن اگر باس بے وقوف اور آپ ہوشیار ہوں تو خوب ترقی ملتی ہے۔ اور اگردونوں ہی بے وقوف ہوں تو نتیجہ بہت سے اوور ٹائم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور یہاں بھی یہ ہی ہو رہا تھا۔

میری بہانے بازیوں سے تنگ آکر ایک دن باس مجھ سے کہنے لگا کہ یا تو میں گھامڑ ہوں یا تم۔ میں نے عرض کی حضور آپ جیسا ہوشیار بندہ کبھی کسی بے وقوف کو ملازمت نہیں دے سکتا۔ باس کچھ سوچنے لگا اور مجھ سے کہا تم جاؤ۔ میں نے دروازے پر رک کر پلٹ کر دیکھا تو وہ خلا میں گھورتا ہوا کسی سوچ میں گم تھا۔
میری اس سے بڑی کامیابی کیا ہوگی کہ سارا دن کچھ نہ کرتے ہوئے بھی تنخواہ پوری اٹھاتا ہوں۔ ہاں البتہ اس بات کا سہرا میرے ہی سر ہے کہ سارا دن سوچتا ہوں کہ کام کروں یا نہ کروں لیکن کام کرتا ہوا نظر ضرور آؤں۔ اور اس میں میں خاصا کامیاب ہوں۔

میں شاید ایسا نہ ہوتا لیکن میرا باس اور کمپنی کے مالکان جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے ملازمتیں کا بہترین خیال رکھتے ہیں، میری تنخواہ کی رسید ان کے دعوے کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔
اور شاید میں اور باس ہی ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ ہماری ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ہی باس نے مجھ سے کہا کہ تم ہفتہ کو اور اتوار کو کام پر آسکتے ہو۔ میں نے کہا بڑی خوشی سے۔ چنانچہ میں ہفتے اور اتوار کے دن کام پر گیا اور جب پانچ دن کی چھٹی کے بعد جب پھر ہفتے کو کام پر گیا تو باس میرا سبکدوشی کا خط لئے بیٹھا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا تم نے پیر سے جمعہ تک بغیر بتائے چھٹی کی ہے۔۔میں نے اسے بتایا کہ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ہفتہ اور اتوار کو کام پر آنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال قصہ مختصر اب میں وہاں کام نہیں کررہا۔ کام کا کیا ہے مل ہی جائے گا۔ اس بار پھر عوام کی پارٹی نے میرے صوبے کا انتخاب جیتا ہے۔ جمال اختر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ مجھے نہ صرف میرے سابقہ سرکاری ادارے میں بحال کردیا جائے گا بلکہ اتنے سالوں کی تنخواہ اور مراعات بھی دلوائیں گے۔ بیرسٹر جمال اختر عوام کی پارٹی کے موجودہ سربراہ کا مقدمہ جو لڑ رہے ہیں بغیر پیسوں کے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply