مری کا مال روڈ اور بھاپ اڑاتی چائے۔۔۔کے ایم خالد

 ایوبیہ میں قریباً سات بجے کا وقت ہوچکا تھا او رعلی عمران جو نیئر کے چہرے سے ماحول میں پھیلی ہو ئی خنکی صاف محسوس ہو رہی تھی انکے دانت تو نہیں البتہ تھوڑی تھوڑی دیر بعدہلتے ہو ئے کاندھے سردی محسوس ہونے کی نشان دہی کر رہے تھے ۔
’’ مجھے ایسے سرد ماحول کااندازہ نہیں تھا ورنہ کوئی انتظام کرکے چلتا ‘‘ عمران نے ہماری تشفی اور اپنے آپ کو گرمائش دینے کی خاطر کہا
ؔ ؔ ’’تو عمران بھائی آپ یہاں ایوبیہ سے ایک جیکٹ خرید لیں یہی کوئی دو ایک ہزار میں مل جائے گی ‘‘ میں نے شرارت سے بد ر اور عون شیراز ی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
’’تو بھائی لاہور جا کر کتنے میں بک جائے گی ‘‘ علی عمران نے مسکراتے ہوئے کہا
’’بیچنی کیوں ہے ’’پپو‘‘ کو گفٹ کر دیجئے گا‘‘ عون شیرازی نے شرارت سے کہا
’’بھئی ’’پپو ‘‘ گرمی سردی سے مبرا ہے نہ تحائف دیتا ہے اور نہ تحائف لیتا ہے بلکہ تحائف والے تو اس کی ہٹ لسٹ پر ہیں ویسے آپ لوگ کیوں سردی محسوس نہیں  کررہے۔۔۔۔؟‘ ‘۔علی عمران نے گاڑی میں بیٹھ کر شیشہ چڑھاتے ہوئے کہا
’’وہ جو ہم نے ایوبیہ آتے ہوئے راستے میں پہاڑی ککڑ کھایا تھا یہ اسی کی کرامات ہیں آپ پر نہ جانے کیوں اس کا اثر   نہیں ہوا۔؟‘‘بدر سعید نے بھی اپنی سائیڈ کا شیشہ چڑھاتے ہوئے کہا

ایوبیہ جاتے ہوئے ’’پپو‘‘،’’رمضانی‘‘ اور ’’قاصد ‘‘کی مخبریاں ڈرائیور کی وجہ سے محتاط انداز میں کی جارہی تھیں لیکن واپسی پر مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ڈرائیور نے اس بات کی تسلی دی کہ نہ تو اس کا تعلق کسی اخبار سے ہے اور نہ ہی وہ کسی میڈیا ہاوس کا ’’پپو ‘‘،رمضانی ‘‘ یا ’’قاصد ‘‘ ہے ۔پھر تو گاڑی میں مخبریاں آزادانہ ٹکراتی پھر رہی تھیں اور مخبریوں کی حدت سے سردی کا احساس بھی کم ہوگیا تھا۔
سیاحوں سے اظہار یک جہتی کی خاطر ہم نے مری نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا اسی لئے مری رکے بغیر ہم نے ایوبیہ کی جانب رخت سفر باندھے رکھا اور کھانا بھی ہم نے ایوبیہ کے رستے میں ایک ہوٹل سے کھایا ۔ایوبیہ جاتے ہوئے مختلف پوائنٹس پر اگر آپ پہاڑی ،دیسی یا برائلر کے بالکل تازہ گوشت کے ذائقہ سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنی آنکھوں کے سامنے مرغ کو قربان ہوتا دیکھ سکتے ہیں ساتھ میں جتنی دیر میں کھانا تیار ہو آپ قدرت کے دلفریب مناظر سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کر سکتے ہیں ۔
تمام دوستوں کے باہمی مشورے سے سٹیم والی چائے اور مری کی اصل صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے مری مال روڈ جانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ڈرائیور نے گاڑی جی پی او کے سامنے کھڑی کی میں نے حیرت سے کہا ’’ یہاں تو پہلے گاڑی آنے نہیں دیتے تھے تم جی پی او تک لے آئے ‘‘
’’ سر جی رش نہیں ہے ناں اس لئے ٹریفک پولیس نے جی پی او تک آنے کی  اجازت دی ہے ‘‘۔ڈرائیور نے ہمیں اتارا اور گاڑی پارک کرنے کے لئے چلا گیا ۔

کوئی کچھ بھی کہے مری کو ملکہ کوہسار سیاحوں نے بنایا ہے سیاحت کسی علاقے کی ترقی کا راستہ کھول دیتی ہے۔مری کی وادیوں میں بنے ہوئے خوبصورت جدید طرز آرائش کے گھر اور ہر گھر تک پہنچی ہوئی بجلی سیاحت کی بدولت ہی ہے ۔مگر اس کے باوجود مری کے باسیوں کے جو مسائل ہیں ان سے بھی صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے ۔سیزن میں ایک روزمیں اسی سے نوے ہزار کے درمیان گاڑیاں داخل ہو جاتی ہیں جن سے ٹریفک کے علاوہ بھی بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔پنجاب حکومت اگر میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے بڑے پراجیکٹ مختصر عرصہ میں مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مری کی جی ٹی روڈ کو آج تک دو رویہ نہیں کیا جا سکا ۔پارکنگ کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔موجودہ حکومت نے اپنی حکومت کے شروع دنوں میں اسلام آباد سے مری اور پھر مظفر آباد تک ٹرین سروس اپنی حکومت کی مدت میں مکمل کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن اس پر کوئی کام ہوا یا نہیں یہ حکومت ہی جانتی ہے ۔حالانکہ جہاں چائنا سے لاہور میں اورنج ٹرین پر کام لیا جا چکا ہے ان سے اسلام آباد سے مری ریلوے  ٹریک بھی بنوایا جا سکتا ہے اور یہ ایک منافع بخش ٹریک ہوگا جس سے مر ی پورا سال سیاحوں کی آمدورفت کے لئے کھلا رہے گا اس سے سیاحت کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔اس کے علاوہ جو بھی مری کے مقامی لوگوں کے مسائل ہیں ان کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے

ہم نے دیکھاسامنے کچھا کھچ بھری رہنے والی جی   پی اوکی سیڑھیوں پر چند ایک افراد بیٹھے ہوئے تھے ۔مری میں گرمیوں کا سیزن عموماًاپریل سے ہی شروع ہو جاتا ہے مگر مال روڈ ویران نظر آرہا تھا حالانکہ نو بج چکے تھے اور عام حالات میں مال روڈ پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی مگر کوہ مری کے مال روڈ کی ویرانی بتا رہی تھی کہ’’ مہمان ‘‘ ناراض ہو گیا ہے اور ہمارے مذہب میں تو مہمان کو رحمت کا نام دیا گیا ہے ۔مری کے کھلے ہوئے بازار ،انواع و اقسام سے بھری ہوئی دوکانیں ،کھانے کے ہوٹلوں پر لٹکے دنبے ،بکرے ،برائلر ، مصالحوں کی خو شبو بکھیرتے چپل کباب ،کافی اور چائے کی بھاپ اڑاتی خوشبو اپنے مہمانوں کے انتظار میں تھی ۔
مری کے باسیوں کے لئے یہ شائد کوئی عام بات ہو لیکن جب کوئی سیاح اپنی فیملی جس میں اس کی ماں ،بہن ،بیوی اور بچے شامل ہوتے ہیں اس کے لئے سب سے اہم ان پیاروں کی عزت ہوتی ہے وہ توصر ف موسم کے اعتبار سے کپڑے جیکٹ اور چھتریاں لے کر ہی چلتا ہے یہ تو وہاں کے باسیوں اور سب سے بڑھ کر پولیس انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مہمان سیاح کو ایسی عزت دیں کہ وہ برسوں اسے فراموش نہ کر سکے ۔

’’وہ سٹیم چائے کہاں ہے جس کے لئے تم مال روڈ پر لائے ہو‘‘ ،علی عمران جونیئر نے سردی سے بچاؤ کے لئے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
میں نے ایک چائے کی دوکان پر بدر سعید،عون شیرازی ،علی رضا اور علی عمران کو روکا چائے والے لڑکے نے سٹیم کا والو آن کیا گرم ہوا نے سیٹی نما آواز کے ساتھ علی عمران جونیئر کا رخ کیا اورعلی عمران نے سکھ کا سانس لیا ۔
’’ بھئی سٹیم والی چائے بنا جب تک ہماری چائے ختم نہیں ہوتی اس سٹیم کو میر ی طرف تھوڑا بہت چلاتے رہنا ‘‘۔
علی عمران نے آخرکار سردی کا حل ڈھونڈ ہی لیا ۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply