• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پرائیویٹ سکول مافیا ،کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ۔رانا اورنگزیب

پرائیویٹ سکول مافیا ،کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ۔رانا اورنگزیب

تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں  فرق  تعلیم ہی کی بدولت ہیں تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی ہے۔

دوسری تمام تہذیبوں اور معاشروں میں تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے مگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں تعلیم حاصل کرنا فرض ہے۔مسلمان مرد وعورت ہر دواصناف کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم اور ترغیب دی گئی ہے۔تعلیم پر اسلام کی ترجیحات کا اندازہ یہیں سے لگا لیں کہ اللہ پاک نے پہلی وحی جو اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی طرف بھیجی تو اس کا پہلا حکم بھی اقراء تھا یعنی پڑھ۔
ایسے ہی احادیث کے ذخیرے میں بھی رسول اللہﷺ کے بہت سے احکام واقوال تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ہر ریاست اپنے عوام کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بہم پہچاتی ہے۔سکول ،کالج، درس گاہیں، پاٹھ شالہ، دھرم شالہ، مدارس ،مکتب ،جامعات تقریباً سارے عالم کی حکومتی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہیں۔کئی ممالک اپنے بجٹ میں صحت وتعلیم کا حصہ دوسرے تمام اخراجات سے ز یاده رکھتے ہیں۔مگر وطن عزیز میں صحت اور تعلیم دونوں بنیادی شعبے حکومت کی بے توجہی کاشکار ہیں۔جس کی وجہ سے ملک میں پرائیویٹ ہسپتالوں کے ساتھ پرائیویٹ سکولوں کی بھی بھر مار ہے۔ایک ایک گلی میں دو دو سکول ہیں کچھ رجسٹرڈ اور کچھ غیررجسڑڈ۔

عطائی  ڈاکٹر تو پھر بھی کبھی کبھار حکومتی چھاپوں کی زد میں آجاتے ہیں مگر عطائی  سکولوں پر کبھی حکمرانوں کی نظر کرم نہیں ہوتی۔عطائی  ڈاکٹر اور جعلی ہسپتال اور کلینک تو پھر بھی انفرادی صحت اور جان کے لئے خطرناک ہیں اور ان کا متاثرہ ایک فرد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر عطائی  سکول تو معاشرے کے مستقبل کی اجتماعی نسل کشی کر رہے ہیں۔کھربوں روپیہ ماہانہ فیس کے نام پر پاکستانی قوم کی جیب سے نکلوایا جارہا ہے اور بدلے میں پوری قوم کی آنے والی نسلوں کو اسلام بیزار نظریہ پاکستان کے مخالف اور اپنی تہذیب و ثقافت سے بیگانہ کیا جارہا ہے۔

ہماری تاجرانہ  ذہنیت رکھنے والی اشرافیہ نے پہلے سرکاری سکولز کو ناکارہ کیا، سرکاری سکولوں میں سیاسی بھرتیوں کے ذریعے نااہل اور کرپٹ لوگوں کو استاد جیسا مقدس پیشہ سونپا پھر اپنے پرائیویٹ سکول وکالج متعارف کرواۓ۔پھر محکمہ تعلیم کی کالی بھیڑوں کی معاونت سے اپنے سکول وکالج کے طلباء کی ماورائی  ذہانت، قابلیت اور اہلیت کو مشہور کیا۔جب لگاتار کسی ایک ہی سکول یا کالج کے طلباء ہرسال ضلعی اور صوبائی سطح پر پوزیشن لینے لگے تو ہم لکیر کی فقیر قوم کو اس گروپ آف سکولز میں اپنے بچوں کا روشن مستقبل نظر آنے لگا۔ہم نے دھڑادھڑ اپنے بچوں کو سرکاری سکولز سے نکالا اور پرائیویٹ سکولز کے سامنے لمبی قطاریں لگا کے کھڑے ہوگئے۔کاروباری ذہن رکھنے والی چالاک لومڑیاں فوراً حرکت میں آئیں اور ہر شہر تحصیل محلے گاؤں علاقے اور ہرگلی میں پرائیویٹ سکول کھل گئے جن کے بلندوبالا نعرے اور دعوے والدین کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔ابن انشاء کے مطابق صورت حال یہ ہوگئی کہ۔۔
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانہ تیرا

بس پھر کیا تھا جیسے ہی مکھی مکڑے کے جال میں آئی  تو مکڑے نے اپنے جال کے رستے بند کرنے شروع کردیے۔اب تقریباً شہری آبادی کے نوے فیصد والدین اور دیہی آبادی کے پچاس فیصد والدین اس مکڑے کے جال میں پھنسے پھڑپھڑا رہے ہیں۔
اور مکڑے میاں کی فرمائشیں اور بھوک بڑھتی ہی جارہی ہے ۔جبکہ مکھی اب چاہ کر بھی اس جال سے نہیں نکل سکتی۔پرائیویٹ سکولز کوئی  سیدھا سادہ  کاروبار نہیں بلکہ ایک مافیا طرز عمل رکھنے والا وہ کاروبار ہے جو طلباء سے والدین تک اور عام آدمی سے حکومتی اداروں تک سب کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔یہ ایسا ایور گرین بزنس ہے جس میں آپ کو ایک بار سرمایہ لگانے کی ضرورت ہے اس کے بعد خرچ نہیں بس آمدن ہی آمدن ہے۔جہاں بھی منافع کی شرح زیادہ ہوگی جرائم پیشہ اور دونمبر لوگ اس کاروبار کو اگر خود نہ بھی چلائیں تو اس کے سرپرست ضرور بنتے ہیں۔

ایک پرائیویٹ ہائیر سیکنڈری سکول چلانا ایک اچھی خاصی فیکڑی یا کارخانہ چلانے جتنا منافع دیتا ہے جبکہ فیکڑی اور کارخانے کے لئے جگہ سے انویسٹمنٹ تک ہر چیز زیاده چاہیے جبکہ سکول کےلئے اگر آپ کے پاس پانچ مرلہ زمین پر چار سے پانچ کمرے ہوں تو آپ اپنا شاندار کاروبار شروع کرسکتے ہیں جس میں گھاٹے کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ایک سکول کو رجسٹرڈ کروانا کم از کم چار سے پانچ سو لوگوں کو مستقل بنیادوں پر لوٹنے کا لائسنس حاصل کرنے کے مترادف ہے۔آپ بچے کے والدین سے ہزار گیارہ سو فیس کی مد میں لے سکتے ہیں پہلی جماعت کی کتابوں کا پانچ سے چھ ہزار وصول کرسکتے ہیں۔یونیفارم اور شوز کی مد میں تین سے پانچ ہزار وصول کرسکتے ہیں۔جو کہ میرے جیسے کاٹھ کے الو ہنستے مسکراتے شکریہ ادا کرتے آپ کو ادا کرنے کے پابند ہیں۔

اگر آپ صرف پہلی جماعت میں ایک سو بچے داخل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سیدھے دس لاکھ کی آمدن اوراس میں خرچ کتنا دو سے تین لاکھ اس کے بعد ہر ماہ ایک لاکھ مستقل آمدن صرف پہلی جماعت کے طلباء سے اور یہ سفید پوش والدین کے بچوں کی بات ہے۔امیر لوگوں کے بچے ایسے سکولز میں نہیں پڑھتے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار کوئی  نئی بات نہیں بلکہ اس کے بارے میں میرے جیسی کمزور آوازیں کئی بار بلند ہوتی ہیں مگر نہ محکمہ تعلیم ہی ایسی بکواس پر دھیان دیتا ہے اور نہ سکول مالکان۔سینکڑوں پرائیویٹ سکولرز والدین کو خلاف ضابطہ اپنا تیارکردہ نصاب او رمخصوص یونیفارم مقرر کردہ دکانوں سے خریدنے پر مجبو ر کرتے ہیں ۔ جان بوجھ کر ایسا نصاب تیا ر کیا جا تا ہے جو مارکیٹ میں آسانی سے دستیا ب نہ ہوسکے ۔نصاب اور یونیفارم کی دوگنی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔محکمہ تعلیم کے کارپرداز خواب غفلت کے مزے اڑانے میں لگے ہیں ۔رجسٹرڈ سکول اور ادارے تو ہیں ہی۔

مگر سینکڑوں بلکہ ہزاروں غیر رجسٹرڈ سکول محکمہ تعلیم کی کارکردگی کا پو ل کھولنے کو کافی ہیں۔جن کی رجسٹریشن کے لیے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کی طرف سے عملی اقداما ت صرف کاغذی کارروائی کی حد تک دیکھنے میں نظر آتے ہیں ۔ جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق رجسٹر ڈ شدہ سکولوں کی بھی ایک بڑی تعداد حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ قواعدو ضوابط کے بر عکس موجود ہے جو کہ سیاسی سفارش اور محکمہ ایجوکیشن کے بعض افسران کی ملی بھگت سے چل رہے ہیں ۔ان سکولوں میں دانستہ طور پر ایسا نصاب مرتب کیا جاتا ہے جو کہ مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب نہ ہو  جس کی قیمت اپنی مرضی کے مطابق وصول کی جاتی ہے ۔جس کے لیے ان سکولوں کے مالکان نے سکولوں کے قریب اپنی دکانیں یا پھر دکانداروں سے اپنی اوسط طے کر رکھی  ہوتی ہے جہاں پر اس خود ساختہ نصاب کی  لاگت سے کئی گنا زیا دہ دام وصول کیے جاتے ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر کتب گمنام مصنفین اور نا معلوم پبلشرز کی ہوتی ہیں ،

واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ سکول مالکان دراصل فرضی ناموں سے  کتب چھپواتے ہیں  اور پھر اپنے مقرر کردہ دکانداروں کے ذریعے  بچوں کے والدین کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اسی طرح ہر سکول نے اپنی علیحدہ یونیفارم کلرسکیم رکھی ہوئی ہے جو کہ صرف انہی دکانو ں پر دستیاب ہوتی ہے جن سے باقاعدہ حصہ سکول مالکان کو ملتا ہے یا پھر وہ بھی سکول مالکان کی ذاتی ہوتی ہیں۔ اس کے بھی مارکیٹ سے زائد دام وصول کیے جاتے ہیں  ۔جس کے لیے مجبور والدین اپنے بچے کو بہتر تعلیم دلوانے کے خواب کو پورا کرنےکے لئے اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنی انتہائی ضروریات کو پس پشت ڈال کر یہ سب خریدنے پر مجبور ہیں۔

اس سب کے بعد یہ نجی تعلیمی ادارے مجبورو  بے روز گار ،کم تعلیم یافتہ اور غیر پیشہ ورانہ استاد ملازمت پر رکھتے ہیں۔زیادہ تر خواتین استاد رکھی جاتی ہیں جن کو تین ہزار سے دس ہزار تک تنخواہ دی جاتی ہے۔دوسرا بڑا جرم اور ظلم یہ ہے کہ 14،15 سال کے بچوں کو پڑھانے کے لئے سترہ اٹھارہ سال کی بچیاں بطور استاد رکھی جاتی ہیں جس سے استاد شاگرد کے مقدس اور پوتر رشتے کو جعلی عاشقی میں بدلا جا رہاہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ترنول اسلام آباد میں 19 سالہ استانی کے عشق میں سولہ سالہ شاگرد کی خودکشی اس کی بدترین مثال ہے۔

ہم بہت ہی بے حس اور نام ونمود کی ماری قوم ہیں اپنی جھوٹی شان کےلۓ اپنے ہی ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں کا بیڑہ غرق کرنے میں ہمارا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا ہماری حکومت اور حکومتی اداروں کا ہے۔اور ان نجی تعلیمی اداروں کو لوٹ مار کا موقع بھی ہم خود دے رہے ہیں۔ہم میں سے سب والدین اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کو برباد کرنے میں ان اداروں کے برابر کے حصہ دار ہیں۔ان کی تعلیم کا میعار یہی ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ سکول میں پڑھنے والا ایک بچہ دکھا دیں جو ٹیوشنز نہ لیتا ہو۔دوسری بات جتنے بھی مشہور یا بڑے گروپ آف کالجز ہیں سب کے سب کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہمارے سکول یا کالج کے بچے نے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے ایک ہی بورڈ میں ایک ہی شہر کے چار گروپوں کا موازنہ کرلیں ۔امتحانات کے فوراً بعد بڑے بڑے فلیکس اور ہورڈنگ پر اپنے بورڈ میں پوزیشن ہولڈر طلباء کی تصویروں کی نمائش کرتے ہیں ایک بورڈ میں ایک ہی کلاس کی کتنی اول دوم پوزیشنز ہوتی ہیں اس گورکھ دھندے کو کم از کم میں تو نہیں سمجھ پایا اگر آپ کو سمجھ آۓ تو مجھے ضرور سمجھائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری والدین سے گزارش ہے خدارا اپنے بچوں کو تعلیم کے نام پر ناچ گانا اور الحاد کے سبق نہ دلوائیں۔لاکھوں روپیہ بچے پر خرچ کرکے اگر اس کو نالائق ہی  بنانا ہے تو یہ کام تو گلی گلی کھلے سنوکر کلب اور گیم ہاؤ سز مفت میں کر رہے ہیں۔اس کے لئے اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟اور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت خود ہی آپ کو پرائیویٹ سکولز مافیا کی لوٹ مار سے نجات دلاۓ گی تو آپ احمقوں کی جنت میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ان سے جان چھڑانی ہے تو ان کے خلاف بولنا پڑے  گا،نکلنا پڑے گا۔ورنہ قتیل تو کب کا کہہ گیا۔۔۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply