عصر حاضر میں علمی بحوث کے اوصاف ۔۔ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری

بحث کا لغوی معنی: لفظ بحث فعل ماضی ثلاثی (بحث) کامصدر ہے، جس کا معنی ہے : طلب کرنا، کریدنا، تفتیش کرنا،تتبع اور استقرآء کرنا، محاولہ اور کوشش کرنا۔ قرآن میں یہ لفط اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشادہے :

( فبعث اللہ غراباً یبحث فی الأرض لیریہ کیف یؤاری سوأ ۃ أخیہ ) (المائدۃ : ۱۳۱)

ابن فارس معجم مقاییس اللغہ (۱/۲۰۴)میں لکھتے ہیں : الباء والحاء والثاء، أصل واحد یدل علی اثارۃ الشیء .

اسماعیل بن حماد جوہری معجم الصحاح (صَ ۷۴)میں لکھتے ہیں : بحثت عن الشیء، وابتحثت عنہ، أی : فتشت عنہ .اس لغوی تعریف کا خلاصہ ہم ان الفاظ میں بیان کرسکتے میں : البحث ھو الطلب والتفتیش وتقصی حقیقۃ من الحقائق، أو أمر من الأمور.یعنی بحث اس تحریر کا نام ہے، جس میں تفتیش، طلب اور تتبع کو برو ئے کار لاتے ہو ئے کسی حقیقت یا کسی معاملہ کی تہہ کو بیان کیا جائے۔

علم کا لغوی معنی: علمی، علم کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس کے آخر میں ’’یا ‘‘ لگا دیا گیا ہے اور علم مصدر ہے ( عَلِم) کا،جس کا معنی ہے : معرفت، درایت اور حقائق کا ادراک۔ اس کا اطلاق شعور وآگہی، اتقان ویقین پر بھی ہوتا ہے۔ یہ جہالت کی ضد ہے۔ علم کی لغوی تعریف کے لیے دیکھیں : معجم الفاظ العلم والمعرفہ فی اللغۃالعربیۃ از عادل عبد الجبار زایر، لسان العرب(۱۲/۴۱۷) تاج العروس (۳۳/۷۳ ومابعد)

علم کی تعریف کرتے ہوئے علامہ شوکانی رشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول (۳۔۴)میں لکھتے ہیں : اختلفت الأنظار فی تعریف مطلق العلم اختلافا کثیراً، والأولی عندی أن یقال فی تحدیدہ، ھو: صفۃ ینکشف بھا المطلوب انکشافاً تاماً .یعنی : علم کی تعریف میں وجہت نظر کا کافی اختلاف ہے۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بہتر تعریف یہ ہو گی کہ علم ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ مطلوب شئ مکمل طور پر واضح ہو جائے۔

شریف جرجانی نے تعریفات (ص: ۱۵۵)میں علم کی تعریف یوں کی ہے: ھو الاعتقاد الجازم المطابق للواقع. وقال الحکماء : ھوحصول صورۃ شیء فی العقل. یعنی ایسا پختہ اعتقاد جو واقع کے مطابق ہو علم ہے۔ اسی چیز کو حکما ء نے بایں لفظ بیان کیا ہے کہ عقل میں کسی چیز کی صورت کے حصول کو علم کہا جاتا ہے۔ مفردات الفاظ القرآن (ص: ۵۸۰)میں اغب اصفہانی کے نزدیک : إدراک الشیء بحقیقتہ کا نام علم ہے۔

ان لغوی اور اصطلاحی تحلیل اور اس کے صحیح معانی کے خد وخال کی روشنی میں بحث علمی کی تعریف درج ذیل ہے : دراسۃ مبنیۃ علی تقصی وتتبع لموضوع معین وفق منھج خاص لتھدف معین من اضافۃ جدید، أو جمع متفرق، أو ترتیب مختلط، أو غیر ذلک من أھداف البحث العلمی.

ایسی بحث وتحقیق جو کسی معین موضوع کے تتبع اور استقصاء پر مبنی ہو۔اور کسی معین مقصد کے تحقیق کے لیے کسی خاص منہج کے موافق ہو۔جس میں کسی نئی چیز کا اضافہ ہو۔اور متفرق چیزوں کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا ہو۔ یا کسی غیر مرتب چیز کو عمدگی اور سلیقہ کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہو۔ یا بحث علمی کے اہداف میں سے کسی اور ہدف پر محیط ہو۔

یہ تعریف ڈاکٹر عبد العزیز بن عبد الرحمن علی ربیعہ کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب البحث العلمی حقیقتہ ومصادرہ (ص: ۱/۳۳) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے ملتی جلتی تعریف مناھج البحث العلمی أسس وأسالیب (ص:۱۱) اور مناہج البحث (ص:۷۵) میں موجود ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : التقصی المنظم باتباع أسالیب ومنہج علمیۃ محددۃ للحقائق العلمیۃ یقصد التأکد من صحتھا أو تعدیلھا أو إضافۃ الجدیدۃ إلیھا.

ڈاکٹرعبد الوہاب ابو سلیمان نے کتابۃ البحث العلمی(ص:۲۷) بحث علمی کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : عملیۃ علمیۃ تجمع لھا الحقائق والدراسات، وتستوفی منھا العناصر المادیۃ والمعنویۃ حول موضوع معین دقیق فی مجال البحث.

کتب مناہج بحث میں اس کی اور کئی تعریفیں ملتی ہیں ، جن کو طوالت کے خوف سے ہم نظر انداز کرتے ہیں ۔ لیکن بحث علمی کی تعریف میں جو اختلاف اور تضاد نظر آرہا ہے در حقیقت وہ بحث کے موضوع اوراس کے انواع ومجالات اور اہداف ووسائل کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔اہل علم کی وجہت نظر اور ان کی گراں قدر آراء کا بھی اختلاف میں بڑا عمل دخل رہا ہے۔ بعض مغربی محققین بھی اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بحث علمی صحیح منہج کی روشنی میں حقائق کوواضح کرنے، نامعلوم اور پوشیدہ چیزوں کے کشف وظہور کا نام ہے۔

سابقہ تعریفات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بحث علمی جن چندمرکزی ستون کے ارد گرد گردش کرتی ہے، وہ درج ذیل ہیں ۔

۱) نئے اورصحیح حقائق تک پہنچنے کے لئے وضع کردہ علمی اسلوب اورواضح منہج کو بروئے کار لانا اور اس موضوع سے متعلق تحقیق وکاوش کے ذریعہ انسانی ذخیرہ معلومات میں اہم اور نیا اضافہ کرنا۔

۲) صحیح معلومات تک رسائی کے لئے دقیق النظری کا استعمال۔

۳ ) بحث وتحقیق کے ذریعہ صحیح اور راجح قول کی معرفت کے بعد ذہن میں موجود اور مخترع حقائق کو ترک کرنے کے ساتھ یہ معرفت شعوری اور حتمی طور پر ایک بحث کے لئے اس کے شعور ووجدان کا حصہ بن جانا چاہیے ۔بحث صحیح معنوں میں باحث ہے تو وہ یقیناًجویائے حقیقت ہو گا۔ایسا جویائے حقیقت جس کا علم وادراک، تجربہ ومشاہدہ، وسعت مطالعہ، صبر وتحمل اور ذوق جستجو اسے دم لینے نہ دے گا اور وہ تلاش حقائق ہی میں سکون و سرور اور فرحت وانبساط محسوس کرے گا۔ غلام ربانی تاباں کے بقول:

جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
یوں تو ہر موڑ پر منزل کا گماں ہوتا ہے

بحث علمی کی تعریف اور اس کے مرکزی ستون کے بیان کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غرض و غایت کو بھی بیان کردوں ۔ اس سلسلہ میں محمد جمال الدین قاسمی نے قواعد التحدیث (ص: ۳۸)میں ذکر کیا ہے۔ اختراع معلوم، أو جمع متفرق، أو تکمیل ناقص، أو تفصیل مجمل، أو تھذیب مطول، أو ترتیب مختلط، أو تعیین مبھم، أو تبیین خطأ. بحث وتحقیق کا مقصد کسی ایک حال سے خالی نہ ہوگا۔ بحث وتحقیق میں کسی ناموجود کو وجود میں لانا یا کسی متفرق کو جمع کرنا یا کسی ناقص کو کہتے۔اس کی مثال ایسی ہی ہے گویا آپ نے پہلے قبر کھود دی اور اب اسی سائز کے مردے کی تلاش میں سر گرم ہیں ۔نیز دیکھیں :اصول تحقیق از ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں (ص:۲۹)

بعض اہل قلم نے یہاں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بحث میں رائے ہمیشہ بنیادی مآخذکی روشنی میں قائم کرنا چاہیے۔تاہم ثانوی مآخذسے محض استعانت درست ہے۔

۲۔منہجیت

اس سے مراد معلومات کو منظم کرنے کا طریقہ ہے۔اس ضمن میں تین چیزیں ضروری ہیں :

نمبر۱۔ قطعیت Aceuracy یعنی مندرجات کا انتہائی صحت کا اہتمام۔

نمبر۲۔وضاحت Clarity یعنی بحث میں جو بات ذکر کی گئی ہو،نہایت واضح پیرایہ میں بیان کی گئی ہو۔اس میں کوئی غموض نہ ہو۔اس لئے صاف، شستہ، عام فہم زبان اورسلیس الفاظ استعمال کی جائے، جسے عام قاری سمجھ سکے۔زبان کی اٹھا پٹخ، مسجع اور مقفی عبارتیں ،الفاظ کی تک بندی اوراشارے وکنایات اچھے با  بحث کے لیے زیب نہیں دیتیں ۔

نمبر۳۔ یکسانیت Consistenc یعنی بحث میں جو اسلوب اور طریقہ اپنایاگیا ہے ابتدا تا انتہا اس سے انحراف نہ کیا جائے۔ویسے یہ بات مسلم ہے کہ کبھی کبھی طبیعت بحث تقاضا کرتی ہے۔ اور باحث اپنے منہج بحث سے انحراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

مذکورہ چیزوں میں سب سے اہم بات صحت کا انتہائی اہتمام ہے۔بحث کا پہلا قدم یہ ہے کہ جو موضوع آپ متعین کریں وہ نہایت واضح اور اچھی طرح سے متعین ہو۔ اور حشو وزوائد سے پاک اور ایک دائرے میں سمٹا ہوا ہو۔ فکری انتشار اور غیر محدودیت بحث کے حسن کو قدغن لگاتی ہے۔اس لئے ایسے موضوعات سے گریز کرناضروری ہے جن کی ماہیت پوری طرح غیر واضح ہو۔ یا ان کا تعلق لا محدود اور غیر متعین زمانہ سے ہو۔ حوالہ بالا(ص:۴۴)

عصر حاضر میں بحث علمی کے امتیازات میں سے یہ بھی ہے کہ جو چیز جہاں سے اخذ کی جائے، اسے حوالہ جات سے مزین کیا جائے۔یہ علمی امانت کے ساتھ ساتھ تحقیق کا ایک اہم گوشہ ہے۔جسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح ایسے واقعات کو جن کا باحث نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی توثیق کے لیے اپنے علاوہ دیگر مشاہدین کا بھی ذکر کرے تاکہ شکوک وشبہات کی راہیں خود بخود مسدود ہو جائیں ۔

علمی بحث وتحقیق کے کاز کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سب سے اہم چیز مصادر ومراجع کی معلومات اور استفادہ کا طریقہ ہے۔ ان ہی مصادرکے چھانٹ پھٹک سے بحث معرض وجود آتی ہے۔ اور ان ہی پر اس کی بنیاد استوار پاتی ہے۔ اور بحث کے عمدگی اور غیر عمدگی کا معیار بھی مصادر ومراجع کی قدامت وکثرت پر انحصار کرتا ہے۔مصادر جس قدر معیاری ہوں گے اسی قدر بحث بھی معیاری ہو گی۔اور اپنے دامن میں ثقاہت لیے ہوئے ہو گی۔

علاوہ ازیں اس دور جدید میں نئے نئے وسائل سے استفادہ کر کے اپنی بحث کوایک نئی شکل دے کر کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کر سکتاہے، جو باحث کی جد جہد اور اس کے ذوق وشوق پر منحصر کرتا ہے۔

عصر حاضر میں باحث کی اخلاقیات بھی علمی بحوث کی اہمیت کو چار چاند لگادیتی ہے۔اخلاص، نیک نیتی، صداقت، اور دیانت جیسی صفات ستودہ سے متصف ہونا ضروری ہے۔ فی زماننا ایسے باحثین کی ایک قطار ہے جو دوسروں کے مضامین، علمی مقالات اور استنباطات کو اپنی کاوش باور کرتے کراتے ہیں اوراس میں اپنے نام کا لاحقہ لگا کر دوسروں سے داد تحسین حاصل کرنے کی ناروا کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے اس فعل کی شناعت کے لیے اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد کافی ہے۔

(لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَواْ وَّیُحِبُّونَ أَن یُحْمَدُواْ بِمَا لَمْ یَفْعَلُواْ فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ) (آل عمران: ۱۸۸)

وہ لوگ جو اپنی کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ سبحانہ تعالی سے دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔اور ہمارے اعمال میں اخلاص وللہیت کی توفیق بخشے۔ اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا اور بہترین کارساز ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری
ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری نام: محمد اسلم بن محمد انور بن (مولانا) عبد الصمد مبارک پوری قلمی نام: ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری پیدائش: جنوری 1973ء مقام: موضع اودے بھان پور , حسین آباد, مبارک پور, یوپی تعلیم: فضیلت: مدرسہ عربیہ دار التعلیم ، صوفی پورہ، مبارک پور بی اے: جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ ایم اے، پی ایچ ڈی: لکھنو یونیورسٹی تخصص: عربی ادب و فقہ اسلامی مشغلہ: استاد جامعہ سلفیہ بنارس مدیر ماہنامہ محدث بنارس تصنیف و تالیف و ترجمہ صحافت و مضمون نویسی دعوت و تبلیغ معروف قلمی خدمات(مقالات و کتب): 15 سے زائد تراجم و تصانیف و تحقیقات سیکڑوں مضامین و مقالات محدث کی ادارت رہائش: دار الضیافہ، جامعہ سلفیہ بنارس ، ہندوستان رابطہ: +918009165813 +919453586292

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply