بھارتی فوج نے 1965 کی 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب لاہور پر حملہ شروع کیا۔ حملے کی ابتداء بھارت کی پیدل فوج سے کی گئی تھی، جنرل چوہدری کی خوش فہمی تھی کہ بھارت کی پیدل فوج تعداد میں پاکستانی فوج سے تین گنا ہے، جس کی وجہ وہ سے ٹینکوں اور توپخانے کی مدد کے بغیرہی پاکستانی فوج کو کچل کر رکھ دیں گے۔
لیکن پورے لاہور فرنٹ پر پاکستانی فوج ڈٹ گئی تھی۔ برکی کے محاذ پر راجہ عزیز بھٹی شہید کی کمپنی بھارتیوں کو ناکوں چنے چبوا رہی تھی۔ جبکہ لاہور کے سامنے سولہ پنجاب رجمنٹ کی ایلفا، براوو کمپنی اور بلوچ رجمنٹ کی ایک کمپنی دیوار بنی کھڑی تھی۔
صبح تک بھارتی جرنیل یہ جان چکے تھے کہ پاکستانی فوج کو ہرا پانا پیدل فوج کے بس کی بات نہیں رہی ،اس لئے انہوں نے توپخانے سے انتہائی تیز گولہ باری شروع کر دی اور اسی گولہ باری کی آڑ میں ٹینکوں کو آگے بڑھایا۔
اس وقت پاکستان کی جانب سے محاذ جنگ پر نہ تو کوئی ٹینک موجود تھا نہ ہی کوئی ٹینک شکن گن۔ فوری طور پر پچھلی سپلائی لائنز سے ایک ٹینک شکن گن جسے آر آر گن کہا جاتا ہے اگلے مورچوں کی جانب بھیجی گئی۔
آر آر گن یا تو جیپ پر لگی ہوتی ہے یا اسے زمین میں کسی مورچہ میں لگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ گن بالکل اوپن ہوتی ہے اور جوابی حملہ اسے آسانی سے تباہ کر سکتا ہے اس لیے جیپ ہو یا زمینی مورچہ اسے کسی جگہ چھپا کر اور اوٹ سے ہی فائر کیاجاتا ہے۔
جب پاکستانی دستے میں پہلی آر آر گن میدان جنگ میں پہنچی تو جیپ کو کسی اَوٹ میں چھپانے کا وقت نہیں تھا کیونکہ بھارتی ٹینک سر پر چڑھے آ رہے تھے۔ جیپ کے کمانڈر آس پاس کوئی آڑ دیکھ ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک دیہاتی، جنگ سے بالکل بے خبر اور بے نیاز بیل گاڑی پر بھوسہ لادے، اپنی لے میں گنگناتا چلا آ رہا تھا۔
گن کمانڈر نے فوری طور پر اس دیہاتی کو کسی محفوظ جگہ لے جانے کا حکم دیا اور گاڑی سے بیل الگ کر کے عین میدان میں بھوسے کا چھکڑا کھڑا کیا اور اسی بھوسے کی اوٹ میں گھسا کر جیپ کھڑی کر دی۔
پہلا فائر ہوا ایک بھارتی ٹینک اڑ گیا۔ بھارتی فوجی آس پاس آر آر گن کو تلاشنے لگے۔ لیکن بے سود اس آر آر گن نے کسی کی بھی نگاہوں میں آئے بنا کئی بھارتی ٹینک تباہ کر دئیے۔ دیہاتی بہت خوش تھا کہ اس کا چھکڑا اب ٹینک بن چکا تھا۔
یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ آج بھی تاریخ کے اوراق پر جہاں پاکستان کی جنگ ستمبر میں عسکری جرات اور بہادری کا تذکرہ ملتا ہے وہیں اس “چھکڑا ٹینک” کا ذکر بھی ساتھ لازمی ہوتا ہے ۔
بشکریہ اسلامک ہسٹری اور واقعات
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں