تاحیات نااہلی اور نوازشریف ۔۔۔سرتاج خان

پاکستان کی  سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نوازشریف پرتاحیات نااہلی کی مہرثبت کرتے ہوئے ان کی سیاست سے علیحدگی کی راہ ہموارکردی ہے۔ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے اوراسمبلی کی رکنیت سے پہلے ہی محروم کررکھا ہے، اب ان کوسیاست  سے فارغ کرتے ہوئے انہیں تاحیات  نااہل قراردے دیاہے۔ اس سے قبل ان کوپارٹی کی قیادت سے بھی محروم کردیاگیاتھا۔نوازشریف کوایک ویسے وقت  پرنشانہ بنایاگیاہے کہ جب ان کی پارٹی مرکزاورپاکستان کے سب سے بڑے اورمضبوط صوبہ پنجاب میں حکومت کررہی  ہے۔ نوازشریف اپنی سبکدوشی کے بعدسے خود کواپوزیشن رہنما کے طورپرپیش کررہے ہیں۔ سابق وزیراعظم اورمریم نوازنے ملک بھرمیں کامیاب جلسے کیے اورمسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات میں بھی بہترکارکردگی دکھائی، مگراس سے ازخود نوازشریف اورمریم نوازکے مسائل اورمصائب میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اوریہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

جب سے نوازشریف اقتدارسے علیحدہ ہوئے ہیں وہ ایک ادھوری جنگ لڑرہے ہیں۔ عدلیہ اورفوج کے خلاف نیم دفاعی جنگ۔ وہ ایک طرف عدلیہ اوراسٹبلشمنٹ کی سازش کاذکرکرتے ہیں اوران پرالزامات اوراپنی بے گناہی کاواویلاکرتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہی کے سامنے اپنی صفائی بھی پیش کرتے ہوئے بہتری کی توقع بھی کرتے ہیں۔ مریم نوازکا لہجہ زیادہ جارحانہ رہاہے مگرمرکزی حکومت اورپنجاب کی صوبائی حکومت میں ایسے عناصرکی تعداد زیادہ ہے جوسمجھتے ہیں کہ نوازشریف کواب شہبازشریف کی سربراہی قبول کرتے ہوئے عدالتی فیصلے قبول کرنے چاہییں۔ نوازشریف اورمریم نوازکے جارحانہ پن اورتنقید کامسلم لیگ ن کوضمنی انتخابات میں خاطرخواہ فائدہ پہنچاہے۔ لیکن اس سے نوازشریف اورمریم نوازکے خلاف عدلیہ اوراسٹبلشمنٹ کے رویے میں فرق نہیں  آیا۔ نوازشریف کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ احتجاج کوایک حدسے آگے لے جابھی نہیں سکتے۔ اس کامطلب پنجاب کے اہم اوربڑے شہروں میں ہڑتال اوراحتجاجی مظاہرےہیں ۔ بعض تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ مسلم لیگ بطورسیاسی جماعت احتجاج کی روایت سے خالی ہے۔ وہ اس کاموازنہ پیپلزپارٹی سے کرتے ہیں۔ یوں مسلم لیگ کی لیڈرشپ اورکارکن احتجاجی سیاست کی طرف کم مائل تصورکیے جاتے ہیں۔ ملک گیرہڑتال اورعدلیہ کے گھیراوکاسب سے بڑااثرپنجاب حکومت پرپڑتا اور مرکزی حکومت اورپنجاب حکومت کاگرنا عمران خان اورآصف زرداری کی اولین خواہش ہوتی۔ یوں نوازشریف ایک مخمصے کے شکاررہے ہیں۔ وہ ایک طرف مرکزی حکومت اورپنجاب کی صوبائی حکومت اپنے پاس رکھ کراحتجاجی تحریک چلاناچاہتے تھے تاکہ حکومت ان کی پشت پررہے لیکن اس سے نوازشریف کی ذات کوفائدہ نہیں پہنچا۔عدلیہ اوراسٹبلشمنٹ مسلسل ان کوزک پہنچاتی رہی۔

نوازشریف کے خلاف فیصلے میں برابری کاتصورپیداکرنے کی خاطرجہانگیرترین کوبھی شکاربناناپڑا لیکن یہ تاثرعام ہے کہ فیصلے کے اصل ہدف نوازشریف ہیں۔ نوازشریف نے اب تک کسی معافی تلافی یعنی این آراو طرز کے معاہدے کے امکان اورسمجھوتے کومستردکیاہے اورملک میں رہ کرسیاسی چیلنج پیش کرنے کوترجیح دینے کابارہااعلان کیاہے۔ لیکن اب نوازشریف پردباؤبڑھ گیاہے۔ خدشہ ظاہرکیاگیاہے کہ نوازشریف اورمریم نوازدونوں کوجیل کی سزادینے کی تیاریاں بھی مکمل کرلی گئی ہیں۔ ایک عام خیال یہی ہے کہ باہررہ کر مریم نواز،بے نظیربھٹوثابت ہوسکتی ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ یہ رسک لینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ مریم نواز اپنے والد کے ہمراہ جلسے جلوس کی حدتک کامیاب اپوزیشن لیڈرکے طورپرسامنے آئی ہیں۔ اس کے ساتھ وزراء بھی ساتھ دے رہے ہیں جن کوعدلیہ، توہین عدالت کے مقدمات میں ملوث کرکےڈرارہی ہے۔

نوازشریف کے خلاف عدالتوں اورنیب سے مسلسل فیصلے آرہے ہیں اوراب تک وہ اس کے خلاف کوئی خاطرخواہ بندباندھنے میں ناکام رہے ہیں۔  ایک طرف ان کوسیاست سے فارغ کرکے جیل میں بھیجے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اوردوسری طرف الیکشن کے ہونے اورنہ ہونے کے امکانات ظاہرکیے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں شہبازشریف کواقتدارمیں دیکھنے والا دھڑے کی مشکلات بھی کم نہیں ہیں۔ شہبازشریف ایک اچھے منتظم اعلیٰ توتصورکیے جاتے ہیں، لیکن سیاست اورانتخابات کیلئے ان کاساراانحصاراب تک نوازشریف پررہاہے۔ نوازشریف کے خلاف مسلسل فیصلے آنے سے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ، اسمبلی کی مدت پورے ہونے اورحکومتوں کے خاتمے کے بعد تیزبھی ہوسکتی ہے۔ چودھری نثاراورپنجاب کے جنوبی اضلاع کے اراکین کی علیحدگی کی خبریں پہلے ہی منظرعام پرآئی ہیں۔اب تک نوازشریف نیم دفاعی جنگ لڑتے رہے ہیں  لیکن معاملہ ان کی سیاست سے مکمل فراغت اورجیل جانے کابن گیاہے۔ اب نوازشریف کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ شہباز شریف کو قبول کرتے ہوئے اسکی انتخابی مہم چلاتے ہیں یا پھرکسی خفیہ ڈیل کے ذریعے سے خاموشی کے ساتھ ملک اورسیاست سے جلاوطنی اخیتارکرتے ہیں۔ نوازشریف کے پاس  اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ نوازشریف کواڈیالہ جیل جانے سے بچانے کی دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک کہ ڈٹ کرمقابلے کرنے کی خاطرمیدان میں کودکرملک گیرہڑتالیں اورمظاہرے کریں،دوسرا  کسی تیسرے فریق کی مداخلت سے ایک خفیہ معاہدہ کرکے ان کی ملک اورسیاست سے فی الحال روانگی کابندوبست ہو۔ مسلم لیگ ن کوبطورپارٹی بھی سخت حالات کاسامناہے۔ سینٹ  کے انتخاب  نے آنے والے الیکشن کے بعد کا ایک تصورتوواضح کردیا ہے۔ یوں شہبازشریف کیلیے نوازشریف کی موجودگی جہاں وزرات عظمیٰ کی راہ میں  رکاوٹ ہے، وہیں  ان کے لیے اقتدارکاحصول بھی مشکل بنادیاہے۔  نوازشریف کی ذات کیلئے اب اہم ترین مسئلہ خوداور بیٹی کو جیل جانے اورسزاہونے سے بچاناہے۔ فرانسیسی انقلابی سینٹ جسٹ نے کہاتھا  کہ جوآدھی لڑائی لڑتاہے، وہ اپنی قبرکھودتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ تجزیات آن لائن!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply