نہ ملے زہر تو اپنا لہو پیتے ہیں

شہر کے سب سے بڑے مقدس گھر میں جس چبوترے پر عظیم خدا زیوس کا مجسمہ کھڑا ہے وہاں یہ الفاظ کنندہ ہیں۔
“اپنی تقدیر پہچانو”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر یہ تقدیر ہے کیا؟
جسم پر سادہ سی چادر لپیٹے، ننگے پاؤں ایک شخص سر کھجاتا ہوا بازار میں داخل ہوتا ہے۔ دکانداروں، گاہکوں اور راہگیروں سے یہی پوچھ رہا ہے کہ تقدیر کیا ہے؟ کیا کوئی اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ میری تقدیر پہلے ہی لکھی جا چکی ہے؟ یہ خدا کون ہے ؟ اچھائی کیا ہے؟ برائی کیا ہے؟ کیا اچھائیوں اور برائیوں پہ میرا بس نہیں؟ جب تقدیر میرے اپنے اچھے برے اعمال سے بدلتی ہے تو تقدیر کا تعلق میرے اعمال سے ہوا، یا خدا کی مرضی سے؟
ابھی چند سالوں پہلے شہر کے راہنماؤں نے خدایان شہر کو انیگزاگورس کے شر انگیز انکشافات سے بچایا تھا۔ جس کا دعوی تھا کہ سورج دیوتا کیوں کر ہو سکتا ہے جو خود اس آگ سے بنا ہوا ہے جسے ہم چولہے میں جلاتے ہیں۔ چاند بھی اسی مٹی سے بنا ہے جسے ہم پیروں تلے روند ڈالتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی متفق نہیں تھا کہ چاند گرہن، سورج گرہن، زلزلے، طوفان، آندھیاں، بارشیں، آسمانی چمک خداؤں کا قہر یا ناراضگی ہیں بلکہ یہ سب قدرت کے مختلف مظاہر ہیں۔ جو مادے کی حرکت اور تبدیلی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ انیگزاگورس نے اپنے بیانات کی وجہ سے شہر کے مذہبی حلقوں کی دشمنی مول لے لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑے عرصے میں ہی اسے بدعقیدگی پھیلانے کے الزام میں عدالت لا کھڑا کیا گیا ۔ جہاں اسے خود اپنی سزا منتخب کرنا تھی، اپنی سزا منتخب کرنے سے مراد یا تو وہ زہر پی کر دنیا چھوڑ دے یا شہر چھوڑ جائے۔ انیگزاگورس کو اس شہر سے خاص دلچسپی بھی نہ تھی، اسے تو یہاں کے لوگوں کو علم سکھانے کیلئے لایا گیا تھا۔ لہذا اس نے شہر چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔
تحقیق اور تجسس انسانی سوچ کا خاصہ ہے، مگر صرف اس وقت تک کہ ذہن جمود کا شکار نہ ہو۔ سچ کی عدم جستجو معاشروں کو مردہ کر دیتی ہے۔ یہی حالت اس شہر کی تھی جسے جگانے کا جرم انیگزاگورس نے کیا، پھر اس کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔لوگوں نے ابھی اس بد عقیدہ سے جان چھڑوائی تھی کہ اب کی بار شہر کا اپنا بیٹا اٹھ کھڑا ہوا، جو انیگزاگورس سے کہیں زیادہ بے باک اور نڈر تھا۔ لوگ جس کی شجاعت و بہادری ہمسایہ ریاست کے ساتھ ہونے والی جنگ میں دیکھ چکے تھے۔ جس کا شہر کی سیاست میں بھی اچھا خاصا کردار تھا۔ اس کے نظریات چاند، سورج، طوفان اور زلزلوں کے متعلق تو نہ تھے۔ وہ صرف سچ کی تلاش میں سوالات پوچھتا تھا۔ وہ اچھائی اور برائی کے معیار جاننا چاہتا تھا۔ وہ اخلاقیات کے متعلق پوچھتا تھا اور سب سے بڑھ کر، وہ جاننا چاہتا تھا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔یہ وہ بنیادی سوالات تھے، جن کے جواب میں لوگوں کے پاس مذہبی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ شخص ان کہانیوں کو جھوٹ ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اسکا کہنا تھا کہ یہ شہر ایک اونگھتا ہوا گھوڑا ہے اور میں اس کے منہ پر بھنبھناتی ہوئی مکھی ہوں۔۔۔۔ یعنی وہ سوئی ہوئی سوچ کو ان سوالات سے جگانے میں مصروف تھا، جن کے بارے میں کوئی سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ مزید یہ کہ ضروری نہیں یہ سوالات دوسروں سے ہی پوچھے جائیں، بلکہ خود بھی مسلسل اسی احتساب سے گزرنا زندگی ہے ، اسی مسلسل جدوجہد میں سچائی چھپی ہے۔ اس کا کہنا تھا، وہ زندگی گزارنے کے لائق نہیں جس میں خود احتسابی نہ ہو۔
مباحثوں میں دلائل اور لفظوں کے ہیر پھیر سے نظریاتی حریف کو مات دینے میں مشہور سوفیسطائی فلسفیوں کو بلایا گیا، جن کا ذریعہ معاش مختلف شہروں میں جا کر پڑھانا تھا۔ سوفیسطے اس وقت ایک قسم کے وکلا تھے، جن کا سب سے بڑا ہنر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا تھا۔ یہی ان کا فلسفہ بھی بن چکا تھا کہ کائنات میں کوئی ایک سچ نہیں۔ مطلب یہ ضروری نہیں کہ ایک بات اگر کسی کے نزدیک سچ ہے تو دوسرے کے نزدیک بھی وہ سچ ہو۔۔۔ مگر اس شخص کا ماننا تھا کہ کائنات میں سچائی موجود ہے، جو مسلسل تحقیق اور جستجو سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ سوفیسطائی فلسفی بھی اس شخص کے ساتھ مباحثوں میں کئی دفعہ ہاتھ کھڑے کر گئے تھے۔ اس شخص کے نظریات سے متاثر ہو کر شہر میں کئی نوجوا ن اسکے ہم خیال بن گئے، اسی امر نے اسکے نظریاتی مخالفین کی نیندیں اجاڑ دیں تھیں۔جب یہ شہر اپنے دشمن شہر کے ساتھ ایک طویل جنگ سے فارغ ہوا تو انیگزاگورس کی طرح اسے بھی مذہب اور قانون کی گستاخیوں کے الزام میں عدالت طلب کر لیا گیا۔ عدالتی کاروائی شروع ہوئی جہاں اسے پانچ سو افراد کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنا تھی۔ اتنے بڑے اکٹھ میں بھی اس نے موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، بجائے اپنی صفائی پیش کرنے کے، انہی سوالات پر بحث جاری رکھی جو اس کا جرم تھے۔ اس نے خود ہی اپنا جرم ثابت کیا اور خود ہی سزا کی درخواست کی۔ اس کے سامنے بھی دو سزاؤں کے اختیارات رکھے گئے، شہر بدری یا زہر۔؟
تاریخ میں پہلی بار بجائے شہر بدری کے کسی مجرم نے زہر پینے کی سزا کا انتخاب کیا۔ شاید اس لئے بھی کہ اگر وہ شہر چھوڑ بھی دیتا تو کونسا نئے شہر میں اس نے سوالات نہیں پوچھنے تھے، وہاں سے بھی نکال دیا جاتا، سچ کی جستجو میں آخر کب تک خون تھوکتا۔ ۔۔۔اسکی نظر میں شاید اپنی جان قربان کر کے شہر کے قوانین کو غلط ثابت کرنے کا یہ آخری موقع تھا۔۔۔۔لہذا وہ تیار ہوا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ مرنے کے بعد اس کے مردہ جسم کو کوئی اور دھوئے، وہ خود نہایا دھویا، اپنے دوستوں اور شاگردوں سے سچ کی تلاش جاری رکھنے کا وعدہ لے کر، انتہائی اطمینان سے زہر کا پیالہ پی گیا۔آج دنیا انیگزاگورس کو نہیں جانتی، مگر سچ کی تلاش میں شہید ہونے والے اس شخص کو” سقراط” کے نام سے یاد کرتی ہے، جو آسمانوں سے علم اور فلسفہ کھینچ کر زمین پر لے آیا، جس کے بعد علم اور تحقیق کی دنیا میں ایسے دور کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply