کویلے دیاں ٹکراں

رمضان المبارک کی آمد ہوئی تو باجماعت تراویح پڑھنے کا شوق سر پر سوار ہو گیا۔ محلے کی مسجد زیر تعمیر تھی۔ مسجد کے منتظمین کو پیغام بھیجا کہ اوپر کا ایک کمرہ عورتوں کے لیے مختص ‏کر دیا جائے جس پر وہ معترض ہوئے۔ مسجد کے خطیب نے کہا کہ اس طرح عورتیں گھروں سے باہر نکل آئیں گی۔ مولوی صاحب نے اپنی تنگ نظری کو دین کے ساتھ وابستہ کر ‏دیا۔ وہ اس بات سے بےخبر ہیں کہ عورتیں گھروں میں ہیں ہی کب۔ ۔۔۔وہ تو پہلے ہی گھروں سے باہر ہیں۔‏ عورتیں بازاروں میں گھومیں، ہوٹلوں، کلبوں ، تفریح گاہوں میں جائیں، نوکریوں کے لیے ماری ماری پھریں تو کوئی اعتراض نہیں۔ اللہ کے گھر میں جانے کی خواہش کریں تو ان کی ‏عزت اور احترام میں کمی آ جاتی ہے۔ جہاں جانے سے اللہ رب العزت نے منع نہیں فرمایا بلکہ مرد کو حکم دیا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو، یہ صنف نازک تو پہلے ہی ‏بڑی کمزور ہے۔ شیطان کو ان پہ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ ادھر نشاط، بریزے، گل احمد، جےڈاٹ پہ سیل لگی، ابلیس نے ایک ایک کے کان میں سرگوشی کی، چلو جلدی سے ‏سب کام چھوڑو، کہیں منتخب مال ختم ہی نہ ہو جائے۔ ارے جلدی کرلو۔۔۔۔ آج کا دن ہے پھر پچھتاؤ گی۔ تھوڑی ہی دیر میں شیطان ہانکتا ہوا انہیں بازاروں میں لے جاتا ہے۔ دیکھتے ‏ہی دیکھتے ریوڑ کے ریوڑ دکانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ادھر سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد جو گھروں میں نماز، قرآن یا امور خانہ داری میں مصروف ہوتی ہیں یا بزرگوں کی ‏خدمت کر رہی ہوتی ہیں، انہیں کہتا ہے کہ چھوڑو ان بزرگوں کو، یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ہے، یہ تو روز کا کام ہے اور یہ نماز قرآن تو ہوتا رہے گا، سیل ختم نہ ہو جائے۔ اپنی ‏کامیابی پہ مسکراتا ہوا چند اور لوگوں کو بھی خواری کی راہ پہ ڈال دیتا ہے مگر کچھ پختہ ایمان والیاں سمجھدار خواتین بہت ڈھیٹ ثابت ہوتی ہیں۔ بسیار کوشش کے بعد وہ انہیں کوستا ‏ہوا ناکام لوٹ جاتا ہے۔ ‏
ہمارے گھر سے تو سب بازار کا رخ کر چکے تھے۔ ایک اماں تھیں جو گھر کی دہلیز پر بیٹھی، خوف سے اپنی بےبسی کا نظارہ کر رہی تھیں۔ گھروں میں والدین بچوں سے بےخبر اور بچے ‏اماں اور ابا سے بےخبر۔ ۔۔اماں کے بیٹوں کے قدم تو پہلے ہی ڈگمگائے ہوے تھے،ساری زندگی بیگمات کی نازبرداریوں اور بچوں کے چاؤ چونچلوں سے فرصت نہ ملی، اب تو اماں کے ‏پوتے پوتیاں جوان ہو چکے تھے، دو چار کی شادیاں بھی ہو گئی تھیں، ساری زندگی تو اماں کو بھی سرخی پاؤڈر سے فرصت نہیں ملی تھی۔ اب جو ادھر سے فارغ ہوئیں تو ساتھ ہی ‏گوڈے گٹوں نے جواب دے دیا۔ بیٹوں کےلیے ایک نیا امتحان آن پڑا۔ ایک دن اماں واش روم جاتے ہوئے گر گئیں، تو بیٹوں کو ہوش آیا کہ اوہو اماں تو جانے والی ہیں اور ابھی ‏تک اماں نے حج نہیں کیا۔۔۔ ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ لہٰذا جلدی سے حج کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ فرمانبردار بیٹا سفر آخرت سے پہلے اماں کو اللہ کے گھر دیدار کروانے لے گیا۔ ‏اماں کی یہ حالت تھی کہ دو قدم چلے تو سانس اکھڑنے لگے۔ بات کرے تو منہ سے پھوک نکلے مگر بیٹے نے وہیل چیئر پر بٹھا کر سارے طواف کروا ڈالے ،واپسی پر چار دیگیں ‏پکائیں، عزیز رشتے دار، محلے دار، کچھ دوست احباب بلا کر محلے کی تاریخ میں اپنا لکھوا کر دم لیا۔ ابا تو پہلے ہی دنیا سے جا چکے تھے ورنہ دو چار سال بعد ابا سے بھی یہی معاملہ ہوتا۔
ہر کام ‏میں تاخیر ہماری زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ والدین کو بھی بچے اس وقت یاد آتے ہیں جب وہ ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ بچے جب ناکام زندگی کا سامنا کرتے ہیں ‏تو کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔ قیمتی وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اللہ بھی اس وقت یاد آتا ہے جب عبادت کی طاقت نہیں ہوتی اور حج کا پروگرام بھی اس وقت بنتا ہے جب ‏سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں، ہمارے بہت سے بزرگ سفر آخرت براستہ مکہ مدینہ کرتے ہیں۔یہ سب تو ہیں کویلے دیاں ٹکراں۔۔۔ اگر جوانی میں اللہ یاد آجائے تو والدین اتنے بےبس نہ ہوں، جوانی میں جو جائیدادیں بچوں کے لیے بناتے رہتے ہیں وہ سب ادھر ہی رہ جاتی ہیں لیکن اگر وقت پر حج اور عمرہ ادا کیا ‏ہو اور اولاد کو بھی کروایا ہو تو ان کی کایا پلٹ جائے۔ وہ والدین کی خدمت مجبوری سے نہیں خوشی سے کریں کیونکہ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ جو کوئی اس کے گھر میں جاتا ہےوہ اسے ‏سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ آگے بندے کی مرضی ہے کہ وہ اس راہ پہ قائم رہتا ہے کہ نہیں، سو کہنے کی بات یہ کہ اللہ کے گھر کے دروازے سب کے لیے کھلے رہنے دیں۔۔۔۔وہ بازاروں ‏سے کہیں بہتر ہیں۔ !

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply