اسلام پر ملائیت کے اثرات (تبصرہ)

تقریبا 6 ماہ پہلے مکالمہ کانفرنس میں ایک لڑکا 2 پیس سوٹ پہنے، ہاتھوں میں کاغذات کا پلندہ اٹھاۓ اور آنکھیں گھما گھما کر باتیں کر رہا تھا اور آواز ایسی مدھم جیسے کوئی بچہ اپنی پسند کی چیز مانگنے کے لئے لاڈ سے بات کر رہا ہو۔یہ تھی تنویر عالمگیر سے میری پہلی ملاقات اس کے بعد کم و بش تین ماہ کے وقفے کے بعد ایک اور کانفرنس میں اس سے ملاقات ہوئی تو بالکل بھی اندازہ نہ ہوتا تھا کے ایک ایسا شخص جو کہ 25 سال کی عمر میں 50 سال کے ایک تجربہ کار شخص کی مانند گفتگو کر رہا ہے، اور ایک انتہائی حساس موضوع ” اسلام کو مولوی سے بچاؤ” پر کتاب لکھ چکا ہے، ایک ایسا نوعمر لڑکا جس سے اگر بات کریں تو انتہائی معصوم انداز میں اپنی گول گول آنکھیں گھما گھما کر بات کرے اور شرمیلا اتنا کہ اگر کوئی اس سے کتاب کے بارے میں پوچھ لے تو بات نہ ہو سکے اور نہایت دھیمی آواز میں بس اتنا کہہ پاۓ میں آپکو کتاب بھیج دیتا ہوں اس میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔۔۔۔۔جس دن کتاب”اسلام کو مولوی سے بچاؤ “میرے ہاتھوں میں تھی تو شش و پنج کا شکار تھا کہ آیا اسے پڑھوں یا نہ ، کیونکہ اسکا عنوان ہی مجھے کچھ منفی نوعت کا لگا، لیکن دل کڑا کر کے پڑھنا شروع کی اور ایک نشست میں ہی ختم کر ڈالی، جوں جوں کتاب پڑھتا گیا توں توں ایک معصوم و شرمیلے بچے کے تصور کی جگہ ایک انتہائی سنجیدہ شخص کی تصویر ابھرنے لگی۔ جتنا کم عمر ہے تحریر اتنی ہی پختہ ہے جتنا معصوم ہے اتنا ہی ذہین، اس کتاب میں مصنف نے اپنے علم اور عقلی شعور کا اک منظر پیش کیا ہے، اور دلائل کے ساتھ ثابت کرتا ہے کہ مذہب اسلام اور مولوی کے اسلام میں زمین آسمان کا فرق ہے اور سب سے بہترین حصہ وہ ہے جس میں وہ مولوی کی جانب سے کی جانے والی ایجادات کا ذکر خاص کرتا ہے جو کہ میرے اور مصنف دونوں کا ایک پیج پر ہونے کا باعث بنا، اور کافی جگہوں پر ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میرے ہی احساسات مصنف نے قلم بند کر دیے ہیں۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ” مولوی نے مذہب کو کاروبار بنا لیا ہے “لیکن اس بات کو دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ ثابت بھی کرتے ہیں ایک جگہ مولوی کے فتوے بازی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ” مولوی ایک شخص کے واجب القتل کا فتوی دیتا ہے اور اس فتوی پر عمل کر کے ایک شخص قتل کر کے جیل چلا جاتا ہے، اور فتوی دینے والا مولوی قاتل سے جیل میں ملنا تو ایک طرف اپنے دیے ہوئے فتوی کو ہی بھول جاتا ہے اور کسی نئے فتوی کی تیاری شروع کر دیتا ہے”۔اگر آپ اس کتاب کا بغور جائزہ لیں تو میری ناقص راۓ کے مطابق مولوی حضرات کو معاشرے سے جو جو شکوے ہیں یہ کتاب ان کے لیے جواب شکوہ ہے، اب چاہے وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں ، عمل کریں یا نہ کریں، کم از کم تنویر کی یہ کاوش ان مولویوں کے لیے بڑے بڑے سوال لیے کھڑی ہے جو کہ مولوی کے اسلام کی ترویج میں لگے ہوئے ہیں ۔
اب آتے ہیں مصنف کی دوسری کتاب کی طرف” اسلام پر ملائیت کے اثرات”۔۔۔اگر دیکھا جاۓ تو یہ مصنف کی پہلی کتاب کا ہی دوسرا والیم ہے پہلی کتاب میں مولوی کے اسلام کے بارے میں کھل کر بات کی تو اس کتاب میں انہوں نے مثالوں اور دلائل کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا کہ مولوی حضرات نے مذہب اسلام کو راہبانیت کی طرز پر چلانے کا پروگرام بنایا ہوا ہے جس کے اثرات ہماری زندگی پر یہ پڑے کہ ہم لوگ فقط کنویں کے مینڈ ک بن کر رہ گئے اور ہمارے لیے کلمہ،نماز،روزہ، حج اور زکوۃ کے علاوہ اسلام ہے ہی نہیں، اس بارے میں عاجز کی راۓ ہے کہ ہماری سرزمین پاک و ہند میں اسلام جس شخص کے ذریعے سے پھیلا وہ ہے محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ، محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو کہ بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کےبھتیجے تھے۔اسلام کے اس علاقہ میں آنے سے معاشرے میں تین نئی چیزیں شامل ہوئیں –
1- مذہب اسلام
2- قرآن مجید
3- کجھور
جسا کے تمام علاقوں کا دستور تھا کہ ہر آنے والا چاہے حکمران ہو یا مذہب وہ اس علاقے میں پہلے سے موجود معاشرے میں گھل مل کر اپنی جگہ بناتا ہے اپنے اسلاف اور کردار کی بنیاد پر اور ان میں سے جو مضبوط ہوتا ہے وہ اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے ورنہ اسکا وجود پرانے یا نئے معاشرے اور مذہب میں ضم ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر ڈھونڈنے سے ہی اسکی باقیات ملتی ہیں اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ۔اسی طرح جب اسلام اس دھرتی پر پہنچا تو اس سے پہلے کیونکہ ہندو مذہب اور ہندو معاشرہ ہی اس علاقہ کے رسم و رواج بنانے اور چلانے والا تھا اور ہندوؤں کے ان گنت دیوی اور دیوتا تھے جن کی شبہات مورتیاں اور بت موجود تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اور مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ لیکن محمد بن قاسم کے آنے بعد جیسے ہی ایک نئے مذہب نے اپنی گرفت اس خطہ پر مضبوط کرنی شروع کی تو وہ لوگ جو کہ ان گنت دیوی دیوتاؤں کی پوجا کر کر کے تھک چکے تھے جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔کچھ عرصہ کے بعد جیسے ہی بن قاسم کو واپس بلایا گیا تو اس دوران انہوں نے تقریباً 4 سال سندھ میں گزارے لیکن اس مختصر عرصہ میں انہوں نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا ،محمد بن قاسم کے جاتے ہی تمام سسٹم تباہی کی طرف گامزن ہو گیا اور تنزلی ہندو پاک کے مسلم معاشرے کا بھی مقدر بن گئی اور مسلمانوں کی نئی نسل اور نو مسلم اس بات پر بڑے پریشان تھے کہ اللہ کی شبیہ (نعوذ بااللہ) رسول کا بت (مر ے منہ میں خاک) کیونکہ اس ہندو معاشرہ میں تو ان چیزوں کا ہونا بہت ضروری تھا۔ جس کا حل پیر پرستی اور قبر پرستی کی شکل میں نکالنا ہی ایک تدبیر تھی، جو اس علاقے کے مسلمانوں کو ایک الگ تشخص برقرار رکھنے کی کوشش میں لگ گئی اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ ہم لوگوں نے قرآن کو محض ایک پاک کتاب بنا کر رکھ دیا اسکو پڑھا لیکن سمجھنے کی کوشش نہ کی اور اسے سنبھال سنبھال کر کپڑوں میں لپیٹ کر اونچی جگہوں پر رکھنا شروع کر دیا تاکہ بے ادبی نہ ہو اور جس طرح ہندو معاشرے میں برہمن کو ہی گیتا کے اشلوک پڑھنے کی اجازت تھی اسی طرح مولوی نے اس پر قبضہ کر لیا ۔
ہندو معاشرے میں رقص اور موسیقی ان کے مذہب کا حصہ تھی اور ان کے مندروں میں موسیقی کے ساتھ بھجنگ گائے جاتے تھے اور عبادت کے نام پر دیوی دیوتاؤں کے آگے رقص کیا جاتا تھا ۔ اس سلسلے کو تصوف کا رنگ دے کر حضرت امیر خسرو نے سماع کی شکل دی اور اس کے ذریعے سے اسلام کو دور دراز کے علاقوں تک پہنچا دیا۔ میر ے ان الفاظ کا مقصد کسی ایک فرقہ کی دل آزاری اور دوسرے کی طرف داری نہیں بلکہ معاشرے میں رائج چند چیزوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار تھا اور ان سے پڑھنے والوں کا متفق ہونا ضروری نہیں اور یہ سب ہمارے مولوی کی سربراہی میں ہو رہا ہے۔ جہاں مصنف سے کافی جگہوں پر اتفاق ہے وہاں کچھ جگہوں پر کچھ سقم رہ گئے مثلا ً کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ہم پید ائشی طور پر مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ پیدائشی دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ ہیں لیکن میری رائے تھوڑی مختلف ہے،اس دنیا میں جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور جس گھرانے میں وہ پیدا ہوا و ہی اس کا مذہب و مسلک طے کرتا ہے،اب اگر تنویر عالمگیر اور حسام دُرانی ایک مسلم گھرانے میں نا پیدا ہوئے ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ مصنف نے اپنی کتب کے نام کافی چن کر رکھے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں بازو دونوں حلقوں کو اپنی طرف کھنچتے ہیں،آپ اس کو مصنف کی ایک مارکیٹنگ چال بھی کہہ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply