آنکھیں۔ایک انوکھی کتھا۔۔۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

گہرے کالے رنگ اور گھنگریلے بالوں والا عاشر گاوں میں وہ واحد نوجوان تھا جِس کی طرف کسی نے نگاہِ اُلفت سے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یوں تو گاوں میں اور بھی بہت سے لوگ رنگ و صورت سے اتنے اچھے نہ تھے۔ مگر عاشر کی شخصیت میں کوئی ایسی خاص کشش نہ تھی کہ وہ کسی کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتا۔ دو تین جگہوں پر اُس کی ماں نے اُس کے رشتے کی بات بھی کی تھی مگر ہر جگہ سے انکار ہی آیا۔ اُس نے کہیں پڑھا یا سُنا تھا کہ ظاہری خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی مگر یہ فلسفہ اُس کی زندگی میں ٹھیک ثابت ہوتا رہا کہ ظاہری رنگ و صورت ہی بہت کچھ ہوتی ہے خواہ باطنی خوبصورتی سے کوئی کورے کاغذ کی مانند ہی کیوں نہ ہو۔

عاشر اپنی اِس بےبسی سے کبھی کبھی بہت شکستہ دل ہوجاتا اور وہ اکیلے میں اپنے دو چار آنسو بہا کر اپنا دکھ درد مٹانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا۔ جب بات اُس کی برداشت سے باہر ہوئی تو ماں سے اجازت لے کر وہ شہر چلا آیا جہاں اسے ایک کارخانے میں کام مل گیا۔ کام کی جگہ میں بھی بہت سی عورتیں تھیں پر باوجود اِس کے کہ عاشر اُن کے ساتھ مل جُل کر کام کرتا رہا کسی طرف سے کبھی کسی بھی دن کوئی جنبش تک نہ ہوئی۔ بات صرف سلام دعا تک ہی محدود رہی۔ یہاں بھی عاشر کو وہ جملہ بار بار یاد آتا رہا کہ ظاہری خوبصورتی ہی سب کچھ ہے۔

ایک دن عاشر شام کو کام سے جلدی فارغ ہوا تو ایک باغ میں یونہی ٹہلنے کے لئے چلا گیا۔ وہ کبھی کبھی اِس باغ کی طرف نکل جاتا تھا۔ شام کے گہرے ہوتے سائے اُسے بہت پسند تھے۔ مگر آج وہ عصر کے وقت ہی وہاں پہنچ چکا تھا۔ رہائش کے نام پر وہ صرف ایک چھوٹے سے کمرے میں رہ رہا تھا جس میں اُس کے علاوہ اور بھی دو آدمی تھے۔ جن کے ساتھ عاشر کی کبھی نہیں بنی یہی وجہ تھی کہ کام سے تھک ہار کر بھی وہ آرام کرنے اپنی رہائش جانے کا کچھ خاص شوقین نہ تھا۔

جب وہ باغ میں داخل ہوا تو یونہی چکر لگاتا ہوا باغ کے ایک سرے سے دوسرے تک آنے جانے لگا۔ کچھ دیر یونہی مٹر گشت کرتے ہوئے وہ وہاں پر مستقل لگے ہوئے لوہے کے بینچوں میں سے ایک ہر بیٹھ گیا اور سر آسمان کی طرف کرکے اُس کی وسعتیں ناپنے لگا۔ خاصی دیر تک وہ آسمان کی نیلاہٹ میں کھویا  رہا ۔ اُس کا منہ مشرق کی طرف تھا جبکہ اُس کی پشت کی جانب سورج مغرب میں ڈوبنے کو بیتاب نظر آرہا تھا۔ یونہی آسمان کو تکتے تکتے اُس نے اپنا سر سیدھا کیا۔

جیسے ہی اُس کی نگاہ سیدھ میں دیکھنے لگی عین سامنے دو تین فرلانگ پر لگے دوسرے بنچ پر اسے ایک خوبصورت جواں سال لڑکی بیٹھی نظر آئی۔ اور عاشر اُس وقت ششدر رہ گیا جب اُس نے محسوس کیا کہ وہ لڑکی اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اُس نے لڑکی کے سراپے پر ایک نظر ڈالی۔ بلاشبہ وہ ایک حسین و جمیل اور  جوان  تھی۔ کالے کھلے بال سرخ و سفید چہرہ سب سے زیادہ کشش اُس کی آنکھوں میں تھی جن سے وہ مسلسل عاشر کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔

اُس نے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے ساتھ میں اُس کے شانوں پر شفاف سفید ململ کی ہلکی چادر پڑی ہوئی تھی۔ جس نے اُس کی نسوانیت میں ہوشرباء طور پر اضافہ کردیا تھا۔ عاشر کچھ لمحوں تک اُس کے سراپے کو تکنے کے بعد اپنے پیچھے دیکھنے کے لئے گردان گھمائی وہ دیکھنا بلکہ یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ  واقعی وہ لڑکی اُسے ہی دیکھ رہی ہے یا پیچھے کوئی اور موجود ہے؟ اُس نے پیچھے دیکھ کر دائیں اور بائیں نگاہ ڈالی مگر وہاں کوئی اور موجود نہ تھا۔ عاشر کے بدن میں جیسے کسی نے انگارے بھر دیئے ہوں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی کوئی اَپسرا اُسے یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھے گی۔ اُس نے کافی غور کیا کہ ہوسکتا ہے یہ اُس کا وہم ہو مگر اُس کے وہم کی پھر سے نفی ہو گئی۔ وہ اُس کو ہی دیکھ رہی تھی۔

عاشر کی جوانی کے ساکن تالاب میں کسی نے برسوں بعد کوئی پتھر مارا تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کے وجود میں تلاطم کا برپا ہونا لازمی تھا۔ جواب میں وہ بھی اُسے یک ٹک دیکھنے لگا۔ جب نگاہوں کے اِس سرد جنگ نے ہیجان کی کیفیت اور صورت اختیار کی تو عاشر کے لئے اور اِس آزمائش کو سہنا قیامت ثابت ہونے لگا۔ وہ اُٹھا اور دھیمے قدموں سے اُس قاتِلہ کی طرف بڑھنے لگا۔ عاشر اُس کا نام جاننے کے جنون میں مبتلا ہوچکا تھا۔ وہ اُس کے بارے میں سب جاننے کا خواہاں تھا۔ وہ پہلی ایسی جوانی کے خمار میں ڈوبی ہوئی سرمست کوئل تھی جس نے اپنی خاموش نگاہوں سے عاشر کے برسوں سے ویران خشک جوانی کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔

عاشر نے دو قدم ہی بڑھائے ہونگے کہ ایک طرف سے ایک درمیانی عمر کی عورت نمودار ہوئی۔ جس کے ہاتھوں میں انگور سے آدھ بھرا ایک تھیلا تھا۔ عاشر وہیں رُک گیا کیونکہ وہ عورت اُسی طرف آرہی تھی جہاں وہ لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ عورت اُس کے پاس آئی اور پلاسٹک کے تھیلے سے انگور کا ایک خوشہ نکال کر اُس لڑکی کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

عاشر کی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ جیسے کاٹو تو بدن میں روح نہیں۔ کیونکہ اُس لڑکی نے آنے  والی عورت کے جسم کو پہچاننے کے لئے اُسے چھونے کی کوشش کی تھی۔ اُس سے رہا نہ گیا اور اُن کے پاس پہنچا۔ اور کہنے لگا۔

کیا یہ آپ کی بیٹی ہے؟

ہاں بیٹا یہ میری ہی بیٹی ہے اور ہماری قسمت کے میری بچی بچپن سے اندھی ہے بیچاری۔ اُس عورت نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

عاشر کی نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور اُس کو یوں محسوس ہوا جیسے چاروں اطراف سے اَن دیکھے لوگ اُس کی بیوقوف بننے پر قہقہے لگاتے ہوئے کہہ رہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

” آج کل ظاہری خوبصورتی ہی سب کچھ ہوتی ہے اندھی کو کیا معلوم کہ تم کون تھے”

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply