• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پشتون تحفظ تحریک : سوال کی حرمت کا سوال ہے۔۔۔ آصف محمود

پشتون تحفظ تحریک : سوال کی حرمت کا سوال ہے۔۔۔ آصف محمود

نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگایاگیا تو قوم پرستی سے بالاتر ہو کر لوگوں نے اس میں شرکت کی۔خود میں ہر روز دفتر سے واپسی پر اس میں شریک ہوتا رہا۔ یہ ایک بے گناہ پاکستانی کے قتل کا معاملہ تھا۔بزرگ پشتون دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے یہاں پہنچے تھے، وہ اس شہر میں مہمان تھے جو آئین اور قانون کے تحت ایک مطالبہ لے کر آئے تھے۔ میزبانی کے ادنی تقاضوں میں سے ایک یہ تھا کہ اس مطالبے میں ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جایا جائے۔ چنانچہ میری کئی شامیں وہاں اس عالم میں گزریں کہ پشتو میں ہونے والی تقریریں سنتا رہا اور پشتو مجھے آتی ہی نہیں تھی ۔ میرے لیے اتنا کافی تھا کہ میرے پاکستان کے لوگ ، آئین کے تحت ایک جائز مطالبہ لے کر میرے شہر میں آئے ہیں اور میں تمام لسانی ، علاقائی ، گروہی ، نسلی تمام تعصبات کو ٹھوکر مارکر اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوں کہ ہم سب پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے۔
اس کے بعد اچانک منظر نامہ بدل جاتا ہے ۔ اب ایک تحریک چل پڑی ہے جس کا نام ہے پشتون تحفظ تحریک۔اس تحریک کا حاصل چند سوالات ہیں؟
پہلا سوال یہ ہے کہ اس کا نام ’’ پشتون تحفظ تحریک ‘‘کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ وار آن ٹیرر‘ کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اس کا نشانہ صرف پشتون تھے ؟ مثال کے طور پر اگر گمشدہ لوگوں کا معاملہ لیا جائے تو یہ مسئلہ صرف پشتونوں کا نہیں ۔آمنہ مسعود جنجوعہ اور کئی دیگر لوگ ایک عرصے سے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے سڑکوں پر ہیں۔اب اگر مقصد ان کی رہائی تھا ، ان کے بارے میں آگہی درکار تھی اور یہ آئینی حق مانگنا مقصود تھا کہ جو لوگ زیر حراست ہیں انہیں عدالت میں پیش کیا جائے تو یہ مطالبہ تو پہلے سے کیا جا رہا ہے۔جزوی ہی سہی مگر کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔آپ کو ان سب کے ساتھ مل کر تمام پاکستانیوں کے لیے آواز اٹھانا چاہیے تھی ۔لیکن آپ نے بجائے ان سب کی آواز میں آواز ملانے کے اسے صرف پشتون قوم کا مسئلہ بنا دیا۔ کیا آپ سمجھا سکتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ملک بھر میں پشتون رہ رہے ہیں۔ کسی بھی شہر میں چلے جائیے وہاں آپ کو پشتون عزت سے کام کرتے نظر آئیں گے ۔خود کے پی کے میں پشتون بھر پور طریقے سے نظام زندگی کا حصہ ہیں۔قبائلی علاقوں میں البتہ مسئلہ ہے اور وہاں پر کچھ انتظامی قباحتیں بھی ہیں جنہیں دور کیا جانا چاہیے لیکن اس مسئلے کو ایک پوری قوم کا مسئلہ بنا کر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟کے پی کے اسمبلی میں کیا پشتون اراکین نہیں بیٹھے۔ کیا وہاں پنجابی وزیر کام کر رہے ہیں؟ کیا ان کا وزیر اعلی ایک منتخب پشتون نہیں؟محمود اچکزئی بھی ایک پشتون ہیں اور اس وقت ان کا خاندان غیر معمولی طور پر اقتدار سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ایسے میں آپ ایک پوری قوم کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر کیسے دے سکتے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟مسائل کا حل یا قوم پرستوں کی پختونستان کی ناکام تحریک کا احیاء؟ مسائل کے حل کی بجائے آپ کی توجہ ایک قوم کے جذبات ابھارنے پر ہے۔اس خطے کا ایک ماضی ہے۔ یہاں قوم پرستوں نے افغانستان اور بھارت سے مل کر پختونستان کی جو تحریک چلائی وہ ابھی قومی حافظے سے محو نہیں ہوئی۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب بتا رہی ہے کہ حقائق کیا تھے۔ایسے میں آپ اگر ریاستی اداروں کو سینگوں پر لے لین ، گالیاں دیں ، جلسوں میں ریاست تک کو نہ بخشیں اور شرکاء کو باور کرانا چاہیں کہ ریاست آپ کی دشمن ہے تو سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ جو لبرلز اور سیکولر اس وارفتگی سے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ کم بخت تو پڑوس میں دوست کے گھر رکھے جنازے میں نہیں جاتے ( اور یہ میں برائے وزنِ بیت نہیں کہہ رہا)یہ آپ کے جلسوں میں اتنے اہتمام سے کیسے جا کر فوٹو شوٹ کروا رہے ہیں۔امریکہ نے ڈرون حملوں سے یہاں مدارس کے سینکڑوں بچے مار دیے ان سیکولر اور لبرل فاشسٹوں کا ناشتہ تک اس سے بد مزہ نہ ہوا ۔اب اچانک انہیں کیسے خیال آیا کہ پشتونوں کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور وہ پاؤں جلی بندریا کی طرح بیتاب ہو گئے؟کیا وہ وہی لوگ نہیں جن کے سر پر آپریشن کا خون سوار تھا۔ اب جب آپریشن ہو گا تو اس میں کچھ مسائل تو پیدا ہوں گے۔ فوج کسی علاقے میں جائے گی تو شیما کرمانی کا رقص دکھا کر تو علاقہ خالی نہیں ہو گا۔ طاقت استعمال کرنا پڑے گی۔یہ لبرل اور سیکولر کس ایجنڈے پر ہیں؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی تحریک کو فکری کمک اب ان سیکولر حضرات سے مل رہی ہے جو اپنی ہی آگ میں جل رہے اور حقائق کو مسخ کر رہے ہیں یا ان کا اور آپ کا فکری سرچشمہ ایک ہے؟ آپ کی صفوں سے تازہ ارشاد گرامی یہ ہے کہ امریکہ کے ڈرون حملے تو بہت اچھے تھے ان میں صرف دہشت گرد نشانہ بنے جب کہ پاک فوج کی کارروائی میں عام شہری آبادی اور گھروں کو تباہ کیا جاتا۔اس بیانیے میں جو زہر اور خبث باطن چھپا ہے اس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے اس سے بے ہودہ جھوٹ شاید ہی کبھی بولا گیا ہو۔خود امریکی افواج کے سینیئر کاؤنٹر انسرجنسی ایڈوائزر ڈیوڈ کلکلن کا تیس مئی 2009 میں لاس اینجلس ٹائمز مین بیان شائع ہوا کہ ہم نے ڈرون حملوں سے القاعدہ کے 14 لوگوں کو مارا اور اس دوران 700 عام شہری قتل ہوئے۔تعصب آدمی کو اندھا نہ کر چکا ہو تویہ ایک اور دس کا تناسب ہے۔کیتھرین تائڈ مین نے ’’ ریوینج آف ڈرون‘‘ میں لکھا کہ ڈرون سے مارے جانے والوں میں 60 فیصد عام شہری ہیں۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ڈینئیل بے مین نے اپنی تحریر Do Target Killings Work میں لکھا کہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کا 90 فیصد معصوم شہریوں پر مشتمل ہے۔میں یہ ساری تفصیل اپنی کتاب Drone Attacks: International law burns in Hellfire میں لکھ چکا ہوں۔لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کے خلاف زہر اگلنا ہے اور امریکہ کی ہر حرکت کا دفاع کرنا ہے۔ یہ رویہ بتا رہا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ہم تو پہلے دن سے ڈرون حملوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔انہیں اڈے دینے پر بھی احتجاج کر تے رہے۔لیکن اب آپ کے ہمدرد قلمی کارندے ہمیں بتا رہے ہیں کہ جن ڈرون حملوں میں معصوم پشتون بچے اور بچیاں قتل ہوتی رہیں وہ تو اچھے تھے ۔کیوں کہ وہ امریکہ کر رہا تھا۔یہ کارندے تو قلم سے ازار بند ڈالتے ہی آئے ہیں آپ بتائیے کیا آپ کی نمائندگی کا منصب ان کارندوں کے ہاتھ میں ہے؟
پانچواں سوال یہ ہے کہ فوج چیک پوسٹوں پر موجود ہی کیوں ہے؟َفوج کا کام اس وقت ختم ہو گیا تھا جب علاقہ کلیئر ہوا۔اس کے بعد یہ پولیس کا کام تھا۔ پولیس کی تربیت کس نے کرنا تھی؟ اس حکومت نے جس کا ایک اہم ستون مشر محمود خان اچکزئی ہے۔ کیا اس ستون سے آپ نے کبھی پوچھا کہ اپنے خاندان کو تو اس نے اقتدار کی برسات میں لا کر مزے سے بٹھا دیا لیکن کبھی نواز شریف سے بھی پوچھا کہ پولیس اور دیگر اداروں کے لیے اس نے کیا کیا۔ عدالتی نظام کمزور ہو تو ملٹری کورٹس بنا دو، اور پولیس کا ڈھانچہ بہتر نہ کر سکو تو فوج کو چیک پوسٹ پر بھی کھڑا کر دو۔سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس سارے عرصے میں کیا کیا؟ کیا اس کا کام صرف مال پانی بنانا ہے؟اداروں اور ریاست کو گالیاں دینے سے فرصت ملے تو مُشر صاحب سے بھی چار سوال پوچھ لیے جائیں کہ ان کی اور ان کے ممدوح کی کارکردگی کیا رہی؟
محض مطالبات ہی سب کچھ نہیں ہوتے حکمت عملی بھی اہم ہوتی ہے۔مطالبات تو مولانا عبد الرشید غازی کے بھی غلط نہیں تھے اور شائد خود طالبان کے بھی۔آپ کے بھی مطالبات نہیں ، حکمت عملی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔جواب دیجیے کیونکہ یہ سوال کی حرمت کا سوال ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply