لالچی کون؟

اسلم اور شیراز میڈیکل کالج میں آخری سال کے اسٹوڈنٹ ہیں، اسلم کی منگنی جس لڑکی سے ہوئی وہ ایک مربع زمین کی اکلوتی وارث ہے اور سب اسلم کو لالچی کہتے ہیں کیونکہ اُس نے زمین دیکھ کر شادی کی ہے۔ شیراز کی منگنی میڈیکل اسٹوڈنٹ سے ہوئی ہے ،شیراز سرجری میں اسپیشلائزیشن کرنا چاہتا ہے جبکہ اپنی منگیتر کو انستھیزیا میں اسپیشلائزیشن کرنے کا کہہ دیا ہے۔ جب شیراز ہر سرجری کے پندرہ ہزار لے گا تو اُسی مریض کو انستھیزیا دینے یعنی بیہوش کرنے کے اُسکی منگیتر پانچ ہزار لے گی، اس طرح منگیتر آسانی سے مہینے کے چار سے پانچ لاکھ اور سال کے پچاس لاکھ سے زائد کما لے گی۔ سب یار دوست شیراز کو سمجھدار، دور اندیش اور پریکٹس کے اسرارو رموز جاننے والا مانتے ہیں، کوئی اُسے لالچی نہیں کہتا۔ یاد رہے کہ اسلم کو جہیز میں ملنے والی ایک مربع زمین کا سالانہ ٹھیکہ یا منافع دس بارہ لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگا۔حمزہ نے “LUMS” سے ایم بی اے کرکے ایک بڑے دولتمند سیٹھ کی بیٹی سے شادی کی تھی تاکہ وہ سیٹھ “داماد” کو اپنے کاروبار میں سیٹ کر لے،حمزہ کو سب سسر کا کاروبار ہتھیانے کے لالچ میں یہ شادی کرنے کرنے کا طعنہ دیتے ہیں ۔یاسر نےایک بچے کی طلاق یافتہ ماں سے شادی کی ہے جو کہ امریکی شہری ہے،لالچ امریکہ میں”سیٹ “ہونے کا تھا، لیکن کچھ لوگ اسے”ثواب” کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کچھ”فیوچر پلاننگ” کی دانشمندی میں۔ امریکہ میں نوکری نہ ملنے پر سسرال کو مجبوراً حمزہ کو اپنے میکڈونلڈ کے بزنس میں “ایڈجسٹ “کرنا پڑا،لیکن پھر بھی اسے کوئی لالچی نہیں کہتا۔بدر میمن کے خاندان میں دولت کے دریا بہتے تھے لیکن دولت کو باہر جانے سے روکنے کے لئے آپس میں ہی شادیاں کرکے سارا خاندان چھوٹے سے قد اور عجیب سی شکل کا بن گیا تھا۔ بدر میمن نے کالج کی حسین ترین لڑکی سے شادی کرنے کی ٹھانی جوکہ چپڑاسی کی بیٹی تھی تاکہ آنے والی نسل پر کچھرنگ روپ آئے، پورے کالج اور شہر میں میمنوں کی انسانوں سے محبت اور غریب پروری کی دھوم مچ گئی۔ سلیم بِلّا، بھوری آنکھوں والا کالج کا خوبرو ترین لڑکا تھا، پھیری لگانے والے باپ، بیمار ماں اور آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ دو کمروں کے کوارٹر میں رہتا تھا۔ نوکری ویسے ہی ملنے کی اُمید نہیں تھی کیونکہ سفارش نہیں تھی،ایک واجبی سی شکل کی مگر بہت بڑے تاجر کی بیٹی اسے پسند کرتی تھی۔۔۔ گو کہ سلیم بِلے کو لڑکی پسند نہیں تھی لیکن پھر بھی دولت کی خاطر شادی کرلی تاکہ گھر کے حالات بہتر ہو سکیں۔ اُنکی جوڑی دیکھ کر سب کے ذہن میں پہلا لفظ”لالچ” ہی آتا تھا۔
برسوں سے لالچ کا لفظ مال و دولت سے جوڑ کر چند لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے حالانکہ لالچ ہر اُس چیز کا ہوتا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ سیاستدان اپنی طاقت کو دولت کےساتھ جوڑنے کے لالچ میں صنعت کاروں کے ساتھ رشتے کرتے ہیں جبکہ مڈل کلاس لوگ محنت سے دولت حاصل کرکے کسی اثرو رسوخ والے خاندان سے رشتہ داری کا لالچ رکھتے ہیں، جس کی کوئی عزت نہیں وہ لالچ سے عزت لینا چاہتا ہے اور جنہیں دولت ہونے کے باوجود کوئی نہیں جانتا وہ شہرت کے لالچ میں کھلاڑیوں یا فنکاروں سے شادی کرتے ہیں، کوئی حُسن پر مر مٹتا ہے تو کہیں اعلیٰ تعلیم پر رالیں ٹپکتی ہیں، کسی لڑکی کو سسرال کے جھنجھٹ سے دور ” اکیلا” لڑکا بھاتا ہے تو کوئی گرین کارڈ کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے۔ انسانوں کی ذات اور صفات سے وابستہ لالچ کو محبت کے غلاف میں لپیٹ دیا جاتا ہے جبکہ مال و دولت کے لالچ کو برہنہ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ لالچ بہرحال بُری چیز ہے گو کہ کوئی اس سے بچا نہیں،لالچ سے ہی سہی لیکن کسی بھی چیز یا انسان کو حاصل کرنے کے بعد اس سے نباہ ضروری ہے اور اگر اختتام اچھا ہو تو پھر آغاز کا لالچ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

فائدہ افنان
شرجیل اکاڈمی کراچی پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply