میں بھی مشال خان ہوں

مشعال خان کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا اس نے مجھ جیسے بہت سے دوستوں کے دلوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اس کو ایک نا کردہ گناہ کی سزا دی گئی اور الزام بھی ایسا لگایا کہ سیکولر سے سیکولر لوگ بھی اس کے قتل کی مذمت کرنے کے لئے تاویلیں ڈھونڈتے رہے۔ تاہم اطمینان اور خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت سے مجاہدین کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی مشعال خان کو گناہ گار ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اگرچہ مخصوص ذہنیت والےلوگ انہیں ملحدوں کے ملک میں پڑھنے کی بنا پر ملحد ڈکلیر کر چکے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداناخواستہ اگر مشعال خان نے کوئی توہین مذہب کی بھی ہوتی تو کیا جو لوگ آج اس کے ساتھ کھڑے ہیں تب بھی کھڑے ہوتے؟ شاید بہت ہی کم لوگ مشعال کے ساتھ اس صورت میں کھڑے رہ پاتے۔ ہمارے معاشرتی رویے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں بھپرے ہوئے جلوس کو ایک نعرہ ہی درکار ہوتا ہے۔ جلوس سوچتا نہیں بس عمل ہی کرتا ہے لیکن اس صورت میں بھی المیہ یہ ہے کہ بعد میں بھی کسی کو اپنے عمل پر خوداحتسابی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا، ہم جیسے بہت سوں کے سامنے قادری غازی ہو گئے۔ علامہ خادم حسین رضوی کے پیروکاروں کے علاوہ بھی جس کسی سے اس واقعے پر بات کی وہ سلمان تاثیر کو گناہگار ثابت نہ کر سکے تو آخر میں یہی کہہ دیتے کہ اس نے ایک گناہگار کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ اب چند روز پہلے کی بات ہے، چترال میں اس مولانا صاحب کے ساتھ کیا ہوا جس نے توہین مذہب کے ملزم کو پولیس کے حوالے کیا۔۔۔ یعنی عوام خود اس ملزم کا فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کے اگلے روز سیالکوٹ میں 14 سال بعد ایک ملزم کو قتل کیا گیا، تو اگر کوئی مشعال خان کے جرم کے بعد اس کے ساتھ کھڑا رہتا اس کی خیر نہیں تھی۔ خاص طور پر ان لوگوں کا کیا بنتا جن کو صوابی کے مولانا صاحب نے مشعال کا جنازہ پڑھنے سے منع کیا تھا، شیرین یار کا کیا بنتا، سید عالم محسود کیا ابھی تک زندہ ہوتے؟ طارق افغان کیا اب بھی اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہے ہوتے؟اور ہاں کیا مجھ جیسے کئی لوگوں کی خیر تھی جنہوں نے جیسے ہی اس قتل کا سنا اس کے خلاف آواز اٹھائی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ گناہگار یا بے گناہ کا نہیں بلکہ جلوس اور بلوے کا ہے، اگر جلوسوں اور بلووں نے ہی کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنا ہے تو ریاست کا خدا ہی حافظ، پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں اگرچہ ان کو بہت بری نیت سے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن پھر بھی موجود تو ہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی خود سے قانون ہاتھ میں لے۔ یار دوستوں کو شکوہ ہے کہ توہین رسالت کے مجرموں میں سے کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی لیکن کیا مجھے کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ کسی ایک بھی ملزم کو ہم نے اپنی صفائی کا موقع دیا ہے آج تک ؟ کیا ان وکلاء اور جج صاحبان کو دھمکیاں نہیں دی گئیں اور ان پر قاتلانہ حملے نہیں کیے گئے جو ان ملزموں کا کیس لڑ رہے تھے؟ آج بھی ایسے کئی کیسزاسی وجہ سے حل نہیں ہو رہے کہ باہر بلوہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جن پر الزام لگا، غلط ثابت ہوا، لیکن انہوں نے 5،5 اور 8،8 سال جیل میں گزارے۔۔۔۔ کیوں ؟ کیونکہ ان کو کوئی وکیل میسر نہیں تھا۔ ان لوگوں کو اس ناکردہ جرم میں بھگتی سزا کا کفارہ کون ادا کرے گا؟ کیا ہم میں سے کسی نے اس بارے بھی سوچا ہے یا سب انہیں تختہ دار پر لٹکانے کے منتظر ہیں؟ کیا کبھی کسی مجاہد اور عاشق رسول نے ان غلط الزام لگانے والوں کے متعلق کچھ کہنے کی زحمت کی؟؟
مشعال خان کے کیس میں مجھے افسوس اس بات کا ہو رہا ہے کہ اب اس کے یار دوست اس کو ایک پکا سچا مسلمان ثابت کرنے کے درپے ہیں۔ ارے بابا اس سے اب کیا ہونے والا ہے ،مشعال نے جانا تھا چلا گیا۔ اب کسی سے اس کے ایمان کے سرٹیفکیٹ لینے کی کیا ضرورت؟ اس کا معاملہ اب اللہ کی عدالت میں پیش ہوگا، وہی اس کا فیصلہ کریں گے۔ مشعال خان کے کیس سے ہمیں سبق سیکھنا ہوگا کہ بحیثیت مجموعی ہم نے اپنے معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہے۔ اگر توہین مذہب کے ضیاء الحقی قوانین مجرم کو سزا دلوا سکتے ہیں اور نہ بے گناہ کو سزا سے بچا سکتے ہیں تو اس پر مکالمہ کیا جانا چاہیئے۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین آسمانی صحیفے نہیں ہوتے جن پر بات بھی نہیں کی جاسکتی۔ میں اس پر بات کر رہا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ ان قوانین میں تبدیلی اور اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ ہاں اگر کل کو مجھے اس بات پر قتل کیا گیا تو یار دوستوں سے گزارش ہے کہ میری مسلمانی کے سر ٹیفکیٹ مت ڈھونڈے جائیں۔ میں گناہ اور بے گناہ کے لاحقے اور قید سے آزاد سلمان تاثیر کے ساتھ بھی کھڑا تھا اور مشعال خان کے ساتھ بھی کھڑا ہوں۔

Facebook Comments

واجد محمود خٹک
سیاسیات کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply