ایک کہانی ، بڑی پرانی۔۔۔سیمیں کرن

“کیا آپ کہانیاں سُننے میں دلچسپی رکھتے ہیں!”
گر  دلچسپی رکھتے ہیں   تو آپ انسانی قدیم دانش کے ایک بہت بڑے ماخذ سے محروم ہیں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پرانی بڑی بوڑھیاں حکمت و سبق کو کسی نہ کسی کہانی یا متھ سے وابستہ کر دیا کرتی تھیں اور پھر یہ کہانی نسل در نسل سفر کرتے ہوئے علاقائی، ملکی ثقافت و رسم و رواج کا حصہ بن جایا کرتی تھیں!
اور پھر جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔۔۔ ایک ایسے ناراض بیٹے کی ، حساس بیٹے کی جس کو گھر سے بہت سی شکایتیں ہیں اور بڑے بھائی کے لئے بے جا اختیارات اس کے غم وغصے کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی اُس پہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ وہ گھر میں اِک عضو معطل اور بوجھ سمجھا جاتاہے، اِن شکایتوں میں بڑے بھائی کے ناروا رویے کی وجہ سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ گلے جائز ہیں کچھ ناجائز۔۔۔مگر کہانی کا انجام ہمیشہ ماں کے رویے سے مختلف ہو جاتا ہے! ہو جایا کرتا ہے، عقلمند مائیں بیٹے ے گلے شکوے کو زبان دے دیتی ہیں ۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے فاسد پھوڑے کو چیرا دے کر جراح فاسد مواد کو بہہ جانے دیا کرتے ہیں، گلہ شکوہ بھی بروقت نہ سُناجائے تو زہر بن جایا کرتا ہے!

مُنو بھائی کہا کرتے تھےکہ میں نے مسائل کاادراک کرنا ، ان کی گہرائی کو سمجھنا،عورت کی نظر سے سیکھا!
میں اکثر سوچتی ہوں کاش ایسی کوئی نظر ہمارے اربابِ قدر اور اُن اداروں کو بھی حاصل ہو جائے جو ہمارے حاکم کہلاتے ہیں!منظور پشین بھی تو گھر کا ، اسی ریاست ماں کا، اک جنگ زدہ، مصیبت زدہ ،حساس علاقے کا ناراض بیٹا ہے جو آپ سے اپنا حق، جائز حق ہی مانگ رہا ہے!
وہ چوبیس برس کا کم سِن سا نوجوان ہے جس نے آنکھ ہی جنگ کے دنوں میں کھولی تو آپ کو اس کے سماجی شعور پر شک نہیں کرنا چاہیے!

جنگ اور امن کی پیدائش میں بہت فرق ہوا کرتا ہے!اور اگر آپ کو یہ شک ہے کہ اس کی تحریک ہائی جیک کی جا رہی ہے تو بھی قصور آپ کا ہے، آپ نےاِس بھری پلیٹ کو ننگا کیوں چھوڑ دیا؟ لاوارث کو کوئی بھی   اٹھا کر لے جائے؟
بروقت فاسدمادے کو چیرا دے کراخراج کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟

منظور پشین کی باتیں” ڈان نیوز” میں اور ” ذ را ہٹ کے” پروگرام کہ جس کے میزبان وسعت اللہ خان، مبشر زیدی اور ضرار محمود ہیں ،میں تفصیل سے سننے کو ملیں۔ اس طرح کی توفیق ایسے ہی کسی روشن خیالیے  کوہی ہو سکتی تھی۔ متعصب ذہنوں، بکے میڈیا سے ایسی توفیق ممکن نہیں اور اس بات کا اظہار بھی وسعت اللہ خان نے برملا کیا کہ منظور پشین کی تحریک کو سوشل میڈیا نے اہمیت دی!مگر سوشل میڈیا کی مسلمہ اہمیت اپنی جگہ ، مگر یہاں بھان متی کے کنبے کی طرح  مختلف قسم کےلوگ موجود ہیں! اور واضح طور پر غیر معقول لوگ جو دو بھائیوں کی لڑائی میں صرف بی جمالو کا کردار ادا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے!
سو اس بات کی ضرورت ہے کہ منطر نامہ واضح کیا جائے!

منظور پشین، سروگئی جنوبی وزیرستان کا ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے۔ ویٹرنری میڈیسن میں ماسٹر کررکھا ہے، آغاز میں وہ ٹرائیل ایسوسی ایشن کا صدر رہا، عام لوگوں کے لئے بارودی سرنگوں اور ایمونیشن کے بارے میں آگاہی مہم شروع کی، وٹس ایپ کے ذریعے زخمی اور مرنے والوں کی تصاویر و معلومات بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا تک بھیجتا رہا!
اب ڈیڑھ ماہ سے پشتون تحفظ موومنٹ کافرنٹ مین ہے!

ثراب کوٹ میں اس کا جلسہ اتنا کامیاب رہا کہ سیاسی راہنماؤں کو اس کو سننے پر مجبور ہونا پڑا۔اس میں اسلام آباد کے لانگ مارچ، پُرامن دھرنے، قبائلی علاقوں کی اس دھرنے میں پر امن نمائندگی اور نقیب اللہ محسودکا خون ناحق۔۔۔ یہی وہ عوامل ہیں جو پشتون تحفظ تحریک کے جنم کا باعث بنے ہیں!آنچ، ءحدت اور لاوہ ہمیشہ ایک مدت سے زیر زمین پک رہے ہوتے ہیں،زلزلہ بظاہراچانک محسوس ہوا کرتا ہے!

فاٹا کا یہ جنگ و شورش زدہ علاقہ جہاں لوگ بالعموم اور پختون بالخصوص سب سے زیادہ متاثر شدہ ہیں،اس جنگ میں ان کی قربانیاں بلا شک و شبہ ناقابل فراموش ہیں۔ محسود قبیلہ جو بیک وقت مظلوم بھی ہے اور ظالموں کے ساتھ بھی شامل  اور  ملوث  ہے، اسی بِنا پر  مشکوک بھی ٹھہرا۔منظور پشین نے برملا پروگرام میں کہا کہ ایکسٹرا جوڈیشیل کلنگ 2005ءسے شروع ہوئی ، آواز اٹھانے پہ نامعلوم افراد کی جانب سے یہ لوگ قتل کیے جاتے رہےاور جب ہم 2008ء اور 2009ء میں  آپریشن کی وجہ سے شہری علاقوں میں آئے تو مشکوک نظروں سے دیکھے گئے۔ سکول کالج یونیورسٹی ہر جگہ ہم پہ دہشت گرد کا ٹھپہ لگ جاتا تھا، ہمارے راہنما ایم این اے مولانا معراج دین نے ایوان میں فوج کے کردار پر تنقید کی تو اس آواز کو شوٹ کر دیا گیا پھر سب کو پتا چل گیا کہ یہاں غیرت مانگنا، حق مانگنا خود کو مار لینے کے مترادف ہے۔

جب منظور پشین سے پوچھا گیا کہ نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل اور اس کے بعد یہ غم وغصہ، تحریک کے خدوخال یہ پورا ایک ڈیزائین ہے یا یہ قدرتی ہے تو اس کا جواب تھا؟۔۔۔
“یہ پہلا قتل نہیں ، ہزاروں قتل ہو چکے، بنگال میں کہتے تھے کہ زمین چاہیے، لوگ نہیں مگر یہاں ہماری جان اور زمین دونوں چاہییں انہیں ۔ احتجاج جب شروع ہوا تو سب فاٹا اور وزیرستان والے نہیں تھے۔ ہم آغاز میں صرف بائیس آدمی تھے، اسلام آباد پہنچنے تک ہزاروں ہو گئے!
اور تحریک کے واضح مقاصد کے بارے پوچھا گیا تواس نے کہا۔۔
“ایکسٹرا جوڈیشیل کلنگ روکی جائے!

راؤ  انوار کو گرفتار کیا جائے (انوار راؤگرفتار ہو چکا، یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔) بارودی سرنگوں کی صفائی کی جائے ۔ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے ،جو لوگ بے گناہ ہیں رہا کر دیئے جائیں، جو قصوروارہیں انہیں عدالت کے حوالےکیا جائے!
یہاں پھر اس سے سوال ہوا کہ کیا اسلام آباد حکومت نے آپ سے کوئی وعدے وعید کئے اگر کئے توان میں سے کون سے وعدے پورے ہوئے؟ شنید ہے کہ اکہتر لوگ واپس بھی آئے ہیں تو مطلب حل نکلنا شروع ہوا؟ حالات میں بہتری آئی!
تو منظور پشین کا کہنا تھا۔۔
“ہاں دو سو پچاس گھر آ چکے ۔

ایکسٹرا جودیشیل کمیشن کا وعدہ ابھی ایفا نہیں ہوا۔
جو لاپتہ افراد بے گناہ ہیں وہ رہا کیوں نہیں کئے جاتے ۔ ان کے بارے اطلاع دی جائے، باقی عدالت کے حوالے کئے جائیں!
بارودی سرنگوں کی صفائی کا بھی عمل ابھی مکمل طور پر عمل میں نہیں لایا گیا کچھ جگہوں پر صفائی  شروع ہو گئی  ہے۔
وزیرستان جنوبی ہو یا شمالی غیر ضروری کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ ہنوز حل طلب ہے وزیرستان میں حالات معمول پربھی ہوں تو ہفتہ،اتوار معمول کے مطابق کرفیو لگتا ہے!
ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھاکہ عورتوں ، بوڑھوں اوربچوں پہ حملہ نہیں کیا جائے گا یہ خوش آئند ہے ۔کچھ آغاز ہوا مگر ابھی کرنے کو بہت کچھ باقی ہے۔

منظور پشین کا مزید کہناتھا۔۔۔ہم روڈ، راشن یا ہسپتال نہیں مانگ رہے ۔۔زندگی، جینے کا حق مانگ رہے ہیں، لاپتہ افراد کے کمیشن کو کیوں سنجیدگی سے  نہیں لیا  جاتا، ڈائریکٹ شوٹ کی بناء پر سزا، سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ 444 لوگ ماورائے عدالت قتل کئے جا چکے!

چیک پوسٹس اور پوائنٹس پہ تنقید  بارے   سوال ک اجواب دیتے ہوئے منظور کا کہنا تھا کہ    مانا یہ بہت تکلیف دہ مگرایک سامنے مثال ہے کہ رائے ونڈ میں پولیس ناکے پر دھماکہ گر پبلک پوائنٹ پر ہو جاتا تو نقصان بڑھ جاتا وہ بھی کئی گنا۔
اس کا جواب اس نے کچھ یوں دیا” فاٹا میں ہر دو تین کلو میٹر کے بعد چیک پوائنٹس اور چیک پوسٹس چالیس کلو میٹر میں سترہ چیک پوسٹس اور پھر جو سلوک ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ ناقابل بیان اور  غلیظ ہے، گاؤں سے لوگوں کو نکال کر تشدد کرنا، گالیاں دینا اور  ذلیل کرنا، تین سو میل تک کی لمبی لائنیں، چیکنگ ،نامناسب الفاط جو یہاں بیان نہیں کئے جا سکتے، وطن کارڈ اور شناختی علامت کا خاتمہ شروع ہواور نامناسب رویے پہ فوجی حکام عذر دیتے ہیں ہو سکتاہے اسکا بیٹا بیمار ہو، وہ خود پریشان ہو آپ یہ بتائیں گر سویلین کا بیٹا بیمار ہو تو وہ کیا کرے؟ ”

اس نے مزید کہا کہ اس کو سنجیدہ لیں، خواتین کی خواتین چیکنگ کریں اور لوگوں کو اعتاد میں لیں کہ یہ آپ کے فائدہ کے لئے ہے!
جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کی تحریک ہائی جیک ہو گئی ہےکیونکہ افغانی صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم کی ٹیویٹ نے شکوک کی راہیں کھول دیں ہیں۔
اس کا جواب اس نے کچھ یوں دیا کہ میں کہتا ہوں کہ ہمارا صدر کہاں تھا؟
ملک میں شام، برما اور دیگر اقوام کے لئے جلسے ہو سکتے ہیں تو ہمارے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھتی، ہمیں را اور انڈین ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے۔

میڈیا کے سوال پہ اس نے کہا ” کیا قادری سے اور عمران خان سے کسی نے پوچھا تھا کہ اس دھرنے کو فنڈ کون دے رہا ہے اسے بتایاگیا کہ عدالت نے یہ سوال اس سے پوچھا۔۔
اس نے جواب دیا دیکھیے  جنگ کی نظر ڈیڑھ لاکھ پختون ہو چکے، بہت زیادہ متاثر شدہ لوگ ہیں وہ بھی مدد کرتے ہیں چندے کی اپیل بھی کی جاتی ہے، محسود قبیلہ ہی مدد کرتا ہے!

یہاں پروگرام کے میزبانوں کی تعریف کرنا ناگزیر ہے کہ منطور پشین کو بار باریہ باور کرایا گیا کہ یہ اس پہ گہری ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کو خالص رکھے اور اسے ہائی جیک نہ ہونے دے!

اسے پوچھا گیا کہ فاٹا اصطلاحات جن پہ اے ۔این ۔پی اور جے۔ یو ۔آئی خوش نہیں ہیں” اس کا کیا موقف ہے!
اس نے جواب دیا کہ ہم تو بس زندگی اور امن مانگتے ہیں عزت مانگتے ہیں ، غلام زندگی نہ ہو۔ تو اسے پھر پوچھا گیا کہ وہ سوال سے گریز کیوں کر رہا ہے جب کہ اصطلاحات کا مقصد بھی یہی ہے ، عوام کی دو رائے ہیں کہ فاٹا کا علاقہ یا تو ک۔پی ۔ کے میں ضم ہو جائے یا الگ صوبہ بنادیا جائے، اس کی رائے کیا ہے ” اس نے جواب دیا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ پاکستان کا  آئین ایکسٹینڈ ہو جائے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ علاقہ کے۔ پی ۔کے میں ضم ہو جائے!

اس کے عزائم ہیں گر اس کے مطالبات نہ سنے گے تو پھر وہ پشاور، کراچی ، سوات، بلوچستان میں جلسے کرے  گا اوراس کے بعدآخری راستہ اسلام آبادمیں دھرنا ہو گا!

یہ اس کہانی کے ایک بھائی کی کہانی ہے جو اس کی زبانی ہے!
اس کہانی کا دوسرا فریق اور ہمارا سب سے اہم ادارہ فوج ہے!
مانا کہ ہمیں فوج کے کردار اور مداخلت پہ تحفظات ہو سکتے ہیں ! مگر یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس ادارے نے بے مثل قربانیاں دی ہیں ، ہزاروں جوان اس جنگ کا ایندھن بن چکے اور جو ایندھن اس جنگ میں راکھ ہواوہ ہمارے ہی بیٹے تھے!اس حساس علاقے کی عملا ً عملداری ہمیشہ سے ہی فوج کےہاتھ میں رہی ہے ، گو بظاہر کار اختیار بہت رسمی اور لامحدود رہا ہے۔سو ان دواہم فریقوں کے درمیان بڑھتی خلیج اور نفرت کو پاٹنے کے لئے سیاسی پل بہت ضروری ہے!

پاک فوج نے اس علاقے کو ہزاروں ازبکوں ، چیچن، افغان درندوں کی دست برد سے نکالا ہے ۔یہ ان کی عزتوں اور لہو کے سوداگر تھے۔مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے  کہ ان کو لیکر آنے والا بھی اک مارشل لاء حکمران تھا!
سوال تویہ ہے کہ ان کو لے کر کون آیا تھا؟
پھر اک اہم پہلو چیک پوسٹس سے ہونے والی سمگلنگ ،منشیات کی روک تھام ہے اور اس کی تکلیف افغانستان سے لیکر دور تک محسوس کی جا رہی ہو گی!
سو یہ وقت فہم و دتدبر کا ہے!
گِلے دور کر کے فاسد مواد کو بہہ جانے دیجئے،سیاسی پل ایک آڑ بن جاتے ہیں فوجی اور سویلین کے تحفظ میں ،مگر سوال یہ ہے کہ یہ گھنٹی بلی کے گلے میں کون باندھے گا؟کیا سیاسی حکومتوں کو ہم نے اتنا مضبوط بنایا ہے؟
یہ ایک طویل جنگ میں گھرے دو بھائیوں کی ہولناک کہانی ہے! اور اس کا سب سے اہم اور نظر انداز کیا جانے والا پہلو یہ ہے کہ جہاں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے کہ جب جنگجو تیار کئے جاتے ہیں ہیں ایک علاقے میں خود لائے جاتے ہیں تو کیا مقاصد حاصل کر لینے کے بعد ان کے لئے کوئی متبادل پلان بھی رکھاجاتا ہے؟
یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟

یہ سوال پختون حقوق نگل گیا ہے اور آپ سے سوال کر رہا ہے کہ آپ، ہم ،اسے انسانی ہمدردری کے عدسے سے کب دیکھیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب آ پ جاتے جاتے یہ بات سن لیجئے
فال  آف  رومن ایمپائر کا قصہ ہے جب بادشاہوں نے آپس میں جنگیں لڑنا بند کر دیں تو جنگجو بیکار بیٹھے سوچتے تھے کہ وہ اب کیا کریں ؟ انہوں نے اپنے اپنے گینگ بنائے اور علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ سب جنگجو اکٹھے ہوئے اور ان سب نے مل کر رومن حکومت سنبھال لی!
ہم جنگجوؤں کے خلاف جنگ جیت چکے!
اگلامرحلہ جنگ نہیں، سمجھداری اور سیاست کا میدان ہے، یہی ہمارا امتحان ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply