مقصد کسی مسلک کی دلآزاری نہیں۔۔۔عبدالرؤف

میں نے پچھلے سال بھی مکالمہ پر اک کالم لکھا تھا جس کا مرکز و محور صرف اور صرف عوام الناس کی تکلیف کا مداوا کرنا تھا نا کہ کسی مسلک یا فرقے کی دلآزاری ۔۔۔محرم الحرام جہاں اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے وہیں یہ مہینہ شہادتوں کا مہینہ بھی ہے ، محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے ہی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو ہوئی ، جسے دشمن اسلام ، ابو لولو فیروز مجوسی نے مسجد میں عین سجدے کی حالت میں شہید کیا ، اس کے بعد نو اور دس محرم الحرام کو اہلبیت کی شہادت ، ہمارا تو پورا اسلامی سال ہی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سال کا آخری مہینہ بھی قربانی سے بھرا ہُوا ،اور سال کا پہلا مہینہ بھی قربانی اور شہادتوں سے لبریز۔
جہاں ہمیں اس مہینے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ظالم کے آگے جھکنے سے انکار ، وہیں ہمیں یہ درس بھی ملتا ہےکہ ہر حال میں انسانیت کو مقدم جانو ، جب ہم قربانی کی بات کرتے ہیں تو پھر ہم انسانیت کے لیے قربان ہونے کو تیار کیوں نہیں ؟

آپ پوری دنیا کے مذاہب کو کھنگال لیں، آپ کو کہیں بھی عبادت چلتی  پھرتی  نظر نہیں آئے گی ، باقاعدہ عبادت گاہیں بنی ہوئی ہوتی ہیں جہاں وہ اپنی عبادت کا پرچار کرتے ہیں ،ہم مذہب مسلک فرقے کی بات نہیں کرتے، نہ ہی ہم کسی کے مسلک کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں ، اور نہ ہی ہمیں کسی مسلک سے ذاتی بیر ہے۔

محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی کچھ لوگ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ محرام الحرام کی ان تاریخوں میں جہاں کچھ لوگ اسے اپنی عبادت سمجھتے ہیں وہیں کچھ لوگ اپنے لیے پریشانی کا سبب بھی سمجھتے ہیں اس کی وجہ جگہ جگہ خاردار تاریں لگا کر مصروف شاہراہوں کو بند کردیا جاتا ہے ، عوام اس بات کو کسی بھی طرح درست نہیں سمجھتی۔
ہمیں تمام مسالک کا احترام اور ان کی عزت وتکریم کرنی چاہیے ، ہم کسی مسلک یا فرقے پر تبرا یا اس کی توہین نہیں کرتے ہم اعتراض حکومت کی ناقص پالیسیوں پر کرتے ہیں ،دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو اسے آزادی ہے کہ وہ اپنی عبادت کرے ،لیکن عبادات کسی دوسرے شخص کی دلآزاری کا سبب نہ بنے ،کچھ لوگ دنیا کے تمام مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر مذہب اپنی عبادت اپنی مخصوص عبادت گاہ میں کرتا ہے ،وہ شاہراہوں اور سڑکوں پر آکر لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب نہیں بنتے ، اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ،لیکن یہ معاملات حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھے اور وہ لوگ جو اپنی عبادت ان مخصوص دنوں میں کرنا چاہتے ہیں انھیں وہ راستے اور علاقے مخصوص کیے جائیں جس پر وہ بآسانی اپنی عبادت کرسکیں ،
کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ اک گروہ کو کھلا چھوڑ دو اور وہ شہروں اور گلیوں میں جتھے کے جتھے گھومتے رہیں اور دوسرا طبقہ ان سرگرمیوں کی وجہ سے تکلیف سے دوچار ہوں ، آپ اپنی عبادت کریں کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کی راہ میں رکاوٹ بنے ، لیکن ہر معزز شہری کا یہ حق ہے کہ وہ حکومت وقت سے یہ سوال کرے کہ عبادت کے لیے اک مخصوص جگہ یا میدان کیوں نہیں دیا جاتا تاکہ یہ لوگ خود بھی سکون سے رہیں اور عوام الناس بھی تکلیف سے دوچار نہ ہوں ۔

اکثر ان دنوں میں ، کچھ لوگ اس حوالے سے لکھتے ہیں اور ان کمزوریوں پر حکومت کی پکڑ کرتے ہیں لیکن اک مخصوص طبقہ اسے مسلک اور تنگ نظری کی حیثیت سے دیکھتا ہے ،اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو پیٹ میں مروڑ ہی ان دنوں میں ہوتے ہیں ، لیکن ان کی خدمت میں جواب پیش خدمت ہے کہ تکلیف ہوتی ہے تو بندہ چلاتا ہے۔

یہ دس دن پاکستان کے زیادہ تر بڑے شہروں میں بسنے والی عوام کے لئیے بڑے کرب اور تکلیف کے ہوتے ہیں ،
شاید کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پریشانی صرف دو دن کی ہوتی ہے ،ان دو دنوں میں تو پورا پاکستان ہی لاک ڈاؤن ہوجاتا ہے ، لیکن ان دو دنوں سے پہلے کے آٹھ دن بھی کسی اذیت سے کم نہیں ہوتے ۔
میں خود حیدرآباد شہر سے تعلق رکھتا ہوں ، جگہ جگہ شہروں میں خاردار تاریں بچھا کر راستوں کو ہر قسم کی گاڑیوں کے لیے بند کردیا جاتا ہے ، اکثر راستوں پر عوام الناس کو بھی تلاشی کے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ، جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کے ناکے لگے ہوتے ہیں جیسے کرفیو کا سا سماں۔۔
جو راستہ عام طور پر آدھے گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے وہ گھنٹے ڈیڑھ پر محیط ہوجاتا ہے ۔جب پورے ملک کے تمام شہروں کی ایسی حالت ہو تو عوام اپنے جذبات کا اظہار کیوں نہ کرے ، ہمیں عزاداروں اور اہل تشیع حضرات سے کوئی بغض و عناد نہیں ، وہ   تلوار بازی کریں یا زنجیر زنی یا خونی ماتم کریں ، یہ ان کا عقیدہ اور ان کے جذبات کا اظہار ہے ہمیں ان کی عبادت میں کوئی خلل نہیں ڈالنا ۔
لیکن ہمیں حکومت وقت سے یہ شکایت ضرور بنتی ہے کہ اس ملک میں ہر قسم کے مذاہب اور مسلک کے لوگ بستے ہیں وہ بھی اپنی عبادت بھرپور انداز میں مناتے اور کرتے ہیں لیکن کسی کے لئیے دلآزاری کا سبب نہیں بنتے ، اور نہ ہی حکومت وقت کسی اور مسلک اور فرقے کے لوگوں کو شہروں کے بیچوں بیچ اس طرح آزادی سے چھوڑتی ہے ،

حیدرآباد سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر اک چھوٹا سا شہر ہے ٹنڈوالہ یار ، یہاں ہر سال ہندؤوں کا اک میلہ لگتا ہے جسے راما پیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،یہاں ہر سال پورے پاکستان اور انڈیا تک سے یاتری راما پیر کی یاترا کرنے آتے ہیں ، یہ میلہ تین دن تک رہتا ہے ، لیکن مجال ہے روڈ بند ہوا ہو راہ چلتی گاڑیوں یا مسافروں کو کوئی تکلیف پہنچی ہو ۔

ہر سال لاہور میں رائے ونڈ کا اجتماع ہوتا ہے اس اجتماع میں بھی پورے پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ اس اجتماع میں آتے ہیں یہ اجتماع بھی تین دن رہتا ہے لیکن یہاں بھی کوئی تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا ، ہاں کچھ دیر کے لئیے انتظامیہ شہر کے کچھ علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیتی ہے تاکہ اجتماع میں آئے لاکھوں لوگ بآسانی پنڈال سے نکل سکیں اور شہر میں بھی کسی قسم کی افراتفری نہ مچے ،
یہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اجتماع ہوتے ہیں اور انھیں باقاعدہ جگہ فراہم کی جاتی ہے جو شہر سے زیادہ تر فاصلے پر ہی ہوتی ہے تاکہ دوسری عوام کو چلتے پھرتے پریشانی نہ ہو ،
اور یہ تمام تر معاملات حکومت وقت سنبھالتی ہے ،

اب اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی جواز یہ پیدا کیا جائے کہ یہ تو پاکستان بننے سے پہلے کے  ان کے راستے اور روٹ ہیں اب ان میں بدلاؤ نہیں آسکتا ، اور یہ طبقہ اسے ماننے کے لئیے بھی راضی نہیں ، یہ پھر حکومت وقت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ انھیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ اس وقت کے حالات کچھ اور تھے اور اب حالات کچھ اور ہیں ، اس وقت آبادی کا تناسب کم تھا اور شہروں میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی ، اس وقت نہ ہی ناکے لگتے تھے ، نہ ہی خاردار تاریں بچھائی جاتی  تھیں ،  اس وقت اک دوسرے کے لیے مسالک میں اک احترام کا رشتہ بھی موجود تھا ، اب نہ ہی وہ ستر سال پہلے والا ملک ہے اور نہ ہی ستر سال پہلے والے حالات ، اب کچھ معاملات میں لچک دکھانی پڑے گی اس جماعت کے مشیران کو ، اور حکومت کو بھی اسٹینڈ لینا پڑے گا ۔

اگر اک مسلک اس بات پر بضد ہے کہ ہم تو شہادت کے دن کو مناتے ہیں اور ان کی شہادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو پھر کچھ مسلک کے لوگ یہ کہے گے کہ ہمیں بھی محرم کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر فاروق کی شہادت کا دن منانے دیا جائے اور اس دن بھی عام تعطیل کا اعلان کیا جائے  ، اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس دفعہ سندھ میں اک مخصوص جماعت کے لوگوں کو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جلوس نکالنے نہیں دیا گیا سندھ حکومت کی جانب سے ، اور ان کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی گئی ، پھر دوسرے مسلک کے لوگ اس بات میں حق بجانب ہونگے کہ کچھ لوگوں کی طرف حکومت کا جھکاؤ زیادہ ہے ،

ہم تو 12 ربیع الاول کے دن کو بھی منانے کے حوالے سے اپنے بڑوں کو اسی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ آپ اس دن کو ضرور منائیں لیکن عوام الناس کو تکلیف نہ پہنچے ، سب سے پہلے انسانیت ہے ہمیں یہ درس بھی انہی  ہستیوں نے دیا جن کی یاد میں ہم لوگ یہ دن مناتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تحریر کو لکھنے کا مقصد کسی جماعت ،گروہ فرقے یا مسلک کی دلآزاری مقصود نہیں، بلکہ بحیثیت اک انسان ، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر اسے آپ لوگوں کے سامنے مکالمہ کی حیثیت سے پیش کیا ، اور مکالمہ کا مطلب دولوگوں کے درمیان باہمی گفتگو ،تکرار ،بحث مباحثہ ، ٹاکرا ہے ، اب اگر اس تحریر سے کسی کی دلآزاری ہوئی یا وہ اسے تعصب اور مسلک کی عینک سے دیکھتا ہے تو مکالمہ پیش خدمت ہے ۔۔۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مقصد کسی مسلک کی دلآزاری نہیں۔۔۔عبدالرؤف

  1. ایک ایسے معاشرے میں جہاں بسنت اور انٹرنیشنل کرکٹ جیسے اجتماعی زندگی کے مظاہر کو ایک مخصوص مسلک کی طرف سے غیراسلامی قرار دے کر ختم کیا گیا ہو، یہ سوچ فرد کی تنہائی بڑھانے اور لوگوں سے بدعت کے نام پر ثقافت چھیننے کی سوچ ہے۔ برصغیر میں عزاداری کم و بیش ایک ہزار سے جاری ہے اور اس میں معاشرے کے سب طبقات شریک ہوتے رہے ہیں۔ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی طرف سے عزاداری پر حملے شروع کئے جانے سے یہ اجتماعی تہوار سیکورٹی کا محتاج ہوتا گیا۔ اب آہستہ آہستہ دہشتگردی کے خلاف عوام یکسو ہو رہے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ تہوار پرامن ہو جائے گا۔ پھر سڑک کے ایک طرف سے ٹریفک گذرے گی اور دوسری طرف شیعہ، سنی، مسیحی، سکھ، ہندو، سب مل کر نواسہ رسول کا غم منائیں گے۔ پھر سے برصغیر کی تہذیب کا یہ اٹوٹ انگ عالمگیر ہو جائے گا۔
    اب بھی ایک یہی اجتماعی عمل رہ گیا ہے جو دہشتگردی کے سامنے تسلیم نہیں ہوا۔ یہ کبھی بارود والے یا الفاظ کے بموں سے کم رنگ نہیں ہو گا۔
    دہشتگردی کی وجہ سے عوام کو تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے لیکن عوام اس مخصوص سوچ سے عہدہ بر آ ہو کر اپنی اجتماعی زندگی دوبارہ سے جینے لگ جائیں گے۔
    اک ذرا انتظار!

Leave a Reply