• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کانفرنس: “پنجاب میں انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانیہ” کا احوال

کانفرنس: “پنجاب میں انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانیہ” کا احوال

کانفرنس: “پنجاب میں انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانیہ کا احوال”

19 اور 20 اکتوبر، 2016 کو تنظیم، ہوم نیٹ پاکستان، کی جانب سے انتہا پسندی کے بیانیے خلاف جوابی بیانیہ کے زیرِ عنوان منعقدہ کانفرنس بمقام ایواری ہوٹل، لاہور، میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ موضوع چونکہ میری خاص دلچسپی بلکہ فکر مندی کا تھا، اس لیے دعوت قبول کرنا ذمہ داری سمجھا۔تقریب میں ملک کے نمایاں علمی و فکری پس نظر رکھنے والے دانشور شامل تھے۔ سینیئر لوگوں میں معروف تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری اور پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین، پلڈیٹ کے بانی احمد بلال محبوب، مذہبی سکالرز ڈاکٹر شہزاد سلیم اور محترم ساجد حمید، معروف صحافی محترمہ عائشہ صدیقہ، محترم عرفان مفتی، وغیرہ، اور جوان باصلاحیت لوگوں میں ، مجلہ تجزیات کے مدیر محترم عامر رانا، معروف صحافی محترم سبوخ سید، معروف لکھاری محترم فرنود عالم اور محترمہ رامش فاطمہ، مذہبی سکالر ڈاکٹر آصف افتخار وغیرہ شامل تھے۔ حاضرین میں بھی ملک کے نمایاں میڈیا کے نمائندگان، سول سوسائٹی کے افراد وغیرہ موجود تھے۔
دو دن میں کئی سیشنز ہوئے، جن میں مسئلہ زیرِ بحث کے بہت سے پہلوؤں پر تفصیلی بحث ہوئی۔ جن نکات پر شرکاء کا اتفاق پایا گیا وہ کچھ یوں تھے: پاکستان کی ریاست نے خصوصاً صدر ضیاء الحق کے دور میں عالمی استعمار کے ایجنڈے کے تحت جس مذہبی بیانیے کا بیج بویا، اور ہمارے جن اداروں نے قومی اور ادارہ جاتی پالیسی کے تحت اسے اپنائے رکھا اور اس کی مسلسل آبیاری کرتے رہے، اس نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ ہم تاریخ کے اس نازک دور میں داخل ہو گئے ہیں جس میں انتہا پسندی نے ہمارا سماجی اور فکری ڈھانچہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اب تک اس پالیسی کو خیر باد کہنے کا کوئی ارادہ با اختیار اداروں میں نظر نہیں آتا۔
دوسری بات یہ کہ انتہا پسندی کی ایک جہت پاک بھارت تنازعات ہیں، جس میں نمایاں ترین کشمیر کا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہونا انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے از بس ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں یہ مسائل موجود تو ہیں ہی، لیکن، دونوں ممالک کے سیاست دان اور مفاد پرست لوگ ان تنازعات کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے وقتًا فوقتًا اور بھی ہوا دیتے ہیں۔ دوسری طرف دونوں ممالک کا میڈیا اپنی ریٹنگ کے چکر میں اس نفرت کو اور بھی بھڑکاوادیتا رہتا ہے۔ یوں دونوں ملک چند مفاد پرست ٹولوں کے مفاد کی بھینٹ چڑھتے جاتے ہیں۔ دو نسلیں تو اس خونی کھیل میں ضائع ہو چکیں، اب تیسری بھی اسی راہ پر ڈال دی گئی ہوئی ہے۔ دو ایٹمی ملکوں کی یہ باہمی کشمکش انتہا پسندی کو نہایت خطرناک نتائج تک لے جا سکتی ہے۔ دونوں ممالک کی ترجیحات عوام کی بہبود کی بجائے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا جنون ہے، جو کسی کے لیے بھی مفید نہیں۔ میڈیا کے کردار کو بطور خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ میڈیا کے بعض نمائندگان نے اس افسوس ناک رویے کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
ڈاکٹر رفعت حسین نے غربت کو انتہا پسندی کی ایک بنیادی وجہ کے طور پر پیش کیا، لیکن ان کی اس بات سے راقم سمیت کئی دوسرے حاضرین کو اختلاف تھا۔ حاضرین کی طرف سے تبصرہ کیا گیا کہ اگر غربت انتہا پسندی کا کوئی نمایاں عامل ہوتی تو افریقہ کے غریب ممالک میں سب سے زیادہ خود کش بمبار پیدا ہونے چاہیے تھے۔ میرا تبصرہ اس پر یہ تھا کہ اگر ایسا درست ہوتا تو ہمارے ملک کے غریب طبقات میں انتہا پسندی دیگر طبقات سے زیادہ پائی جانی چاہیے تھی، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ غریب لوگوں کی غالب اکثریت انتہا پسندی میں ملوث نہیں ہے۔ غربت ایک نہایت جزوی اور عارضی عامل ہو سکتی ہے، لیکن یہ بنیادی عامل ہرگز نہیں۔ جو لوگ غربت کی وجہ سے کسی انتہا پسندی کا شکار ہوتے بھی ہیں، تو اس کی وجہ غربت پھر بھی نہیں ہوتی، اس کی اصل وجہ ناانصافی کا احساس ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، کہ ایسے علاقے جہاں سارے ہی لوگ غریب ہیں، جیسے کہ میں نے کالام، صوبہ کے پی کے میں دیکھا تھا، وہاں عام لوگ سب غریب ہونے کے باوجود انتہا پسند نہیں ہیں، تاہم جب کبھی کوئی غریب انتہا پسند بنا بھی ہے تو اس احساس کے تحت کہ اس کا حق مار کر کسی دوسرے کو دے دیا گیا ہے، اصل محرک ناانصافی اور استحصال کا احساس کا پایا جانا ہے۔ لیکن موجودہ انتہا پسندی کے عفریت کے پیچھے درحقیقت فکری عوامل کار فرما ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد سلیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے فکری عوامل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ درحقیقت ایک مذہبی بیانیہ ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسلام پوری دنیا پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ کفر کو مٹا دینا چاہیے یا اسے محکوم کر دینا دین کا تقاضا ہے۔ اس کے لیے نجی جہاد کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ نفاذِ شریعت کے اس راستے میں جو لوگ بھی رکاوٹ بنیں، چاہیے غیر مسلم ہوں یا مسلم، ان سے لڑنا اور انہیں قتل کرنا جائز ہے۔اس مذہبی بیانیے کے خلاف جوابی بیانیہ اگر ہو سکتا ہے تو وہ یہ کہ یہ باور کرایا جائے کہ قرآن مجید کا بے لاگ مطالعہ قطعی طور پر یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔ وہ آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ آپ جس حالت میں بھی ہوں، چاہے آپ حاکم ہیں یا محکوم، یا اور کسی حیثیت میں، آپ پر لازم ہے کہ آپ شریعت و اخلاق کے مطابق ایک اچھے مسلمان اور اچھے انسان کے فرائض ادا کریں اور اس کے مطابق کردار اپنائیں۔ خدا نے کہیں بھی حکم نہیں دیا کہ مسلمان ہر حالت میں سیاسی غلبے کی جدوجہد کو لازم پکڑیں۔ اس بارے میں کوئی نص سر ے سے موجود ہی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو جو غلبہ اپنے مخالفین پر ملا تھا وہ اللہ کی ایک خاص سنت کے تحت ملا تھا، جس کی رو سے اللہ اپنے رسولوں کو ان کے مخالفین پر اسی دنیا میں حق کے نشان کے طور پر اور آخرت میں جزا و سزا کا ایک دنیاوی منظر قائم کرنے کے لیے غلبہ عطا کرتا ہے اور رسول کے مخالفین کو ذلیل اور رسوا کر دیتا ہے، اور ان کا استصال کر دیتا ہے۔ اس قانون کا بیان درج ذیل آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے:
كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (سورہ المجادلہ، آیت 21)
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔
دوسرا یہ کہ ذریت ابراہیمؑ سے خدا کا خاص وعدہ ہے وہ اگر درست ایمان و عمل اپنائیں گے تو دنیامیں غالب رہیں گے، برا ایمان و عمل اختیار کریں گے تو دنیا میں ہی ذلیل ہوں گے۔خدا کا جو عذاب منکرینِ رسول پر قدرتی طاقتوں یعنی ہوا، پانی زلزلے وغیرہ کی صورت میں نازل ہوتا تھا، وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت میں صحابہ کی تلواروں کے ذریعے نازل ہوا۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (سورہ التوبہ، آیت 14)
ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔
ڈاکٹر شہزاد سلیم یہ فرما رہے تھے اور میرے ذہن میں قرآن مجید کی چند آیات گونج رہی تھیں: بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالی ٰاس قانون کو قرآن میں یوں بیان فرماتا ہے:
وَ لَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَ مِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم (سورہ المائدہ، آیت 66)
اور اگر (اپنی اجتماعی حیثیت میں) تورات و انجیل پر اور اُس چیز پر قائم ہو جاتے جو اِن کے پروردگار کی طرف سے اِن پر اتاری گئی ہے تو اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے رزق پاتے۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو راستی پر قائم ہے، لیکن اِن میں زیادہ وہی ہیں جن کے اعمال بہت بُرے ہیں۔
بائبل میں کتاب استثنا میں یہ خدا کا یہ وعدہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اُس کے اُن سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی مبارک ہو گا… خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں، تیرے روبرو شکست دلائے گا۔ وہ تیرے مقابلے کو تو ایک ہی راستے سے آئیں گے، پر سات سات راستوں سے ہو کر ترے آگے سے بھاگیں گے… اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے، تجھ سے ڈر جائیں گی… اور خداوند تجھ کو دُم نہیں، بلکہ سر ٹھیرائے گا اور تو پست نہیں، بلکہ سرفراز ہی رہے گا… لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اُس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی تو لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی لعنتی ہو گا… خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو اُن کے مقابلے کے لیے تو ایک ہی راستے سے جائے گا اور اُن کے سامنے سے سات سات راستوں سے ہو کر بھاگے گا اور دنیا کی تمام سلطنتوں میں تو مارا مارا پھرے گا۔‘‘ (۲۸: ۱۔۲۵)ایک اور آیت ذہن میں یہ آئی:
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا (سورہ النساء آیت 54)
کیا یہ (بنی اسرائیل) ان لوگوں (یعنی بنی اسماعیل) سے اللہ کی اُس عنایت پر حسد کر رہے ہیں جو اُس نے اُن پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور اُنھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے۔
ذریت ابرہیمؑ کی یہ بادشاہی یا سیاسی غلبہ کا معاملہ دراصل خدا کی خاص زندہ نشانی اور دین کی تبلیغ و ترویج کے لیے تھا۔ اس خاص معاملے کا عام مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بد قسمتی سے اس بات کو سمجھا نہیں گیا اور ان خاص معاملات کو عام سمجھ لیا گیا۔ خدا کی اطاعت پر غلبے کے ان خاص وعدوں کو اس کا عمومی حکم سمجھ لیا گیا، جو کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دین کے حکم کے ثبوت کے لیے نص کا اثباتی بیان ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد سلیم نے یہ بھی کہا کہ آج یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم کسی کو کافر قرار دے سکیں۔ دنیا میں تقسیم اگر ہے تو مسلم اور غیر مسلم کی ہے۔ کافر قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ یہ قطعیت کے ساتھ معلوم ہو کہ دین حق کا انکار کرنے والا، جان بوجھ کر، اور حق کو حق ماننے کے بعد محض ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کر رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں تو اللہ تعالی ٰوحی کے ذریعے یہ بتا دیا کرتا تھا کہ کون کافر ہے اور کب ان کا استصال ضروری ہے، لیکن اب یہ معلوم کرنا ممکن نہیں، اس لیے کسی پر کفر کے احکام کا اطلاق بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلًا کفار کے خلاف محض ان کے کفر کے سبب قتال کرنا، یا ان کو محکوم بنانا، ارتداد کی سزا دینا، وغیرہ۔
احمد بلال صاحب نے کہا کہ پہلے تعین ہونا چاہے کہ بیانیہ کیا ہے، اس کے بعد ہی جوابی بیانیے کی بات ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ بیانیے کے بارے میں مختلف لوگوں کا اپنا اپنا تاثر ہے۔ ہم خود کسی ایک بات پر متفق نہیں تو جوابی بیانیے پر کیسے متفق ہو سکتے ہیں۔ جوابی بیانیہ ایک بار تشکیل پا جائے تو دوسرا مرحلہ یہ آئے گا کہ اسے معاشرے میں مقبول بنایا جائے۔ بیانیہ وہی چلتا ہے جو سماج میں مقبول ہو۔ اس کی مقبولیت حکومت اور اداروں کو بھی مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس کو قومی پالیسی کے طور پر اپنائیں اور اپنے اپنے گروہی اور ذاتی مفاد کے بیانیے ترک کر دیں۔
پنجاب کے مخصوص تناظر میں انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانیے پر بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ دوسرے صوبوں کا استحصال کیا ہے۔ پنجاب سے انتہا پسندی کے بیانیے فروغ پذیر ہوئے ہیں، جہاں سے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیلے۔
محترم فرنود عالم نے کہا کہ پنجاب میں اس وقت بھی 60 سے زائد مسلکی، فرقہ وارنہ، اور مذہبی عسکری تنظیموں کے مراکز موجود ہیں۔ آپ خود ان کو پالتے ہیں اور پھر خود ہی واویلا کرتے ہیں۔ جناب فرنود عالم اس تقریب میں ایک اہم نکتے پر بہت زور دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دانش وروں اور صحافی برادری میں ماڈرن حلیے اور جدید لب و لہجہ رکھنے والے ایسے افراد بھی شامل ہیں جو جوابی بیانیے کے نہیں بلکہ انتہا پسندی کے بیانیے کے علم بردار ہیں۔ یہ دیکھ کر حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی انتہا پسندی کا جوابی بیانیہ معلوم کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں ان کو پہچاننا ہوگا اور انہیں خود سے الگ سمجھنا ہوگا۔
اس کے بعد ایک سیشن میں شرکاء کو مختلف زمروں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جس میں تعلیم، میڈیا، اور تِھنک ٹینک کے شعبہ جات قائم کیے گئے تھے۔ راقم کو تِھنک ٹینک میں شامل کیا گیا تھا۔ اس سیشن کو راقم اور محترمہ عائشہ صدیقہ نے کنڈکٹ کیا۔ راقم نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سکول ،کالج اور مدرسہ سب جگہ پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا ہے۔ مدرسہ میں ہماری فقہ ہمیں بتاتی ہے کہ دین کا غلبہ دینی فریضہ ہے اس کے لیے جدو جہد خواہ مسلح پرائیویٹ جدوجہد کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، فرض ہے۔ یہی بیانیہ مسجد کے منبر سے تمام عوام کو سکھایا جاتا ہے اور مقبول بنایا جاتا ہے۔ ادھر سکول، کالج کے نصاب میں مطالعہ پاکستان میں ہم دو قومی نظریہ پڑھتے پڑھاتے ہیں جو کہتا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے ہندوؤں سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا و ہ ایک الگ اور مختلف قوم تھے۔ ان کا علیحدہ ہونا ضروری تھا تاکہ وہ آزادانہ طور پر اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہ بیانیہ درحقیقت علیحدگی پسندی کا بیانیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے مثالی صورتِ حال یہ ہے کہ وہ دوسری قومیتوں اور مذاہب والوں سے علیحدہ ہو کر رہیں، تا کہ اسلام پر بغیر کسی مداخلت کے عمل کر سکیں۔ گویا اسلام کوئی ایسا مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو کثیر القومی یا کثیر المذاہب سماج میں رہنے نہیں دیتا۔ مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ صرف اسی صورت میں رہ سکتے ہیں کہ جب وہ غالب حیثیت میں ہوں اور غیر مسلم محکوم ہوں۔ چنانچہ سکول، کالج اور مدرسہ دونوں کا پروردہ ذہن، فکر ی سطح پر بالآخر ایک صفحے پر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی صرف مدارس میں نہیں کالج اور یونیورسٹیوں میں بھی پروان چڑھ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ عسکری تنظیموں کو سماج کے مختلف طبقات میں اتنی مقبولیت حاصل ہے جو ان کو زندہ رکھنے کے لیے بہت کافی ہے۔ راقم نے مزید کہا کہ قائد کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا حوالہ دینے سے مطلوبہ نتائج نکالنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جب کہ قائد کی 1940 کے بعد کی ساری جدوجہد ایک مذہبی بیانیے پر کھڑی ہے۔ راقم نے تجویز کیا، کہ ڈاکٹر شہزاد سلیم کے پیش کردہ بیانیے کو ترویج دی جائے اور مطالعہ پاکستان میں بھی دو قومی نظریے کو اگر خیر باد نہیں کہا جاتا تو اس کو ایک ماضی کا واقعہ سمجھ کر پڑھایا جائے۔اس نظریے کا کوئی جواز اگر تھا تو ماضی میں تھا اور پاکستان بننے کے بعد اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس نظریے پر اذہان کی تشکیل کا مزید کام اب روک دینا چاہیے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سب سے آخری سیشن میں کچھ شرکاء نے راقم کی ان تجاویز کو جزوی طور پر اپنے بیان میں شامل کیا۔
محترم عرفان مفتی نے زور دیا کہ اس انتہا پسندی کا توڑ لبرل اور سیکولر مناہج اپنانے میں ہے۔ کچھ اور احباب بھی اسی نقطہ نظر کے قائل تھے۔ اس پر دیگر حضرات نے کہا کہ انتہا پسندی کا موجودہ بیانیہ اپنی اصل میں ایک مذہبی بیانیہ ہے۔ اس کو کسی لبرل بیانیے سے بدلنا ممکن نہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک مذہبی بیانیہ ہی لانا ہوگا۔ راقم نے اس کی تائید کی اور اس پر یہ اضافہ کیا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذہب کی طرف سے بیانیہ صرف وہ ہے جو انتہا پسند اپنائے ہوئے ہیں اور مذہب اس کے لیے علاوہ کوئی بیانیہ دے ہی نہیں سکتا تو ان کا خیال درست نہیں، ٹھوس مذہبی بنیادوں پر مستحکم دلائل کے ساتھ جوابی بیانیہ تشکیل پا چکا ہوا ہے۔ جس کا کچھ اظہار ڈاکٹر شہزاد سلیم نے کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس بیانیے کو سمجھا جائے تو اس کو ترویج دی جائے۔ ہمارے دکھوں کا مداوی اسی میں ہے۔
رات کے کھانے پر جناب فرنود عالم صاحب سے مختصر گفتگو ہوئی۔ وہ فرما رہے تھے کہ عسکریت پسندی کا موجودہ بیانیہ دراصل فکرِ مودودی کے حاکمیتِ اسلام کے نظریے سے پھوٹا ہے، جسے دیوبند نے گود لے لیا۔ ضروری ہے کہ دیوبند کو ان کے اپنے اسلاف ،مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا محمود الحسن دیوبندی، مولانا عبید اللہ سندھی کے خیالات اور مناہج یاد دلایا جائیں کہ ان کی اصل ان کے یہ اسلاف ہیں ۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ دیوبند کے ہاں اس عسکریت پسندی کا بیانیہ مودودی صاحب سے پہلے سے موجود تھا۔مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا محمود الحسن سے پہلے والے اسلاف بھی دیوبند کے اسلاف ہی ہیں جو اسی بیانیے کے علم بردار تھے، جو بعد میں مولانا مودودی نے پیش کیا۔ شاہ ولی اللہ نے امام کے جو فرائض اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بتائے ہیں، وہ وہی ہیں جو ہماری روایتی فقہ میں بیان ہوئے ہیں۔ مسلمانوں سے جب حکومت اور ریاست چھن گئی تو اسی امام کے تصور سے ریاست کو جدا کرکے فقط امام کو ہی ریاستی احکامات و فرائض کا مصداق باور کرا لیا گیا۔ اس تبدیلی کا اظہار سید احمد شہید اور ان کی تحریک کی صورت میں عملی طور پر پیش کیا گیا جس کی تائید شاہ ولی اللہ کے خانوادے نے کی۔ دیوبند کی فکری بنیاد شاہ ولی اللہ ہیں اور عملی بنیاد سید احمد شہید کی تحریک ہے۔ ان کے پاس حاکمیتِ اسلام کی فکر و عمل دونوں کے منابع فکر مودوی سے پہلے موجود تھے۔ مولانا مودودی نے تو اس فکر کو منطق اور دلائل کا نیا پیراہن پہنایا ہے۔ مولانا مودودی کا یہ کام درحقیقت اس وقت کے مسلمانوں کے سیاسی حالات کا ایک ردعمل تھا۔ عالمی سطح پر مسلمان خلافت سمیت ہر جگہ اپنی حاکمیت کھو کر غیر قوموں کے غلام ہو گئے تھے۔ اس زخم خوردہ سیاسی تفوق نے فقہ میں موجود اسلام کی سیاسی بالادستی کے بیانیے کو نئے استدلال سے پیش کرنے کا کام کیا ہے ۔ فرض کیجیے۔ مولانا مودودی نہ بھی ہوتے، تب بھی دیوبند اسی نہج پر خود سے پہنچ جاتے، کیونکہ سیاسی طور پر مسلمانوں کی ہزیمت کو بالادستی میں بدلنے کی سیاسی ضرورت کا احساس دین کا بیانیہ لانے کی متقاضی تھا۔ ضرورت موجود ہو تو کوئی نہ کوئی تعبیر دینے کو آ موجود ہوتا ہی ہے۔ اس لیے یہ ہونا ہی تھا۔
ایک اتفاق یہ ہوا کہ ہمارے ہوٹل، جس میں انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانیہ کی تقریب منعقد کی گئی تھی، اس کے باہر سڑکوں پر مولوی حضرات نے دھرنا دے رکھا تھا ۔ اور ان کے بیانیے کی آوازیں لاؤڈ سپیکر سے اندر تک آ رہی تھیں۔ اس پر جناب سبوخ سید نے خوب تبصرہ کیا کہ بیانیہ باہر کھلے بندوں بیٹھا ہوا ہے اور جوابی بیانیہ چار دیواری میں بیٹھا ہوا ہے۔ شرکاء نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ان مباحث کو ہوٹل کی چار دیواری سے نکال کر سماج میں لایا جائے اور مباحثے منعقد کرائے جائیں۔
ایک اور اتفاق یہ ہوا کہ تقریب کے آغاز میں قاری صاحب نے قرآن مجید کی جو تلاوت فرمائی، وہ سورہ بقرہ کی یہ آیت تھی:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
قاری صاحب نے ترجمہ کرتے وقت اس آیت کے سادہ ترجمے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس آیت میں مذکور فساد کی اپنی ایک تفسیر کرنا بھی ضروری سمجھی۔ فرمایا ’’ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو، (یعنی شریعت کے مطابق زندگی گزارو)، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔
اس پر ایک سابقہ بیوروکریٹ نے توجہ دلائی کہ یہ کانفرنس جو انتہا پسندی کے جوابی بیانیے کے لیے منعقد کی گئی ہے ، اس کے آغاز میں ہی بیانیہ آ موجود ہوا ہے۔ قاری صاحب نے قرآن کا سادہ ترجمہ کرنے کی بجائے، یعنی کہ فساد کی جو تشریح کی ہے وہ اپنا پیغام سب کو دے گئی ہے، یعنی کہ فساد وہ کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے، اب اس بات کا دائرہ کہا ں تک جاتا ہے خود دیکھ لیا جا سکتا ہے۔

کانفرنس میں ایک کمی یہ محسوس ہوئی کہ مروجہ روایتی مذہبی بیانیے کی نمائندہ کوئی مذہبی شخصیت مدعو نہیں تھی۔ اگر وہ لوگ بھی ہوتے تو کم از کم انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ سماج کے دیگر حصوں میں ان کے پیش کر دہ بیانیے کے بارے میں کیا رائے پائی جاتی ہے۔ وہ جان پاتے کہ
کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا

Advertisements
julia rana solicitors

اس بات کا افسوس ہوا کہ حکومتِ پنجاب کی طرف سے باوجود ان کی طرف سے یقین دہانی کے کوئی ذمہ دار شخصیت کانفرنس میں شریک نہیں ہوئی۔ البتہ ان کی طرف سے انتہا پسندی کے خاتمے کی حکومتی کوششوں پر مشتمل ایک ویڈیو پیش کی گئی جو کافی مایوس کن رہی۔ اس میں بتایا گیا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کو ن کون سے قوانین منظور کیے ہیں، کچھ نغمے تشکیل دیئے ہیں، تعلیمی اداروں میں اس مسئلے کے بارے میں ٹیبلوز کروائے ہیں، تقاریری مقابلے منعقد کروائے ہیں، اور دینا کا سب سے بڑا جھنڈا بنوایا ہے!
آخر میں سفارشات مرتب کی گئیں۔ جس میں ہم نے تجویز کیا کہ پرائمری کی تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ اس لحاظ سے مدارس کو صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرنا چاہیے۔ 12 سالہ وسیع البنیاد تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ کسی بچے کو بغیر اس 12 سالہ وسیع البنیاد تعلیم کے کسی خصوصی تعلیم کے ادارے میں داخل کرنا اس کی فطری صلاحیتوں کا استحصال ہے، زیادتی ہے۔ 12 سال کی تعلیم کے بعد بچے کا حق ہے چاہے تو عالمِ دین بنے ، طب، انجینئرنگ، اکاؤنٹس وغیرہ جس شعبے میں اس کا رجحان ہو، اختیار کرے۔سفارش کی گئی کہ مدراس اور عصری تعلیمی اداروں کے نصابات کا جائزہ لے کر مناسب اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔
دو دن کا یہ سیشن کافی ہنگامہ خیز اور ذہنی و فکری اعتبار سے سود مند رہا۔ اس بات کی امید بندھی کہ حکومتی سطح پر اب جوابی بیانیے کی ضرورت کا احساس کافی حد تک موجود ہے۔ حکومت کی حالت بتیس دانتوں میں زبان کی طرح ہے۔ اور اسے اسی محدودیت میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ کاش کے ملک کے تمام ذمہ دار ادارے اس بات کا احساس کریں کہ انتہا پسندی کی آبیاری کرنا ملک اور سماج کے لیے کتنا تباہ کن ہے۔ مزید اس پالیسی کو جاری رکھنا خود کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت کی درست رہنمائی کی جائے اور مؤثر جوابی بیانیے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply