عالمی بینک کی یروشلم منتقلی اور پاکستان

اس وقت اقوام عالم ایک نئے دور سے گزر رہی ہیں۔ دعوؤں کے برعکس علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیاں ہر ذی شعور کے لئے فکر کا باعث ہیں۔ دنیا میں تبدیلی اور اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز تو نائن الیون کے بعد ہی شروع ہوچکا تھا، لیکن اس اکھاڑ پچھاڑ اور اصل محرک کی تصدیق ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد ہوئی۔ دنیا اب گلوبلائزیشن سے نکل کر علاقائیت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ امریکی صدر کے الیکشن مہم بیانات اور انکے حالیہ اقدامات انکی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کررہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ اپنے ملک تک محدود ہونے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف وہی امریکہ “;مدر آف بمز” کو ننگر ہار پر گرا دیتا ہے.
امریکہ نے اپنی اس کارروائی کا جواز داعش کے ٹھکانوں کا خاتمہ بتایا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام سے داعش افغانستان میں معدوم لازمی ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوسکتی۔ امریکہ کا یہ عمل خطے کےممالک کے لئے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ ” ہم آج بھی اتنے ہی طاقتور ہیں”۔ امریکہ نے خطے میں بننے والے نئے بلاک کو بھی ایک خاموش پیغام دیا ہے کہ جو مرضی کرلو ،ہمارا دور ابھی باقی ہے۔ امریکی حملہ جہاں پر کئی سوالات چھوڑ رہا ہے وہیں اس حملے کی آواز مشرق وسطی ٰکے ایوانوں تک جاپہنچی ہے۔ مسئلہ شام ہو یا فلسطین امریکہ نے اپنی طاقت کا پتہ شو کروا دیا ہے۔ دنیا اس وقت تیزی سے بدل رہی ہے ، عالمی بینک کا مرکز اطلاعات کے مطابق ۲۰۱۸ تک یروشلم منتقل ہو جاۓ گا۔ یعنی کہ عالمی معیشت کی باگ ڈور سیدھی اسرائیل کے ہاتھ چلی جاۓ گی.
سونے اور تیل کی قیمتوں کا تعین لندن اور نیویارک کی بجاۓ یروشلم میں ہوگا۔ دنیا میں اس تبدیلی کے معاشی لحاظ سے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ سونے کی کرنسی سے جب کاغذ پر دنیا آئی اور پھر تیل کا لین دین ڈالر کے عوض ٹھہرا اسکے اثرات ابھی بھی چند ممالک پر ہیں۔ لیکن حالیہ تبدیلی اور اسرائیل کے بڑھتے ہوۓ عمل دخل نے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں خاصی تشویش پیدا کردی ہے۔ عالمی بینک کی یروشلم منتقلی کے بعد پلاسٹک کرنسی کا دور آۓ گا اور دنیا کے وہ تمام ممالک جن کے زر مبادلہ کے ذخائر ڈالر میں ہیں، مفلوج ہو کر رہ جائیں گے۔ اس ساری صورتحال میں وہی ملک کامیاب ہوگا جس کے ذخائر سونے میں ہوں گے۔ اس بابت چین نے آج سے بیس سال پہلے ہی اپنا زر مبادلہ سونے میں تبدیل کرنا شروع کردیاتھا۔ جس کی وجہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں کو پرلگ گئے تھے۔
اس کے اثرات دنیا کے ترقی پذیر ممالک پر سب سے زیادہ ہوں گے۔ کیونکہ آن لائن لین دین کا نظام اور کریڈٹ کارڈز کی وجہ سے ان ممالک کو مشکلات ہوسکتی ہیں۔ جو ملک آنکھیں دکھاۓ گا اس کا حقہ پانی بند کردیا جاۓ گا۔ دنیا ایک ایسی عالمی بدمعاشی کی جانب بڑھنے جارہی ہے،جس سے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو تقویت مل رہی ہے۔ اسرائیل بظاہر رقبے میں چھوٹا ترین ملک ہے اور عام یہی سوال ہوتا ہے کہ اتنا چھوٹا ملک کیسے دنیا کو چلاۓ گا؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ دنیا کو چھوٹا کردیا جاۓ، مطلب کے علاقائی،لسانیت پرستی کو ابھارا جاۓتاکہ ممالک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں۔
اس سارے تناظر میں اس کا آغاز ٹرمپ کی کامیابی سے شروع ہوچکا ہے۔ امریکہ میں کلیگزٹ تحریک کاآغاز، مشرق وسطی ٰمیں فرقہ بندی کی آگ اور پاکستان میں لسانیت اور صوبائیت کی حالیہ ہوا اس امر کو مزید تقویت بخش رہی ہیں۔ دنیا تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ ہر ملک اپنی ترجیحات کو وقت کے ساتھ ساتھ بدل رہا ہے۔لیکن ہم آج بھی آل ِسعود کے مطابق ہی چل رہے ہیں۔ ہم آج ایران سے اپنے تعلقات آل سعود کی وجہ سے بہتر نہیں کرپارہے۔ آج پاکستان کی خارجہ پالیسی وہی ستر اور اسی کی دہائی پر مشتمل ہے۔ ہم آج اس عالمی معیشت کے رموزواقاف سے ناواقف ہیں۔ اردگان کی حالیہ کامیابی جہاں پر مغرب کے لئے اپ سیٹ سے کم نہیں ہے وہیں پر مشرق وسطیٰ میں مضبوط قیادت کا ظہور بھی سمجھا جارہا ہے۔
آخر ہم کب تک دوسروں کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ اسرائیل کی ممکنہ عالمی طاقت سے دوراۓنہیں ہے۔ ہم اپنی پالیسی کو کب عالمی حالات سے ہم آہنگ کریں گے۔ ہم آج بھی اپنی خارجہ پالیسی کو کشمیر اور افغانستان سے باہر نہیں لا سکتے۔ آخر ہم کب ترقی کی منازل طے کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو اسرائیل کے متعلق سوچنا ہوگا۔ آیا کہ تعلقات استوار کرنے چاہئیں یا نہیں؟ کیونکہ مفاد کو عزیز رکھنا بنتا ہے۔ اس لئے ہمارے حکمرانوں کو براستہ ترکی اپنے بہتر تعلقات کی جانب گامزن ہونا پڑے گا۔ آل سعود اگراپنے مفادات کی خاطر اسرائیل کو اپنا رہے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply