لبرل جمہوریت اور پرولتاری آمریت

جمہوریت کا تصور کوئی جدید عہد کی پیداوار نہیں ہے بلکہ انسانی سماج کے ارتقا کو دیکھا جائے توقدیم اشتمالی سماج عین جمہوری سماج تھا جہاں گروہوں اور قبائل میں منتظمین کا انتخاب جمہوری طریقہ کار اور کثرتِ رائے کے بجائے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے کیا جاتا تھا۔ پیداوری قوتوں کے ارتکا نے سماج کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا اور جمہوری روایات آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگیں۔ آبادی میں اضافہ اور زرعات کے آغاز نے ذاتی ملکیت کو جنم دیا۔ طاقتور قبائل نے کمزور قبائل کی زمینوں پر بزور شمشیر قبضے کئے اور لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا اور یوں غلام داری نظام کا آغاز ہوا جو آگے چل کے جاگیرداری میں تبدیل ہوگیا۔ جاگیرداری میں باقاعدہ آمرانہ بادشاہتوں کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں منتظمین کا انتخاب جمہوری تھا جو کہ بعد میں موروثی ہوگیا۔ غلام داری یونان اور روما میں ریاستی کونسل یا سینیٹ کا انتخاب جمہوری روایات کے مطابق ہوتا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ جمہوری عمل میں اشرافیہ شامل تھے عوام کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ سرمایہ داری نظام کے آتے ہی ضرورت درپیش ہوئی کہ پرانے ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر دیا جائے اور نیا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس کی مرکزی اساس لبرل جمہوریت ہے۔ قدیم اشتمالی سماج میں اتفاق رائے جبکہ موجودہ لبرل جمہوریت میں کثرتِ رائے سے انتخابات ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں جب سرمایہ داری نظام کے خد و خال واضح ہوئے تو بہت سے مفکرین نے اشتراکیت کو سرمایہ داری کا متبادل بتایا۔ انہیں مفکرین میں سائنسی سوشلزم کے بانی کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز بھی شامل تھے۔ مارکس ہی وہ شخص تھے جنہوں نے سب سے پہلے پرولتاری آمریت کی اصطلاح استعمال کی۔ مارکس کہتے ہیں:
“مجھ سے قبل بورژوا مورخوں نے طبقات کے درمیان کشمکش کی بخوبی تشریح کر دی ہے میرا اپنا حصہ یہ ہے (1) طبقات کا وجود محض پیداواری قوتوں کے ارتکا کے تاریخی مراحل سے جڑا ہوا ہے (2) طبقاتی جدوجہد لازم طور پر پرولتاری آمریت کو جنم دیتی ہے اور (3) یہ آمریت طبقات کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھنے کہ سوا کچھ نہیں”۔
چنانچہ پرولتاری آمریت مارکس کا ہی دیا ہوا فلسفہ ہے۔
1917 میں کامریڈ لینن کی قیادت میں سوویت یونین کے قیام نے پرولتاری آمریت کو عملی ثابت کر دیا۔ پرولتاری آمریت کے خلاف لبرل حلقوں کا پروپیگنڈا اسے جابر آمرانہ نظام حکومت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وضاحت ہمیں لبرل جمہوریت اور پرولتاری آمریت کے مطالعہ سے ہوگی، پرولتاری آمریت لبرل جمہوریت سے زیادہ افضل ہے۔
جمہوریت کے لغوی معنی ہیں “لوگوں کی حکمرانی”۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ “دیموس” یعنی “لوگ” اور “کریتوس” یعنی “حکومت” کا مرکب ہے۔ بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی “اکثریت کی بات ماننا”، لیکن در حقیقت یہ اکثریت کی اطاعت کا نام ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یونانی مفکر ہیروڈوٹس کہتا ہے: “جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو
حاصل ہوتے ہیں”۔ چنانچہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول “عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے” اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا لبرل جمہوریت اس قول پہ پورا اترتی ہے؟ دنیا میں جن ممالک میں جمہوریت کا پرچار کیا جاتا ہے وہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام کی اکثریت کا عمل دخل ووٹ دینے کی حد تک ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ عوام ووٹ کے ذریعے 4 یا 5 سال کے لیے کثرتِ رائے سے اپنے نمائندے چنتے ہیں اور مدت پوری ہونے پر یہ ہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ لبرل جمہوریت کے پرستاروں کا بلند و بانگ دعویٰ​ کہ حکومت عوامی اکثریت کی نمائیندہ ہوتی ہے اسی وقت زمیں بوس ہو جاتا ہے جب انتخابات میں کل ووٹروں کا 30 سے 60 فیصد حق رائے دہی استعمال کرتا ہے۔ یعنی ووٹروں کا تقریباً نصف حصہ انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتا۔ اور یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کرتی جس کی وجہ سے عوام دشمن کرپٹ عناصر حکومت میں آ جاتے ہیں، عوام کو چاہیے کہ اپنے حلقوں میں سے امیدوار کھڑے کرے انہیں ووٹ دیں اور کامیاب کرایں تاکہ عوام دوست حکومت کا قیام ہو۔ یہ لفاظی سننے میں نہایت دلکش ہے مگر حقیقت سے کوسوں دور۔ اس کی وجہ جمہوری نظام کے نام پر جو طریقہ کار ہے اس میں کسی عام آدمی کی شمولیت کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ حال ہی میں امریکی صدارتی انتخابات ہوئے جس میں دو صدارتی امیدواروں ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہموں پر بتدریج 4.5 کروڑ اور 2.5 کرورڑ امریکی ڈالر خرچ ہوئے جبکہ اشتہارات کی مد میں ٹرپ نے 3.6 کروڑ اور کلنٹن نے 1.8 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو سرکار کی طرف سے انتخابی اخراجات کی مقررہ حد صوبائی اسمبلی کے لیے 10 لاکھ روپے اور قومی اسمبلی کے لیے 15 لاکھ روپے ہے جبکہ اصل اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے لیے لگ بھگ 2 کروڑ اور قومی اسمبلی کے لیے تقریباً 4 کروڑ روپے درکار ہیں۔ اگر ہم بلدیاتی انتخابات کی بات کریں تو ایک جنرل کونسلر کو 1.5 لاکھ اور تحصیل کونسل کے انتخابی مہم کے لیے کم از کم 4 لاکھ روپے درکار ہیں۔ یہ کثیر رقوم ایک غریب 13000 ماہانہ آمدنی والے مزدور، کسان یا زہنی محنت کرنے والے اساتذہ کے لیے جمع کرنا ناممکن ہے۔ عوامی حلقوں سے انتخابات میں حصہ نا لینے اور نا اہل لوگوں کو انتخاب کرنے کا ملبہ عوام پر ڈالنا دراصل عوام کو بیوقوف بنانا ہے۔ لبرل جمہوریت دراصل بورژوازی کی آمریت ہے یعنی سرمایہ دار طبقے کی آمریت ہے جو سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی محافظ ہے۔ پرولتاری آمریت لبرل جمہوریت کا متضاد اور متبادل ہے جو کہ محنت کش طبقے یعنی اکثریت کی آمریت ہے اس کے برعکس لبرل جمہوریت اقلیتی طبقے یعنی سرمایہ داروں کی آمریت ہے۔ پرولتاری آمریت محنت کش طبقے کے مفادات کی محافظ ہے۔اور یہ عبوری دور کے لیے ہوتی ہے ۔پرولتاری آمریت کی عملی مثال سوویتس کے نظام میں بخوبی ملتی جوکہ لیننی نظریہ جمہوری مرکزیت کی بنیادوں پر استوار ہے۔ محنت کشوں کی نمائندہ سوویت یا کونسل تشکیل دی جاتی ہے جو نچلی سطح سے اوپر کی طرف آتی ہیں۔ تمام فیکٹریوں، کارخانوں کے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں، اساتذہ،
خواتین پر مشتمل ہوتی ہیں۔ نمائیندوں کے انتخابات بالا رنگ و نسل و جنسی امتیاز کے ہوتے ہیں اور ووٹ کا حق تمام شہریوں کو حاصل ہوتا ہے۔ انتخابات میں تمام شہری حصہ لے سکتے ہیں۔ انتخابات کثرتِ رائے کے بجائے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں جو کہ حقیقی معنی میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تمام تر فیصلے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے ہی طہ پاتے ہیں۔ علاقائی سوویتس کے نمائندے ضلعی سوویتس کو چنتے ہیں، ضلعی سوویتس صوبائی اور صوبائی سوویتس قومی سوویت کو چنتی ہیں۔ تمام تر مسائل اور قوانین علاقائی کونسلوں سے لے کر قومی کونسل تک بہث و مباحثے کے بعد اتفاق رائے سے منظور یا رد کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے تمام محنتکشوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں اور عوام کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ان فیصلوں کو منظوری سے پہلے اتفاق رائے سے رد کر دیں۔ یہ ہی طریقہ کار کونسل نمائندگان کے چناو میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بورژوا جمہوریت کے برعکس پرولتاری آمریت میں نمائندوں کی ناقص کارکردگی کی بنا پر عوام جب چاہیں اپنے نمائندے واپس بلا سکتے ہیں اور نئے نمائندے منتخب کر سکتے ہیں۔ پرولتاری آمریت میں فیصلے عوامی اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں جبکہ لبرل جمہوریت میں حکمران اپنے فیصلوں کو عوام پر مسلط کرتے ہیں جن میں عوامی رائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ لبرل جمہوریت بورژوازی یعنی سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتی ہے اسی طرح پرولتاری آمریت پرولتاریہ یعنی محنت کش طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ لبرل حلقوں کا یہ پروپیگنڈہ کہ پرولتاری آمریت رجعتی جابر آمرانہ طرز حکومت ہے بے بنیاد ہے بلکہ پرولتاری آمریت لبرل جمہوریت سے زیادہ جمہوری ہے جہاں کثرتِ رائے کے بجائے اتفاق رائے ہوتی ہے، جہاں عوامی مشاورت کا عمل دخل ہوتا ہے، جو اکثریت کی نمائندگی ہے اور لبرل جمہوریت کی طرح دکھاوے کی نہیں بلکہ صحیح معنی میں جمہوری طرزِ حکومت ہے۔

Facebook Comments

ضیغم اسماعیل خاقان
میں اسلام آباد میں مقیم ہوں اور سماجی علوم کے مطالعہ اور تحریر و تقریر میں مصروف ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply